ڈاکٹر جاوید اقبال
10 جون، 2013
عصر حاضر میں تہذیبوں کے تصادم کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے لیکن اِن رقم شدہ تحریروں میں حالیہ کچھ برسوں میں سموئیل پی ہن ٹنگٹن کی تصنیف تہذیبوں کا تصادم سب سے زیادہ موضو ع بحث بنی رہی ہے ۔ مصنف کا یہ دعویٰ کہ تہذیبوں کے درمیان تصادم ناگزیر ہے، گرچہ نیا نہیں البتہ تصنیف ایک ایسے زمانے میں رقم ہوئی جب کہ مسلمانوں کے احیائے نوکی کئی تحریکوں نے جنم لیا ہے۔ عالمی محفلوں میں اسے مسلمانوں کی طرف سےاپنا مناسب مقام تلاش کرنے کی سعی ماننے کے برعکس اسے ایک اور ہی عنوان دینے کی کوشش کی جارہی ہے اور وہ یہ کہ مسلمانانِ عالم اپنے شاندار ماضی کی باز یافت یا ایسا کہیں کہ ماضی کے اُس دور کو منظر عام پہ واپس لانے کی تلاش میں ہیں، جب مسلمانوں کااقوام عالم میں افضل ترین مقام تھا ۔ہن ٹنگٹن کی طرح کئی اور مغرب کے اہل قلم و دانش مغربی دنیا کو خطرے کی گھنٹی بجاتے ہو ئے خبر دار کرناچاہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ ایسا اتفاق پیش آئے ، اُس کے تدارک کی حتی الا مکان سعی کی جانی چاہیے ۔
ہن ٹنگٹن کی انگریزی زبان میں رقم شدہ اس تصنیف کا ترجمہ و تجز یہ ڈاکٹر محمد شفیع خان شریعتی نے کیا ہے اور یہ بھر پور تجزیہ پچھلےکئی دنوں سےمیرے زیر مطالعہ رہا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کیلئے تادم حیات قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے کی سزا مقرر کی گئی ہے لیکن اتنی سخت سزا سہنے کے دوران بھی کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ہن ٹنگٹن کی تصنیف کے تجزیے و ترجمے میں جس جانفشانی سے کام لیا ہے، و قابل تحسین ہے ۔ اُنہوں نے ایک قومی فریضہ بحسن خوبی نبھا یا ہے ۔ کتاب کے ترجمے و تجزیے میں جو پہلو شخص ہے ، وہ موصوف کا انداز بیان ہےجہاں تلخی کا کوئی بھی عنصر نظر نہیں آتا حالانکہ اُن کی رو داد حیات کو دیکھتے ہوئے تلخی کا عنصر وجود میں شامل ہونا ایک طبعی رد عمل قرار دیا جاسکتا تھا لیکن ان کی تجزیہ کاری صرف و صرف علمی انداز اپنائے ہوئے نظر آتی ہے ۔ ہاں ! کہا جاسکتا ہے کچھ ان کہی باتیں ہیں جن کو تجزیہ کاری میں سما یا جاسکتا تھا ۔
ڈاکٹر شریعتی نے کتاب کے پہلے ہی باب، جو کہ ‘ عرض مترجم’ کا عنوان لئے ہوئے ہے ، میں سارے موضوع کا قابل قدر احاطہ کیا ہوا ہے اور شیخ سعدی کے پندو نصائح ، جو جازب اشعار میں بیاں ہوئے ہیں، سے بنی آدم کے باہمی تعلقات کے بارے میں اسلامی نظریات کی ترجمانی کی ہے۔ ملت اسلامیہ کے اِس عظیم مفکر نے انسانی تہذیب کی ماہیت اور اہمیت کو بیاں فرمایا ہے:
‘‘ تمام انسان ایک دوسرے کے اجزائے بدن ہیں کیونکہ وہ ایک ہی مادہ تخلیق سے پیدا کئے گئے ہیں۔ اگر گردش روزگار سے کسی عضو کو تکلیف پہنچی تو دوسرے اعضا بھی درد محسوس کرتے ہیں۔ اسلامی اقدار کی اس فلک شگاف و ضاحت کے باوجود تہذیبوں کے تصادم کا شہرہ ہے ۔ ڈاکٹر شریعتی کی رائے میں ہن ٹنگٹن نے اپنی تصنیف کی شہہ برنا ر ڈلیوس سے لی ہے۔ موصوف برطانوی شہریت رکھنے والے یہودی نژاد تھےجنہوں نے دوسری جنگ عظیم میں برطانوی فوج میں کام کیا، پھر دفتر امورِ خارجہ سے منسلک ہوئے اور 1982 میں انہیں امریکی شہریت ملی۔ انہوں نے بھی اپنے ایک مقالے ‘‘ مسلمانوں کے غصے کی جڑ’’ ، جو امریکہ کے ایک رسالے میں شائع ہوا، ایک قدیم حریف ( یعنی مسلمانوں) کی تحریک کو یہودی نصاری ورثے و سیکولر اعتقاد کے خلاف غیر منطقی مگر تاریخی رد عمل قرار دیا ۔ موصوف نا صحانہ لہجے میں رقم طراز ہیں ‘‘ ہمیں اس حریف کے خلاف اسی طرح کے تاریخی بلکہ ایسے ہی غیر منطقی رد عمل کے طیش میں نہیں آنا چاہیے ’’ ۔ یہ نا صحانہ لہجے شاید اُن افراد کو متاثر کرسکیں جو غرب زد گی کا شکار ہیں یعنی جن کا قبلہ و کعبہ غرب ہے لیکن یقیناً انہیں متاثر نہیں کرسکتا جو اس نا صحانہ لہجے کی کاٹ سے واقف ہیں۔
بر نا ڈر لیوس اور ہن ٹنگٹن جیسے دانشورانِ مغرب کیلئے مسلمانان عالم کی کوئی بھی روش منطقی نہیں ہوسکتی اور اہلیان مغرب کا کوئی بھی اقدام خارج از منطق نہیں ہوسکتا ۔ ڈاکٹر شریعتی نے اپنے تجز یاتی دفاع میں صحیح کہا ہے کہ اہل مغرب اُس زمانے میں تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے جب مسلمانوں نے تہذیب و تمدن کی نئی روایات کو بغداد اور قرطبہ ( اسپین : اندلس) کے مدارس میں استوار کیا لیکن جیسا پہلے اشارہ ہوا ہے کہ کچھ مطالب ، کچھ باتیں ان کہی رہ گئی ہیں۔ مذہبی دائرے میں پر کھا جائے تو یہودی نصاری ورثے کی بات دل کو نہیں لگتی ۔ پوچھا جاسکتا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہودی مذہبی پیشواؤں کے غیر منطقی رویے، جس میں فلسطین کے غریب و غربا سے ہیکل سلیمانی پر نذر انے وصول کرنے کی روایت بھی شامل تھی، کے خلاف یروشلم ( بیت المقدس) میں علمِ بغاوت بلند کیا تو اِس جلیل القدر پیغمبر جن کی ذات اقدس مسلمانانِ عالم کیلئے واجب الا حترام ہے، رومی گورنر پوئنٹس پیلیٹ کے دربار میں اُن کے لئے صلیب پر سزا ئے موت کا تقاضا کس نے کیا ؟ اگر اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل وکرم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیلئے آسمانوں کی راہیں ہموار نہ کی جاتیں تو یہودی مذہبی پیشواؤں کی مرادیں تو بر آئیں تھیں۔ اس کے باوجود بھی کون سے یہودی نصاریٰ ورثے کی بات کی جارہی ہے جس کا اہل کتاب کی معتبر تحریروں میں کہیں سراغ نہیں !
تصویر کے دوسرے رخ پر بھی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ جب تاریخ کے وسطی دور میں قسطنطنیہ میں عیسائیوں کی باز نطینی حکومت کا دور دورہ تھا تو سینٹ پال کی یہودی دشمنی کی تقلید میں وہ کون سا ظلم تھا جو یہودیوں کیلئے روا نہیں رکھا گیا ۔ سینٹ پال، جو ابتدا میں خود بھی یہودی تھا، نے یہودیوں کا قافیہ زندگی تنگ کرکے رکھ دیا تھا اور جب مسلمانوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت و حضرت ابو عیبد ہ بن الجراح کی سر براہی میں دمشق کو مملکتِ اسلامی میں شامل کیا تو مسلمانوں کی مذہبی رواداری کے جذبے نے یہودیوں کے لئے چین سے سانس لینے کی راہ ہموار کر لی اور جب فوجی حکمت عملی کو در پیش رکھتے ہوئے مسلمانوں کو کچھ عرصے کیلئے عقب نشینی رکھنی پڑی تو دمشق کے یہودی رو پڑے ۔ ایسی تاریخی شہادتوں کے ہوتے ہوئے یہودی نصاری ثقافتی ورثے کی باتیں کہاں قابل قبول ہوسکتی ہیں؟ پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے نواح میں مقیم یہودی قبیلوں کےلئے آرام سے رہنے کے مواقع میثاق مدینہ سے فراہم نہیں کئے؟ تاریخ گواہ ہے کہ مدینہ منورہ کے یہودیوں نے اس تاریخی میثاق کے خلاف سازشیں کی۔ دراصل اہل یہود نے نہ خواہ آرم سے رہنا سیکھا ہے، نہ ہی دوسروں کو چین سے رہنے دیا ہے۔ یہودی دوسروں پر اپنی بالا دستی بنائے رکھنے کی سعی میں ہمیشہ سے ہی مشغول رہے ہیں، آج بھی ہیں اور بدلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ایک مغربی مصنف کا قول اُن پر بدرجہ اتم صادق آتا ہے اور وہ یہ کہ دنیا کے سامنے ہمیشہ ہی ایک سوال بن کر رہ جائیں گے!
ڈاکٹر شریعتی نے واقعی ہن ٹنگٹن کی کتاب کے ترجمے و تجزیاتی جائزے سے فکر و نظر کی ترغیب دی ہیں اور اس کتاب کو پڑھنے کی پرُ زور سفارش کی جاسکتی ہے تاکہ مسلمان اُن خطرات کو پرکھ سکیں جو درپیش ہیں، اُس جال کو پہچان سکیں جس کو عرصہ دراز سے بُنا جارہا ہے۔ جہاں ڈاکٹر شریعتی شیخ سعدی جیسے نابغہ روزگار کی شاعرانہ دلیلو ں سے مسلمانانِ عالم کی روادارانہ روش سے آشنا ئی کی راہیں کھول رہے ہیں ،وہیں وہ علامہ اقبال کی شاعرانہ کاوش کو بھی منظر عام پر لاتے ہوئے نظر آتے ہیں، جہاں انسانی سماج کی بنیاد ہی بلا امتیاز رنگ، نسل و مذہب احترام آدمیت پررکھی گئی ہے:
‘‘ انسان کا منصب آسمان سے بلند تر ہے اور تہذیب کی بنیاد پر آدم (انسان) کا احترام ہے۔’’
اِس کلام کے سامنے وہ مغربی دانشور تنگ نظر و کوتاہ فکر لگتے ہیں جن کے خیال میں منطق کے چشمے صرف مغرب میں پھوٹتے ہیں جب کہ مشرق میں منطق کے چشمے خشک ہو چکے ہیں اور سیرابی کے امکانات بالکل ہی ختم ہوچکے ہیں۔
اہل مغرب کا اپنے لئے اعلیٰ ترین مقام کا قائل ہونا اور اقوام شرق بالخصوص مسلمانوں کیلئے پست ترین مقام کو بنا ئے رکھنے کی کوشش ہن ٹنگٹن یا برنارڈلیوس سے ہی شروع نہیں ہوئی بلکہ یہ کوشش و کاوش اُس سے بھی قدیم ہے۔ ماضی میں جرمنی کے فلسفی نتزے نے سپر مین کی فلسفانہ تجزیہ کاری سے ایک ایسے مغربی انسان کی شبیہ تراشی ، جو کہ ایشیا ، افریقہ و لاطینی امریکہ میں رہنے والے عام انسانوں سے بڑھ چڑھ کے ہے لہٰذا اُسے حق ہے کہ وہ اُن پرحکومت کرے۔ علامہ اقبال نے جب خودی کا تصور منظر عام پر لا یا تو کئی ادبی حلقوں میں یہ خیال کیا جانے لگا کہ شاید یہ نتزے کے سپرمین کی شرقی کاوش ہے بے خبر از اینگہ جہاں نتزے الہیات سے منکر تھا وہی اقبالیات کی اساس ہی الہیات پہ مبنی تھی، چنانچہ علامہ نے فرمایا :
اگر ہوتا وہ مجذوب فرہنگی اِس زمانے میں
تو اقبال اُس کو بتلاتا مقام کبریا کیا ہے
نتزے کے سپرمین سے ہن ٹنگٹن کے تہذیبوں کے تصادم تک مغربی دنیا کے پھیلائے ہوئے اس بے منطق عنوان نے دنیا کو بے حال کیا ہوا ہے۔ مغرب نے اِس منطق عنوان کو معنی بخشنے کیلئے سازشوں کا ایک جال 20 ویں صدی کے شروعات میں بچھا یا۔ سر جان گلب ،جنہیں عرب دنیا میں گلب پاشا بھی کہا گیا اور لارنس آف عربیہ جیسے تناظر فرہنگیوں نے عالم اسلام میں مغرب کے گماشتوں کو مہروں کی طرح استعمال کرتے ہوئے حاکموں کا عنوان دیا، چنا نچہ کہیں شریف آف مکہ معظّمہ کا استعمال ہوا، جن کی آل و اولاد کو اردن و عراق کی سرزمین میں بخشی گئی اور کہیں طلعت جیسے خلاف عثمانیہ کے وزیر سے فلسطین کا منڈیٹ حاصل کیا گیا ۔ تہذیبوں کے تصادم کا رونا روتے ہوئے اور خود ساختہ اسلامی یلغار کو روکنے کی غرض سے عالم اسلام پر ڈھائے ہوئے مظالم کی فہرست لمبی ہے اور مختصر سے مقالے میں اُس کی گنتی کرنا ناممکن ہے لیکن ایک بات واضح ہے وہ یہ کہ اس سارے مخمصے میں جو چیز نظر نہیں آتی ہے ،وہ احترام آدمیت ہے جس کی نشاندہی کبھی شیخ سعدی نے کی او رکبھی علامہ اقبال نے فکر ی اساس فراہم کی۔ آج کی دنیا کا جو حال ہے اُسے علامہ اقبال خوب بیاں فرماگئے ہیں:
‘‘ آسمانوں کے نیچے آدم آدم کو کھارہا ہے اور ایک ملت دوسری ملت پر چررہی ہے’’ یعنی دوسری ملت کے اساسوں پر اپنے جینے کے سامان کی ساخت میں مشغول ہے۔ منطق کے ان خود ساختہ دعویداروں نے مشرق خصوصاً عالم اسلام کے وسائل کی لوٹ سے اپنی دنیا سنواری ہے اور خدا کی بستی ، کل ارض اللہ، کو بقول علامہ اقبال دکان سمجھ بیٹھے ہیں:
دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکان نہیں ہے
جسے تم کھرا سمجھ رہے ہو وہ زربے عیار ہوگا
ڈاکٹر شفیع شریعتی نے ہن ٹنگٹن کی تصنیف کے ترجمے و تجزیے اور اُردو پڑھنے والوں کیلئے دور حاضر کے مسائل و خطرات کے سمجھنے و بوجھنے کی راہ فراہم کی ہے۔ اللہ اُنہیں جزائے خیر دے اور ہمیں منجملہ اپنے حفظ و اماں میں رکھے ۔
10 جون ، 2013 بشکریہ : روز نامہ صحافت، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/clash-civilizations-misplaced-arguments-western/d/12325