New Age Islam
Thu Sep 12 2024, 11:50 PM

Urdu Section ( 1 March 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Keep Pouring the Oil of Study into the Lamp of Invention for the Advancement of Literature اَدب کیلئے مطالعہ کا تیل تخلیق کے چراغ میں ڈالتے رہنا ضروری ہے

ڈاکٹر جمیل جالبی

28 فروری،2022

طلباء و طالبات کی نئی نسل میں آج بھی ایسے نوجوان موجود ہیں جنہیں ادب سے نہ صرف دلچسپی ہے بلکہ جو ادب کو اپنے احساسات و خیالات کے اظہار کا ذریعہ بھی بنا رہے ہیں۔ یہ بات بذاتِ خود بڑی خوش آئند ہے ۔ ان کی تحریروں سے اس بات کا بھی واضح طور پر اظہار ہوتا ہے کہ اُن میں وہ فطری میلان طبع موجود ہے جو ادب کی تخلیق کے لئے انسان، پیدائش کے وقت، ساتھ لے کر آتا ہے۔ جب یہ فطری صلاحیت موجود ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر صحیح سمت میں سفر کیا جائے اور اس سفر کی صحیح تیاری کی جائے تو آج کے یہ نوجوان کل کے بڑے ادیب، بڑے شاعر، بڑے نقاد و مفکر بن کر سامنے آئیں گے۔ میں نے صحیح سمت اور صحیح تیاری کا ذکر کیا ہے۔ صحیح سمت سے مراد یہ ہے کہ آپ کو یہ ابھی سے معلوم ہونا چاہئے کہ آپ کی منزل کیا ہے اور اس منزل کا راستہ کیا ہے؟ پھر آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ اس راستے کی مسافت طے کرنے کے لئے آپ کو کیا تیاری کرنی ہے؟ منزل کے تعین کے لئے ضروری ہے کہ آپ اس بات پر غور کریں کہ آپ کو ادب کی کون سی صنف میں اپنے تجربات و خیالات کا اظہار کرنا ہے اور پھر یہ بھی معلوم کرنا چاہئے کہ اس صنف کو اختیار کرنے کے لئے آپ کو کیا کیا پڑھنا ہے؟ پڑھنا ادب کی تخلیق کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا زندہ رہنے کے لئے سانس لینا ضروری ہے۔

اس بات کی میں یہاں ذرا سی وضاحت کروں گا ۔ جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنی صلاحیت کے ٹمٹماتے چراغ کو ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ بعض بچے زیادہ ذہین ہوتے ہیں اور بعض نسبتاً کم ذہین ہوتے ہیں۔ ذہین بچوں کے چراغ میں ، کم ذہین بچوں کے مقابلے میں زیادہ تیل موجود ہوتا ہے۔ اب اگر ذہین بچہ اپنی صلاحیت کے چراغ میں مزید تیل نہ ڈالے اور اس کے مقابلے میں کم ذہین بچہ مسلسل تیل ڈالتا رہے تو کچھ ہی عرصے میں ذہین بچے کا چراغ بجھ کر رہ جائے گا اور کم ذہین بچے کا چراغ اسی طرح مسلسل روشن رہے گا۔ گویا چراغ میں مسلسل تیل ڈالنے کا عمل بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ تیل دراصل مطالعے سے ، غور و فکر سے صلاحیت کے چراغ میں آتا ہے اور اسے زندہ و روشن رکھتا ہے۔ آپ نئی کار خریدتے ہیں تو شوروم کا مالک ایک گیلن پیٹرول ڈال کر گاڑی آپ کے سپرد کردیتا ہے۔ آپ اس تیل کی مدد سے اپنے گھر آجاتے ہیں لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ ساری عمر اسی تیل سے آپ اپنی گاڑی چلاتے رہیں۔ اس عمل سے یہ بات سامنے آئی کہ جیسے آپ کے چراغ یا گاڑی کے لئے تیل کا مسلسل ڈالنا ضروری ہے اسی طرح ادب کے لئے مطالعہ کا تیل تخلیق کے چراغ میں ڈالتے رہنا ضروری ہے۔ وہ لوگ جو صرف لکھتے ہیں اور پڑھنے کا شوق نہیں رکھتے ان کی تحریریں جلد ہی مرجھانے لگتی ہیں اور وہ جلد ہی خود کو دہرانے لگتے ہیں۔ فکر اور اظہار ، خیال اور احساس کی سطح پر خود کو دہرانا لکھنے والے کی شکست ہے اس لئے ضروری ہے کہ آپ یہ بات یاد رکھیں کہ ادب کی دنیا میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے لئے مطالعہ اور غور و فکر ضروری ہے۔ مطالعہ وہ راستہ ہے جس سے ادیب اپنی منزل تک پہنچتا ہے۔ آپ وہ سب کچھ پڑھیں جو آپ کو پڑھنا چاہئے۔ آپ نہ صرف اپنی زبان کاسارا جدید ادب پڑھیں بلکہ قدیم ادب کا مطالعہ بھی ذوق و شوق سے کریں تاکہ آپ اپنے ادب کی روایت سے پوری طرح واقف ہوسکیں۔

روایت سے رشتہ کاٹ کر آپ کی تحریر بے جان رہے گی۔ پھر یہی نہیں بلکہ آپ کم از کم ایک دوسری زبان کے ادب سے بھی واقف ہوں، نہ صرف واقف ہوں بلکہ اس کے مزاج داں بھی ہوں۔ آپ کی تحریر میں تازگی، توانائی اسی وقت پیدا ہوگی جب آپ اپنی زبان کے ادب کے ساتھ ایک بیرونی زبان کے ادب سے بھی واقف ہوں۔ اس لئے میں آپ کو یہ مشورہ دوں گا کہ آپ سستی شہرت سے گریز کریں اور آج ہی اپنی ذہنی بنیادوں کو مطالعے کے ذوق سے اتنا مضبوط بنالیں کہ اس پر آپ تخلیق کی بڑی اور عظیم الشان عمارت تعمیر کرسکیں۔

ہر وہ شخص جو اَدب و فن کی دنیا میں قدم رکھنا چاہتا ہے، یہ عمل اس کے لئے لازمی ہے۔ میری اپنی زندگی کا تجربہ یہی بتاتا ہے اور یہی بات میں ہر اس نئے ادیب تک پہنچانا چاہتا ہوں جو ادب کی دنیا میں کچھ کرنا چاہتا ہے تاکہ تاریخ میں اس کا نام روشن اور جَلی لفظوں میں لکھا جاسکے۔ یہ بات بظاہر بہت آسان سی نظر آتی ہے لیکن یہ راستہ اتنا پرخار، اتنا دشوار اور اتنا پرپیچ ہے کہ اکثر راہ گیروں کی سانس پھول جاتی ہے اور پھر وہ وہیں بیٹھ جاتے ہیں۔ کبھی مالی مسائل کانٹے بن کر پاؤں کو زخمی کردیتے ہیں، کبھی گھریلو الجھنیں مجروح کردیتی ہیں اور کبھی ناسازگار حالات ہمت کو پست اور حوصلوں کو مردہ کردیتے ہیں۔ ادب و فن کا راستہ اسی لئے زندگی کو قربان کرنے اور جان پر کھیل جانے کا راستہ ہے۔ یہ نہ آسائش کا راستہ ہے اور نہ معیارِ زندگی کو بلند کرنے کی کوشش کا راستہ ہے۔ یہ صرف ایثار کا راستہ ہے۔ اس لئے اس دشوار گزار راستے پر چلنے سے پہلے سوچ لینا چاہئے تاکہ اگلے سفر میں آپ کو کسی قسم کی تھکن پسپا نہ کرسکے۔ اگر آپ کو دولت کمانی ہے تو پھر اس راستے کو چھوڑ دیجئے اور وہ کام کیجئے جو دولت کمانے کے لئے سازگار ہیں۔ ہر نوجوان اپنی زندگی میں کچھ بننے کے خواب دیکھتا ہے۔ اگر آپ نے شاعر یا ادیب بننے کا خواب دیکھا ہے تو پہلے یہ بات طے کر لیجئے کہ آپ کبھی مالدار نہیں بن سکتے، لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی سوچ لیجئے کہ آپ اپنی زندگی بغیر مناسب آمدنی کے اِس طور پر بسر نہیں کرسکتے جس طور پر ادب و فن کے لئے ضروری ہے۔ روپیہ کمانا آپ کا مقصد یا منزل نہیں ہونا چاہئے بلکہ آپ کی منزل ادب و فن ہونا چاہئے۔ اس صورت میں ضروری ہے کہ آپ اپنے لئے ایسا ذریعۂ آمدنی پیدا کیجئے جس سے آپ کی منزل سامنے رہے اور آپ کا راستہ مسدود نہ ہو۔ آپ کی طبیعت میں درویشانہ بے نیازی ہونی چاہئے اور آپ کا مقصد ِ حیات ہمیشہ ہر چیز پر حاوی رہے ۔ جو کام آپ کریں شعور کے ساتھ کریں ۔ شہرت کے ساتھ نہ بھاگئے بلکہ کام اور صرف کام کیجئے تاکہ شہرت اس کام کی کوکھ سے پھوٹے۔ یہ وہ شہرت ہوگی جو آپ کے قد کو بلند، آپ کے جوہر کو روشن اور آپ کے نام کو ازخود اونچا کرے گی۔ یہ مشکل راستہ ہے لیکن یہی وہ راستہ ہے جس پر بڑے ادیبوں اور لکھنے والوں نے سفر کیا ہے اور منزل تک پہنچے ہیں۔

کوئی اعلیٰ ادبی تخلیق زندگی کے گہرے شعور کےبغیر وجود میں نہیں آتی ۔ زندگی کا شعور وہ حقیقی روشنی ہے جس سے تخلیقی صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں۔ یہ شعور زندگی سے گہرے تعلق سے پیدا ہوتا ہے۔ زندگی کے تجربات سے پروان چڑھتا ہے۔ علم و فکر سے حاصل ہوتا ہے۔ ضروری مطالعہ، موجود زندگی کی تفہیم، تاریخ کے مطالعے، مختلف خیالات دنیا میں ایک مخصوص زمانے میں کیوں ابھرے اور پھیلے اور کیوں اور کب مر گئے، اپنی تہذیب وثقافت کی تاریخ اور اس کی موجود صورت ِ حال پر غور کرنے سے پیدا ہوتا ہے ۔ شعور کے معنی یہ ہیں کہ آپ نے مسئلہ اور اس کی نوعیت کو سمجھ لیا ہے۔ زندگی ایک ’’اکائی‘‘ ہے ۔ اگر آپ ایک ’’جزو‘‘ پر قادر ہونا چاہتے ہیں تو پھر پوری اکائی کا علم اور اس سے آگاہی ضروری ہے۔ یہی شعور آپ کی تحریروں کو وہ رنگ و نور عطا کرتا ہے جس سے تخلیق میں معنویت پیدا ہوتی ہے۔ اس شعور میں ماضی بھی شامل ہوتا ہے اور حال بھی۔ حال دراصل مستقبل کا ماضی ہے اسی لئے ہر لکھنے والے کو ’’حال‘‘ کے ساتھ زندگی بسر کرنی چاہئے، اسے قبول بھی کرنا چاہئے اور رد بھی۔ وہ لکھنے والے جو زمانۂ موجود کو رد کرکےصرف ماضی یا مستقبل کی طرف دیکھتے ہیں تو ایسے میں نہ ماضی ان کا ماضی ہوتا ہے اور نہ مستقبل ان کا مستقبل ہوتا ہے۔ نئے لکھنے والوں کو میرا یہی مشورہ ہے کہ وہ اپنے زمانے کے ساتھ پوری طرح زندگی بسر کریں۔ اسے محسوس کریں، اس کی خوشبو کو اپنے وجود کا حصہ بنائیں، اس کی بصیرت حاصل کریں ، اسے بہتر بنانے کے لئے اپنے قلم سے جدوجہد کریں ، اس کی منفی قوتوں کے خلاف آواز بلند کریں اور اپنے ضمیر کی آواز کو سارے عالم کو سنانے کے لئے قلم کا سہارا لیں۔

آپ روحِ عصر کو اپنے فن میں اس طور پر سمونے کی کوشش کیجئے کہ آپ کا فن آپ کے دور کا اظہار بن جائے لیکن یہ اظہار ایسا ہو جو اپنے دور کا حوالہ بننے کے ساتھ آپ کی روح کا بھی اظہار ہو اور آنے والے زمانوں کا احساسِ جمال بھی اس میں موجود ہو۔ یہ فی الحقیقت بہت بڑا کام ہے لیکن اگر آپ کو بڑا بننا ہے تو پھر یہی کام آپ کو کرنا چاہئے اور اس کام کو کرنے کے لئے سخت محنت، وسیع مطالعہ اور گہری فکر بھی ہونی چاہئے۔ میرا اپنا خیال ہے اور آپ بھی اس پر غور کیجئے کہ تاریخ کی اس منزل میں جہاں آپ کھڑے ہیں، جہاں ادب و فن کی دنیا میں بہت بڑے بڑے کام ہوچکے ہیں، صرف الگ راستہ بنانا کوئی منزل نہیں ہے بلکہ امتزاج اس دور کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور اسی امتزاج کی کوکھ سے آج کا اور مستقبل کا بڑا ادب یا فن پیدا ہوسکتا ہے اور ہوگا۔

28 فروری 2022، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/pouring-oil-lamp-advancement-literature/d/126481

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..