New Age Islam
Mon Feb 17 2025, 12:29 AM

Urdu Section ( 13 Jul 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Meditation, Not Dogma, Leads to God ظاہری پرستش نہیں بلکہ مراقبہ خدا کی معرفت عطا کرتا ہے

 

ڈاکٹر ارشاد ربانی، نیو ایج اسلام

1 جولائی، 2013

( انگریزی سے ترجمہ ، نیو ایج اسلام )

مراقبہ قادر مطلق ،  حاضر و ناظر  اور عالم مطلق خدا کے وجود پر ایمان کا خلاصہ  ہے۔ تمام سنتوں، صوفیوں اور رشیوں نے مراقبہ کے ذریعے خدا کی معرفت  حاصل کی ہے۔ عبادت کے طریقے، رسومات اور اصول و  عقائد  ثانوی  اور صرف مراقبہ کرنے والوں کی مذہب سے وابستگی کا مظہر ہیں ۔ صرف مراقبہ کے ذریعے ہی انسان ذات باری کا وصال حاصل کرتا ہے اورجو لوگ مراقبہ نہیں کرتے صرف رسومات اور اصول عقائد پر عمل کرتے ہیں  وہ حاضر و ناظر حاکم مطلق سے کوئی بھی روحانی تحفہ حاصل نہیں کرتے ۔

مراقبہ  دماغ اور روح کی ایک ایسی تربیت ہے جو شعور کو ایک عام انسان کے شعور سے بہت زیادہ بلند کر دیتا ہے  ۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جو بے نفسی اور  جسمانی وجود سے لاتعلقی اور حقیقی  دنیا کے ساتھ تعلق  کا احساس پیدا کرتی ہے ۔

مراقبہ کی طرف مائل شخص ہمیشہ ایک قادر مطلق  خدا پر یقین رکھتا ہے اور اس کے اپنے وجود،  کائنات  اور اس  کائنات کی تمام مخلوقات کے بارے میں غور فکر کر کے اس قادر مطق کی قربت حاصل کرنے کی  کوشش کرتا ہے ۔ در اصل مراقبہ کرنے والا یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ خدا فطرت اور کائنات کی باطنی حقیقت  ہے اور اس حقیقت کی تلاش پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے  وہ  ہر جگہ موجود اس ذات مقدس کے ساتھ خود  کو ایک کرنا  چاہتا ہے۔

تمام رشیوں ، سنتوں، صوفی اور نبیوں نےمراقبے کو معمول بنا یا  ہے ۔ اسحاق علیہ السلام کے بارے میں یہ مانا جاتا ہے   وہ مراقبہ کیا کرتے تھے  ۔ ابراہیم علیہ السلام نے  سچے خدا کے بارے میں سچائی کی  تلاش کرنے کے لئے مراقبہ کیا  اور سورج، چاند، ستاروں اور دیگر قدرتی مظاہر  اور اشیاء کی نوعیت اور وجود پر غور فکر کیا ۔ موسی علیہ السلام کے بارے میں کہا جاتا ہے خدا کی تجلی کا دیدار کرنے کے لئے چالیس دن کے لئے کوہ طور پر گئے تھے ۔

حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ نبوت حاصل کرنے سے پہلے مکہ میں حرا کے غار میں مراقبہ کرتے تھے ۔ نبوت حاصل کرنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی مذہب کی پیروی نہیں کی  نہ تو قریش مکہ کے مذہب کی  اور نہ ہی یہودیوں کے مذہب  کی ۔ لیکن وہ فطری  طور پر اس مخفی  خدا کی طرف مائل تھے جو  کائنات کا مالک ہے۔ وہ کئی کئی دنوں تک  حاکم مطلق کے بارے میں غور و  فکر کرتے ہوئے  مراقبہ میں منہمک رہتے تھے ۔ اس مراقبہ نے ان کے وجود اور شعور کو بلندکر دیا  اور اس نے  ان کی روح کو  نبوت کے تحفہ کے لئے تیار کر دیا  اس لئے کہ  وہ روحانی طور پر امیر اور ذہنی طور  پر بالغ ہو چکے تھے  ۔

مختلف مذاہب میں مراقبہ کے  بشمول  جسمانی آسن کے  مختلف نام اور متنوع طریقے ہیں  لیکن ذہنی اعتبار سے یہ تمام مذاہب میں  ایک ہی ہے۔ تقریبا تمام مذاہب مراقبہ کا  مطلب خدا کو یاد کرنا اس کی تعریف کرنا  اور اس بے پیکر خدا کی محبت کو غذا  فراہم کرنا ہے جو ہر جگہ موجود ہے جو آسمان میں بیٹھا ہوا  نہیں ہےبلکہ  کائنات کی تمام موجودات کا محاصرہ کئے ہوئے ہے ۔ یہ عقیدہ مراقبہ کرنے والے کو خدا کی معرفت  عطاء کرتا ہے جو اس کائنات کا مالک ہے اور اس کے ارد گرد موجود ہے اوراس کے لئے بہت قریب ہے۔ یہ مراقبہ کرنے والے میں  ایک کیف آور احساس پیدا کرتا ہے جو کہ  اپنے محبوب خدا کے بہت زیادہ قریب ہونے کی نامعلوم خوشی کا احساس ہے۔

اسلام میں مراقبہ کے دو اقسام پر عمل کیا جا تا ہے بلکہ مشروع ہیں۔ ایک ذکر ہے اور دیگر فکر  ہے۔ ذکر کا مطلب خدا کے نام کا ورد کرنا اور فکر  کا مطلب خدا کے وجود اور طاقت کے ایک مظہر کے طور پر خدا کی مخلوق میں غور و فکر کرنا ہے۔ سوچ اور  غور و فکر اور خدا کی عظمت کی تعریف کے ذریعہ  انسان  خدا کی معرفت  حاصل کرتا  ہے ۔

سکھ مذہب میں جو کہ ایک بے پیکر اور حاضر و ناظر  خدا کی عبادت کی تعلیم بھی دیتا ہے، ذکر یا سمرن مراقبہ کا طریقہ ہے۔ بدھسٹ اور ہندو دھرم میں مراقبہ کے لئے دھیان اور سمادھی کے اصطلاحات  ہیں ۔

بھکتی تحریک کے بہت سے رہنماؤں نے روح اور نفس کا روحانی عروج  حاصل کرنے کے لئے مراقبہ پر عمل کیا  ۔ تصوف میں مسلم سنتوں نےقرآن کے ذریعے ذکر اور فکر کا تصور حاصل کیا تھا، لیکن بھکتی فرقے میں، مراقبے کا نظریہ  قدیم مذہبی روایات اور ان صحیفوں کے ذریعے حاصل کیا گیا تھا جو توحید کی تبلیغ کرتے ہیں ۔ توحید کے اس  تصور کی تجدید ہندوستان  میں تصوف کی تشہیر کے ذریعہ  غیر مسلموں میں  کی گئی تھی ۔ لہٰذا مراقبے کے اس  عمل نے اسلام اور ہندو مت دونوں میں ایک سنگم قائم کر دیا  ۔

لہٰذا،  ہم یہ پاتے ہیں کہ روحانی اعتبار سے  مسلم صوفیوں اور ہندو بھکتی وادوں  دونوں نے اعلی سطح کے مراقبہ اور غور و  فکر  کے ذریعے روحانی شعور کے نتیجے کے طور پر ایک ہی خیالات، احساسات اور فلسفیانہ نظریات  کا اظہار کیا ہے ۔ مسلم اور ہندو صوفیوں کا حقیقی پیغام ایک ہی  ہے :

1) خدا پرایمان رکھنا اور اس  کی محبت

2) ذات باری پر عقیدہ اور مذہب سے قطع نظر انسانوں کی محبت

3) خدا کی وحدانیت کا  احساس

4) خدا کی رحمت کے حصول کا  اظہار

5) دنیاوی زندگی کے فنا ہونے اور  موت کی یاد

6)امن اور عدم تشدد میں یقین

بابا فرید نے فرمایا  کہ،

ائے، خدا میں  ہمیشہ تیری محبت میں رہنا چاہتا ہوں

اگر میں  تیرے پاؤں تلے دھول بن جاؤں تو میں زندہ رہوں گا

میں دونوں جہانوں میں تیری ہی غلامی کی خواہش کرتا ہوں ؛

میں تمہارے لئے زندہ رہوں گا اور تیرے  لئے مر جاؤنگا۔

انہوں نے مزید کہا،

میں اپنی نوجوانی کے مر جانے  سے نہیں ڈرتا

اگر اس کے ساتھ میرے رب کی محبت نہ  مرے تو۔

بہت سے نوجوان اس کی محبت کے بغیر ہی مر گئے ۔

اسی طرح، کبیر کا بھی کہنا ہے کہ،

میں اس ذات واحد  میں غرق ہو گیا ہوں  اور خود وہ ایک تمام میں عیاں ہے۔

کہ اس الہی وحدانیت میں دوئی کا احساس محو ہو گیا ۔

اس طرح کبیر نے ان  مسلم صوفیوں کی زبان بولی جو  مراقبہ یا ذکر اور فکر کے  ذریعے خدا کا وصال حاصل کر لیتے ہیں ۔ ایسے دیگر روحانی رہنمابھی ہیں جنہوں نے روحانی بلندی حاصل کی اور انہوں نے اندرونی روشنی اور صدا  کی بات کی ۔

لہٰذا ، مراقبہ انسان کو حاکم مطلق ، اللہ ، برہما یا ست  گرو کی معرفت فراہم کرتا ہے جو انسانوں کے دلوں میں رہتا ہے اور ہر وہ شخص جو ہر سانس اور اپنے وجود کی ہر حالت میں اسے یاد کرتا ہے اور اس کے بارے میں غور و فکر کرتا ہے  تو وہ  خود کا احساس اور نجات حاصل کر لیتا ہے اور سچائی تک لے جانے والے  الہی علم کا حصول ہوتا ہے ۔

URL for English article:

 https://newageislam.com/spiritual-meditations/meditation,-dogma,-leads-god/d/12393

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/meditation,-dogma,-leads-god-/d/12586

 

Loading..

Loading..