ڈاکٹر غلام زرقانی
10 مئی، 2014
ظلم بہر کیف ظلم ہے، خواہ کوئی بھی کرے او رکسی پر بھی کرے، تاہم وہ ظلم و تشدد سب سے بڑھ کر ہے جو بنام ‘ اسلام’ ہو۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ عام نوعیت کے ظلم سے ایک طبقہ مثاتر ہوتاہے، جب کہ مذہب کی آڑ میں ہونے والے ظلم کے منفی اثرات مذہب کے ماننے والے سارے افراد تک پہنچتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں آپ کہہ سکتےہیں کہ ایسے افسوسناک حالات میں غیروں کو مذہب اسلام پر انگلیاں اٹھانے کے ‘مستند مواقع ’ ہاتھ آجاتے ہیں ۔ٹھیک ہے تسلیم کیے لیتےہیں کہ مذہب کے ماننے والوں کی غلط حرکتوں کی بنیاد پر مذہب کو نشانہ بنانا ضابطۂ عدل و انصاف کے خلاف ہے ، لیکن لاکھوں دشمنوں کی بھیڑ میں طعن و تشنیع کے ضابطے کی کون پرواہ کرتا ہے ۔ انہیں تو اسلام کا مقد س چہر داغدار کرنے کابہانہ چاہیے اور یہ بہانہ شدت پسند مسلمانوں کی بعض جماعتیں فراہم کر دیتی ہیں ۔ پھر میڈیا حرکت میں آجاتاہے او رمنفی پروپیگنڈہ کا بازار گرم ہوجاتا ہے ۔ کہنے کو ذرائع ابلاغ اپنے آپ کو غیر جانبدار ظاہر کرنے کے لیے ‘‘ ہماری صفائی’’ پر مبنی بیانات بھی نشر کردیتے ہیں، تاہم امعان نظر سے دیکھیں توپس پردہ عداوت، نفرت اور بغض و حسد کی جھلک صاف دکھائی دے گی۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ پہلے اسلام کے حوالے سے منفی بیانات نشر کیے جاتے ہیں، پھر درمیان میں ہماری بات پیش کی جاتی ہے اور پھر اختتام مذاکراہ ایسی گفتگو پر ہوتاہے، جس سے ہماری باتیں دب جاتی ہیں اور سننے والو ں کے قلوب و اذہان میں شریعت اسلام کی منفی تصویر پوری طرح چھا جاتی ہے۔
اب یہی دیکھئے کہ تنظیم تو ‘ جماعۃ اہل لنسۃ للدعوۃ و الجھاد’ کے مقدس نام سے موسوم ہے اور اقدامات ایسے ہیں کہ ساری انسانیت شرمسار ہوجائے ۔ آئیے ہم اس تنظیم سے آپ کی ملاقات کراتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ اسےنام نہاد عالم دین محمد یوسف نے 2002 کے دوران افریکی ملک Bomo کے دارلسلطنت Maiduguri میں قائم کیا ۔ عرف عام میں یہ تنظیم ‘ بوکوحرام’ کے نام سے مشہور ہے ۔ مقامی زبان میں ‘ بوکو’ کا مطلب Fake ہے۔ چونکہ مغربی تعلیم و تربیت کو بھی وہ Fake سمجھتے ہیں ، اس لیے اس لفظ سے اشارہ مغربی تعلیم کی طرف جاتاہے اور ‘ بوکوحرام’ سے مراد ہے‘ مغربی تعلیم حرام ہے’ ۔ ابتداء میں تنظیم کے اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لیے ایک مسجد اور ایک اسلامی اسکول کا قیام عمل میں آیا ہے ۔دھیرے دھیرے اس کے معاونین ، مخلصین اور بہی خواہوں کی تعداد بڑھتی گئی، پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ تنظیم نے مسلح جد وجہد شروع کردی۔ 2009 میں پولیس اسٹیشن اور سرکاری املاک پر حملے کیے گئے ۔ جواب میں سرکاری فوج نے انتقامی کاروائی کی ۔ نتیجہ یہ ہواکہ بوکو حرام کے ہزاروں شدت پسند ماردیے گئے اور تنظیم کے بانی محمد یوسف کو گرفتار کر کے قتل کردیا گیا ۔ اس موقع پر فوج نے تنظیم کا مرکزی دفتر اپنی تحویل میں لے لیا اور اعلان کردیا گیا کہ بوکوحرام کا پوری طرح خاتمہ کردیا گیا ہے، تاہم جلد ہی ایک نئے چہرے کی سربراہی میں یہ تنظیم از نو منظم ہوگئی ۔ اس وقت سے اپنے شدت پسند عزائم کو پورا کرنے کے لیے تنظیم کے سائے تلے اقدامات کرنے والوں نے بلا تمیز لوگوں پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے ہیں ۔ ایک محدود اندازے کے مطابق دس ہزار سے زیادہ بے گناہ مار ڈالے، نیز چرچ، اسکول، مزارات او رپولیس اسٹیشن کی عمارتیں مسمار کردیں ۔ کہتے ہیں کہ موٹر بائک ان کی پر تشدد واردات کی علامت بن گئی ہے۔ وہ مسلح ہو کر موٹر بائک پر نکلتے ہیں اور آشیانے ویران کر کے لوٹ جاتے ہیں ۔ خیال رہے کہ ان کا نشانہ صرف غیر مسلم ہی نہیں بن رہے ہیں ، بلکہ ایسے متدین مسلمان بھی ان کی زد میں ہیں، جو ان پر تنقید کرتے ہیں۔
بوکو حرام پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر احمد مرتضی شعبہ اسلامک اسٹڈیز بائرو یونیور سٹی ، کہتےہیں کہ اس تنظیم کے قائدین امام ابن تیمیہ کے سخت گیر اسلامی نظریہ سے متاثر ہیں اور ہر اس شخص کو کافر و مشرک سمجھتے ہیں جو مغربی تعلیم حاصل کرے، یا مغربی طرز جمہوریت کی حمایت کرے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ اپنے شدت پسند عزائم کو پورا کرنے کے لیے اسکول میں پڑھنے والے بچوں کو نہیں بخشتے ۔ ابھی حال کی بات ہے کہ بوکو حرام کے ایک سرگرم دستہ نے 14 اپریل، 2014 میں طالبات کے ایک اسکول پر دھاوا بول دیا اور تقریباً 300 بچیوں کو اغوا کرکے اپنے ساتھ لے گئے ۔ کسی طرح 53 بچیاں بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئیں، تاہم باقی اب بھی ان کی قید میں ہیں ۔ ظاہر ہے ایسے افسوسناک واقعہ پر ساری دنیا چیخ اور احتجاجات کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بوکو حرام کے ذمہ داروں کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا اور وہ اظہار افسوس کے ساتھ بچیوں کو رہا کردیتے ، لیکن انہوں نے نہایت ہی بے غیرتی کاثبوت دیتے ہوئے بچیوں کے بیچ دیے جانے کی دھمکی دے دی ۔ آپ بھی ذرا ان کے لیڈر ابوبکر شیخاؤ کے ‘‘ مجتہدانہ بیان ’’ کا یہ حصہ سن لیجئے ۔
Just because I took some little girls in Western education, everybody is making noise. Let me tell you, I took the girls. Girls go and get married. We’re against Western education . And I say “ Stop Western education.’’ I repeat I took the girls, and I will sell them off. There’s market for selling girls.
‘‘ لوگ صرف اس لیے شور مچا رہے ہیں کہ میں نے مغربی تعلیم حاصل کرنے والی چند چھوٹی بچیوں کو اپنی تحویل میں لےلیا ہے، ہاں میں نے لیا ہے۔ بچیوں کو چاہیے کہ وہ شادی کریں ، ہم مغربی تعلیم کے خلاف ہیں۔ اور میں کہتا ہوں کہ مغربی تعلیم بند کریں، میں پھر اپنی بات دہرارہا ہوں کہ میں نے بچیوں کو اٹھایا ہے اور میں انہیں فروخت کردو ں گا۔ یہاں بچیوں کے خرید و فروخت کے لیے ایک بازار موجود ہے۔’’
اس پرچو تر طرفہ تماشہ یہ ہے کہ جناب والا کے ‘ بہادر دستہ’ نے 6 مئی 2014 کو ورابی نامی گاؤں کے ایک دوسرے اسکول میں حملہ کر کے وہاں سے 12 سے 15 سال عمر کی آٹھ مزید بچیاں اغوا کرلی ہیں ۔
آپ دیکھ رہے ہیں ! بلاشبہ ایک انسان ہونے کی حیثیت سے ہمیں بچیوں کےاغوا پر نہایت ہی دکھ ہے، تاہم افسوس بالائے افسوس یہ ہے کہ ‘ اغوائے طالبات ’ بنام ‘ اسلام’ ہورہاہے ۔ پیغمبر انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم سے جب ایک پرندہ اپنا بچہ چھین لیے جانے کے حوالے سے شکوہ کرتاہے، تو آپ اپنے صحابہ سے استفسار کرتےہیں اور جب یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ایک شخص نے پرندہ کا بچہ لےلیاہے ، تو ہدایت دی جاتی ہے کہ اسےچھوڑ دیا جائے کہ ایک ماں اپنے بچہ کے لیے پریشان ہے۔ جو مذہب ایک پرندہ کے مامتا کا اس درجہ خیال رکھے، وہ کسی انسان سے اس کےبچے چھین لینے کی حوصلہ افزائی کیسے کرسکتاہے؟ اور یہ پھر شریعت اسلامیہ کےمطابق جب کسی آزاد انسان کی خرید فروخت جائز ہی نہیں ہے، تو بچیوں کے فروخت کے جواز کے لیے دامن اسلام میں کوئی جگہ کیونکر مل سکتی ہے؟
صاحبو! بعض شخصیات مذہبی افکار وخیالات کی تشریح میں جار حانہ رویہ اختیار کر لیتی ہیں ۔بہت ممکن ہے کہ سردست انہیں اپنے سخت گیر نظریات کی سنگینی کا احساس نہ ہونے پائے ، تاہم تاریخ بتاتی ہے کہ ملت اسلامیہ کے شر پسند عناصر انہیں سخت گیر خیالات کو بنیاد بناکر نہ صرف مذہب اسلام کا پاکیزہ چہرہ داغدار کردیتے ہیں ،بلکہ اپنے شرمناک اقدامات سے مسلمانوں کا سر بھی جھکا دیتے ہیں ۔ اب یہی دیکھئے کہ بوکو حرام نےاپنی سخت گیر پالیسی کے لیے دینی افکار و خیالات کو ڈھال بنا لیا ہے ۔ کیا یہ سوچناحق بجانب نہیں کہ جس عالم دین کے یہ لوگ اطاعت کرر ہے ہیں ، وہ اگر اسلامی تشریحات کے لیے اعتدال پسندانہ اسلوب اپناتے ، تو بوکو حرام کو اپنے مجرمانہ، سفاکانہ اور شرمناک اقدامات کے ڈھانپنے کے لیے کم از کم مذہبی غلاف تو میسر نہ آتا ؟
10 مئی، 2014 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/oppressors-name-islam-its-enemy/d/76949