New Age Islam
Mon Mar 27 2023, 09:44 AM

Urdu Section ( 10 Jun 2019, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

What to Do Now? اب کیا کریں؟

  ڈاکٹر غلام زرقانی

8جون ، 2019

 کوئی شک نہیں کہ اب پورے ملک کی جو فضا بن چکی ہے ، وہ ہمارے لیے نہایت ہی تشویشناک ہے ۔ یہ کوئی ایک پارٹی کی سیاسی جیت نہیں ہے ، بلکہ ایک مستحکم، مضبوط اور مربوط فکر کی جیت ہے ، جس کی بنیادباہمی نفرت، مذہبی عداوت اور سماجی بھیدبھاؤ پر ایستادہ ہے ۔ اور اس سے کہیں زیادہ تشویشناک صورت حال تویہ ہے کہ زمینی حالات پر نگاہ رکھنے والے کہہ رہے ہیں کہ اب ایک لمبے عرصے تک متذکرہ ماحول سے باہرنکلنے کی کوئی راہ دور دورتک دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ایسے نازک ترین حالات سے نبرد آزماہونے کے لیے ازسرنوہمیں لائحۂ عمل ترتیب دینے کی اشدضرورت ہے ۔

 آگے بڑھنے سے پہلے ہندوستانی تہذیب وتمدن کے آئینے میں سیاسی نشیب وفراز پر ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈال لی جائے توبہت بہتر ہے۔اس حقیقت سے مجال انکار نہیں کہ اس وقت کشمیر سے لے کر کنیاکماری تک مذہبی منافرت کی خطرناک لہر ہے ، تاہم اگر اس کا موازنہ آزادی ہند کے بعد ملک کی تقسیم کے وقت بڑھی ہوئی مذہبی عدوات ودشمنی سے کیاجائے ، توآفتاب نیم روز کی طرح یہ آشکار ہوجائے گاکہ اب اور تب میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ آزادی کے وقت پھیلی ہوئی مذہبی منافرت ایک اندازہ کے مطابق اگر دس کے متدوال پیمانے پر آٹھ نو کے قریب رہی ہوگی ، تواب یہ تین سے چار کے درمیان ہوسکتی ہے ۔ اس طرح آپ کہہ سکتے ہیں کہ آٹھ سے نو کے درمیان منتہائے عروج پر پہنچی ہوئی مذہبی منافرت جب کم ہوکر دوتک نیچے اترسکتی ہے ، توتین سے چارتک بڑھی ہوئی عداوت ودشمنی کے نیچے اترنے میں کوئی زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

 اسی طرح ابھی جو کانگریس کی حالت ہے ، وہ ایمرجنسی کے بعد ہونے والی پستی سے کہیں زیادہ بہتر ہے ۔ پرانے کانگریسی کہتے ہیں کہ ایمرجنسی کے بعد جس طرح کانگریس شکست وہزیمت سے دوچارہوئی ، اس سے دل برداشتہ ہوکر اندرگاندھی نے ملک چھوڑکر کہیں اور سیاسی پناہ لینے کا ارادہ کرلیاتھا،لیکن سنجے گاندھی نے ڈھارس بندھائی اور صبر وضبط سے جد وجہد جاری رکھنے پر قائل کیا۔اس کے چند ہی سالوں بعد ہونے والے انتخابات میں عوام نے ایک بارپھر کانگریس کو کامیاب بنایا ۔ اس لیے کوئی عجب نہیں کہ ہندوستان جیسے بڑے ملک میں جہاں گوناگوں مسائل ہر چہارجوانب بکھرے ہوئے ہیں ، لوگ چند سالوں میں ایک پارٹی کی حکومت سے اوب جائیں اور دوبارہ سیکولر زم کابول بالا ہوجائے ۔

 ماضی کے دو متذکرہ بالاتجرباتی تجزیہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہمیں بہت زیادہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی حوصلہ ہارنے کی حاجت ہے ، اس لیے کہ جہاں تہذیب وتمدن سے لے کر مذہب ، زبان اور رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے ایک دونہیں ، لاکھوں اور کروڑوں میں ہوں ، وہاں کی سیاسی حالت بہت دنوں تک ایک جیسی نہیں رہ سکتی ۔ ایک وقت آئے گا، جب ا فکار وخیالات میں بھی تبدیلی آئے گی اوراحزاب وتحالفات بھی بدل جائیں گے۔ اسے قرآن کی زبان میں یوں کہیے کہ (آل عمران ، آیت: ۱۴۰) ’اسی طرح ہم حالات کو لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں ۔ ‘

 اب آئیے موضوع سخن کی جانب پلٹتے ہیں ۔ قارئین کرام اچھی طرح جانتے ہیں کہ نہ تومیں جذبات کی رومیں بہتے ہوئے ریگستان میں کشتی دوڑانے کی بات کرتاہوں اور نہ ہی خوف ودہشت زدہ ہوکر بھیگی بلی بنے رہنے کا مشور ہ دیتاہوں ، بلکہ میرے نزدیک وہی بات بہتر ہے ، جو حالات کے تناظر میں ہواور قابل عمل بھی ہو۔ سب سے پہلے تویہ قرآنی حقیقت اپنے سامنے رکھیے کہ ’’ ان مع العسر یسرا‘‘کہ بلاشبہ مشکلات کے ساتھ ساتھ آسانی ہے ۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ مشکلات کے بعد آسانی ہو، بلکہ ہمیں مشکلات کے درمیان ہی آسانی کی راہیں بھی ڈھونڈنی ہوگی۔ میرے خیال میں آسانی کی راہ یہ ہے موجودہ حالات میں ہم اپنے معاشرے پر نگاہ ڈالیں ۔ شہری ، صوبائی اورملکی تنظیم بنانے کی بجائے اپنے علاقے میں بسنے والے مسلمان بچے اور بچیوں کی فلاح وبہبود کے لیے علاقائی تنظیم سازی ہواور ہربچے کو تعلیم سے آشنا کرنے کے لیے لائحہ عمل ترتیب دیاجائے ۔ اہل ثروت مال ودولت سے ، اصحاب علم ترسیل علم وہنر سے اور فکر وتدبر کی اہلیت رکھنے والے اپنے تجربات سے تعاون کریں ۔ اس طرح ملک کے ہر محلہ میں بیک وقت کوشش شروع ہوجائے ، توپانچ دس سالوں کے اندر علم وہنر کے میدان میں ہماری ایک شناخت بن جائے گی ۔

خیال رہے کہ اطراف وجوانب اور حالات وتناظرات سے بے خبر رہ کر جذباتی اقدامات کرنے کا نام بہادری نہیں ، بلکہ حماقت ہے ۔ اگر ایسانہیں ہے ، توبتایاجائے کہ پھر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان جنگ کے لیے تیاری کیوں فرمائی ؟ دشمنوں کے لشکر کی تعداداور ان کے عزائم معلوم کرنے کے لیے خفیہ دستے کیوں روانہ کیے ؟ اور میدان جنگ میں خیمہ زن ہونے کے لیے حکمت عملی کے پیش نظر ٹھکانے کیوں تجویز فرمائے ؟ اس لیے یہ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ ہمارے مذہب کی روشنی میں اقدامات سے پہلے حکمت عملی ہے ۔ یعنی سب سے پہلے حالات وواقعات کے تناظر میں حکمت عملی بنائی جائے اور پھر اللہ تعالیٰ کے بھروسہ پر بلا خوف وخطر اقدامات کی طرف پیش قدمی کی جائے ۔ اس لیے مسلمانوں سے دست بستہ عرض ہے کہ موجودہ حالات میں ہر ایسے اقدام سے گریز کریں ، جسے شرپسند عناصر اکثریتی طبقہ کو بھڑکانے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں ۔ مثال کے طورپر کسی بھی جانور کے گوشت کا قیمہ لے کر قطعی سفر نہ کریں ، اس لیے کہ قیمہ بن جانے کے بعد وقتی طورپر یہ ثابت کرنا دشوار ہوتاہے کہ یہ کس جانور کاہے ؟ ایسی صورت میں شرپسند عناصر اسے گائے کی طرف منسوب کرکے آپ کے لیے مشکلات کھڑی کرسکتے ہیں۔ چونکہ گائے کے ساتھ جذباتی رشتہ ہے ، اس لیے مجمع بھی تحقیق کی الجھنوں میں پڑنے کی بجائے خود ہی فیصلہ کرنے پر مصر ہوگا، جس کے نتیجے میں خوفناک صورت حال پیش آسکتی ہے ۔اس لیے بہتر یہ ہے کہ ہم اپنے گھر سے باہر یا توسبزیوں پر گزارہ کریںیا پھر مرغ کے سالن پر ۔

      غیر مسلم بچیوں اور عورتوں کے ساتھ تنہائی میں بات چیت سے پرہیزکریں اور معاملات کی حدتک بات کرنی بھی پڑے ، تودوچارکی موجودگی میں بات کریں ، تاکہ شرپسند عناصر نازیبا الزامات لگا کر آپ کے دامن عفت کو داغدارکرنے کی جرأ ت نہ کرسکیں، نیز یہ کہ اس طرح علاقائی ماحول میں مذہبی منافرت کا زہر پھیلانے والے کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ٹھیک اسی طرح بس ، ٹرین اور میٹرو میں آپ کی سیٹ پر اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد بیٹھا ہوامل جائے ، توخود اس سے بحث ومباحثہ کرنے کی بجائے ، ٹی ٹی ای اور ذمہ داروں کے تعاون سے معاملات سلجھائے جائیں ۔ ان کے مذہبی جلوس اور تہواروں کے مواقع پر کوشش کی جائے کہ آپ اپنے گھروں کے اندر رہیں اور سڑکوں کے کنارے تماشائی بنے رہنے سے گریز کریں ۔ نیز اپنے اپنے علاقوں میں موجود انصاف پسند ، معتدل مزاج اور تعلیم یافتہ ہم وطنوں سے رابطہ رکھیں اور گاہے بگاہے ملاقاتیں کرتے رہیں ، تاکہ علاقے میں شرپسند عناصر کے حوصلے پست رہیںاور ہم نقصانات وآفات سے محفوظ رہ سکیں۔

     صاحبو! حالات جو بھی ہوں ، جیسے بھی ہوں ، تاہم یہ طے ہے کہ ہمیں اسی قدر نقصانات پہنچیں گے ، جو قضاوقدر کی صورت میں پہلے سے لکھے ہوئے ہیں اور یہ نہ سہی ، کسی اور کے ہونے پر بھی اسی قدر فائدے پہنچنے کی توقع ہے ، جو پہلے سے ہماری قسمتوں میں رقم ہے ۔ اس لیے نہ ہمیں اِن کے رہنے سے گھبرانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اُن کے ہونے سے کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی حاجت ہے ۔ بس چاہیے یہ کہ ہر حال میں ہم اپنے مذہب سے جڑے رہیں اور اپنی استطاعت بھر اپنے معاشرے کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہیں ۔

8جون ، 2019، بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/now-/d/118843

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism



Loading..

Loading..