ڈاکٹر غلام زرقانی
28 فروری، 2015
داعش کے ظا لموں نےاردنی پائلٹ معاذ الکسابہ کےساتھ جو وحشیانہ ، سفا کانہ اور ظالمانہ سلوک کیا ہے ، وہ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ، بلکہ ساری انسانیت کے لیے نہایت ہی شرمناک ہے۔ ماتھے کی آنکھ سے دیکھے ہوئے مشاہدہ کے مطابق ایک انسان آہنی پنجڑے میں بند ہے اور دور سے ظالم نے اُس رسی میں آگ لگا دی ، جس کادوسرا سراپنجڑے تک جاتاہے ۔ غالباً پورا پنجڑا آتش گیر سفوف کے ڈھیر پر تھا، اسی لئے سکنڈوں میں آگ پھیل جاتی ہے۔ درمیان میں کھڑا انسان آگ کے لپیٹ سے بچنے کی ناکام کوششیں کرتاہے، تا ہم جلد ہی اس کا سارا لباس شعلوں کی زد میں آجاتا ہے۔ وہ اِدھر اُدھر بھاگتا ہے، تاہم جب آواراہ شعلے پوری طرح اسے اپنی آغوش میں لے لیتےہیں تو دوزانو بیٹھ جاتاہے اورایسامحسوس ہوتا کہ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو فضا میں بلند کرکے دعائیہ کلمات اداکرنے کی کوشش کررہاہو، اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک جانب لڑھک جاتاہے۔ اسی درمیان عقب میں کھڑی ہوئی تعمیراتی کرین تیزی سے منوں مٹی ڈال کر اسے ڈھانپ دیتاہے، تاکہ خاک و خون میں لت پت سیاہ انسانی ڈھانچے پر کسی کی ‘نظر ’ نہ لگ جائے۔
وہ تو کہئےکہ متذکرہ خوفناک حادثہ کی عکس بندی کرنے والے نے شاید اپنے کیمرے کی آواز بند کردی تھی، اسی لیے جلنے والے انسان کی سسکیاں ، آہ و بکا اور نالۂ درد کی بے قراریاں سنائی نہیں دےر ہی ہیں، ورنہ دیکھنے والوں کے لیےاپنے حواس پر قابو رکھنا بہت دشوار ہوتا، تاہم جس قدر نگاہوں کے سامنے ہے، وہ بھی ایسانہیں ہے کہ ہم اعتدال کے ساتھ صوفہ پر بیٹھے ہوئے اسے دیکھ سکیں ۔ عین حقیقت یہ ہے کہ دو چار منٹ کی عکس بندی دیکھتے ہوئے صرف پلکوں کا دامن ہی تر بتر نہیں ہوتا، بلکہ دل بیٹھنے لگتاہے، سانس رکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور ذہن و دماغ کی رگیں تن جاتی ہیں اور بے اختیاری میں فضا ئے بسیط پر دلخراش چیخیں وقفے وقفے سے بلندہونے لگتی ہیں ۔ پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے کو جی چاہتا ہے ، تذلیل انسانیت ، پر تشہیر سفاکیت پر تسلیم حیوانیت پر اور تحقیر اشرفیت پر ۔ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں کہ اپنے بھی اپنوں کے خلاف، وہ ظلم کررہے ہیں کہ جسے عام انسان کھلی آنکھوں سےدیکھنے کی سکت نہیں رکھتا ،بلکہ شاید کوئی انسان کسی جانور کی جان بھی اس قدر اذیت کےساتھ لینے کا تصور بھی نہیں کرسکتا،چہ جائے کہ وہ اشرف المخلوقات ،جسے اللہ رب العزت نے خلافت کی زریں تاج سے مشرف فرمایا ہے! لگے ہاتھوں سرزمین لیبیا کے ساحلی علاقے میں 21 مصری عیسائی مزدوروں کے ذبح کیے جانے کی واردات بھی پیش نگاہ رکھیئے ۔ بحیثیت مسلمان ہم نہ صرف غیروں کے ذریعہ اپنوں کے خلاف ہونے والے سفاکانہ واردات کی مذمت کرتےہیں، بلکہ غیروں کے خلاف اپنوں کے ظالمانہ اقدامات کے حوالے سےاظہار ناپسندیدگی بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ کیا غضب ہے کہ غریب مزدور جو ہمارے وطن کی خدمت کرنے کے لیے دوسرے ملک سے آئے ہوئے ہیں، ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے بجائے انہیں قید مشقت میں رکھا جائے اور پھر جانوروں کی طرح لٹا کر تیز چھری سے ذبح کردیا جائے۔ اور غضب بالائے غضب یہ ہے کہ اس بربریت ،سفاکیت اور درندگی کی عکس بندی کر کے بڑے فخر کے ساتھ ذرائع ابلاغ کے حوالے کر دیا جائے۔
محسوس کیجئے کہ ہم کس دور میں داخل ہورہے ہیں ۔ زیادتیاں پہلے بھی ہوا کرتی تھیں ، تاہم زیادتیاں کرنے والے درندہ صفت عناصر اپنی حرکتوں کو خفیہ رکھنے کی کوشش کرتے تھے اور آج نام نہاد اسلام کے دعویدار ایسے خونخوار ہوگئے ہیں کہ انہیں اپنے کیے پر پچھتاوا تو درکنار ، وہ فخر سےسینہ ٹھونک کر اعلان عام کررہے ہیں ۔ اور سب سے بڑھ کر غضب یہ ہے کہ یہ قتل و خون، ظلم و ستم اور حیوانیت و درندگی عزائم ’ ، ‘دنیا طلبی’ اور ‘ حصول اقتدار’ کے نام پر روا نہیں رکھی جارہی ہے ، بلکہ اسی دین اسلام کے نام پر کی جارہی ہے، جس نے دنیاکو امن و سلامتی ، احترام انسانیت اور باہمی رواداری کے ساتھ روئے زمین پر زندہ رہنے کا درس دیا ہے، بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر یو ں کہیے کہ وہ مذہب، جس نے سب سےپہلے جانوروں کے حقو ق کے لیے آواز بلند کی ہے۔ یقین نہیں آتا تو سنئے کہ ایک بار حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما راستے سے گزر رہے تھے، تو دیکھا کہ قریش کے چند بچوں نے ایک پرندہ باندھ رکھا ہےاور اس پر دور سے نشانہ لگارہے ہیں ۔ اس طرح وہ اپنے کھیل میں مگن تھے کہ جوں ہی آپ کی آہٹ محسوس ہوئی ، سب ادھر ادھر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما قریب گئے اور جب زخمی پرندہ پرنگاہ پڑی تو پکارتے ہوئے کہا کہ پرندہ کی یہ حالت کس نے کی ہے؟ اللہ تعالیٰ اس پر لعنت کرے۔ سلسلۂ کلام کو دراز رکھتے ہوئے کہا کہ میں نے سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شخص پر لعنت بھیجتے ہوئے سنا ہے جو کسی ذی روح کو تکلیف دےکر اپنے لیے تفریح کا سامان مہیا کرے۔
یہ تو رہی ایک بات، اب ذرا متذکرہ واقعات کے دوسرے پہلو پر نگاہ ڈالیے ۔ کیا اس بات میں کوئی شک ہے کہ پہلے واقعہ میں مرنےوالا اور مارنے والے دونوں ہم عقیدہ ، ہم مذہب اور ہم مشرب تھے ۔ اور پھر یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ تڑپا تڑپا کر زندہ جلانے والے اپنے ظاہری وضع قطع کے اعتبار سے نہایت ہی ‘ دیندار ’ ، پاک طینت’ اور ‘ مذہبی لبادے’ میں ملبوس تھے، نیز چہرے پر لمبی داڑھی اور سر پر خوبصورت عمامہ اس پر مستزاد ہے۔ غرض یہ ہے کہ وہ پابند صوم و صلوٰۃ بھی کہےجاتے ہیں اور ان کی خواتین نہایت ہی سختی کے ساتھ حجاب کی پابند ی بھی کرتی ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ کسی مذہبی شخصیت کےلیے مطلوبہ سارے لوازمات بظاہر موجود دکھائی دیتےہیں، تاہم وہ اپنے وحشیانہ سلوک کے پس منظر میں قطعی مذہبی نہیں ثابت ہوتے ۔خیال رہے کہ یہ ‘ روشن و تابناک تضاد’ یوں ہی اچانک ظہور پذیر نہیں ہوگیا ہے ، بلکہ یہ دیدۂ و دانستہ اختیار کیے جانے والے طریقۂ کار کے یقینی ثمرات ہیں ۔ میرے کہنے کامطلب یہ ہے کہ متذکرہ ظالموں نے اپنے ظاہری اعضاء کو اسلامی محاسن کے عین مطابق ڈھالنے کی کوشش تو کی ہے، تاہم وہ اپنی باطنی دنیا کے ظلمات کو نور اسلامی کی پاکیزہ شعاؤوں سےروشن کرنے میں پوری طرح سے نا کام رہے ہیں ۔ وہ نماز پڑھتے رہے ،لیکن عادت سجود سےدلوں کی تطہیر نہ ہوسکی ۔ وہ روزہ رکھتے رہے، لیکن شدت بھوک و پیاس بھی ان کے اندر نا چاروں کے ساتھ حسن سلوک کے احساسات نہ پیدا کرسکی ۔ وہ چہرے پر داڑھی اور عمامہ سجاتے رہے، لیکن کثرت نقالی بھی ان کی رگوں میں انسانیت کےلیے ہمدردی ، محبت اور خیر خواہی کے جذبات نہ ابھار سکی ۔ وہ اپنی خواتین سے شب روزہ اسلامی حجاب کی پابندی کراتے رہے، لیکن خود تعنت و سرکشی کو پابند سلاسل کرنےمیں ناکام رہے۔ یہیں سے یہ حقیقت پوری طرح اجالے میں آگئی کہ تزکیہ باطن کے بغیر صرف ظاہری و ضع قطع اسلامی شریعت کی عکاسی کرنے سے پوری طرح حجاب بن جاتی ہے۔
صاحبو! اگر متذکرہ واقعہ پر ہم نے چند قطرے آنسو بہا لیے اور ظالموں کی کھلے دل سے مذمت کرلی اور پھر اپنے شب و روز کے معمولات میں لگ گئے ، تو میں سمجھتا ہو ں کہ ہم نے نہ ہی حقیقت میں اظہار افسوس کیا اور نہ ہی اخلاص کےساتھ مذمت کی ہے، بلکہ یہ ‘ سیاسی مذمت’ سےتعبیر کی جائے، تو کہیں زیادہ بہتر ہے ۔ ہاں اگر واقعی ہمیں اس واقعہ سےقلبی صدمہ پہنچا ہے ، تو پھر اظہار مذمت کی سب سے زیادہ بہتر اور تعمیری تصویر یہ ہوگی کہ جس سبب سے یہ لوگ درندہ خونخوار اور آدم خور بنے ہیں، اسے ہم اپنے دلوں کے قریب تک نہ پھٹکنے دیں، بلکہ یوں کہہ لیں کہ جس وصف عظیم کی کمی نے انہیں ‘ اشرف المخلوقات ’ سے ‘ ارذل الکائنات’ بنا دیا ہے،اسے نہال خانہ دل میں بسانے کی کوشش کریں اور وہ ہے ، تذکیہ نفس، تطہیر باطن اور تنویر روح و قلب ۔
28 فروری، 2015 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/endless-brutality,-cruelty-barbarism-perpetrated/d/101786