ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی
2 جولائی، 2013
کتاب و سنت جس مثالی مسلم معاشہ کا مطالبہ کرتے ہیں اور پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے تربیت یافتہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے جو معاشرہ عملاً قائم کیا تھا، اس کا سب سے ابھرا ہوا وصف اور سب سے نمایاں و امتیازی پہلو توحید کا ہے۔ توحید کا تصور بذات خود ایک دعوت انقلاب ہے۔ توحید کا یہ پہلو اس نظریہ پر مبنی ہے کہ وحدت رب اور وحدت انسان اللہ کے پسندیدہ دین کی دو اصل ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ تمام نسل انسانی کا معبود مسجود ، خالق و مالک ، آقا، رب اور حاکم ایک اور صرف ایک ہے۔ اسی طرح تمام نسل انسانی ایک ہی فرد واحد کی اولاد ہے۔ اس لیے منطقی طور پر تمام انسان اصلا برابر ہیں اور سب ایک ہیں اور سب کو ایک ہی ہونا چاہیے۔ اب ظاہر ہے کہ جو عقیدہ تمام انسانوں کو اصل کے اعتبار سے ایک قرار دیتا ہے۔ جن میں اس کے ماننے والے اور مخالفین سبھی آجاتے ہیں، اور ان کے مابین تمام خودساختہ فوارق و امتیازات کو ایک قلم مسترد کردیتا ہے ۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں اور اپنے علمبردار وں میں وحدت ویگانگت، اتفاق و اتحاد کا کسی درجہ قائل و موید ہوگا۔ اسلام نے اسلامی وملی وحدت کو ایک خدا ، ایک رسول، ایک کتاب اور قانون پر استوار کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل اسلام میں کسی اصول اختلاف کی اصلا کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی ۔ اختلاف جو کچھ ہوسکتا ہے وہ فروغ و جزئیات میں ہوسکتا ہے ۔ اور جہاں بظاہر اصول میں اختلاف نظر آتا ہے وہ یقیناً فکر اسلامی میں باہر سےدخیل اور خارجی عوامل و محرکات سے اثر پزیری کے علاوہ او رکچھ نہیں ۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ آج دنیا میں مسلمان ہی سب سے زیادہ منتشر قوم ہیں اور اپنے انتشار و اختلاف کی وجہ سے ہی وہ دنیا میں سب سے زیادہ بے قیمت ، بے وزن او رذلیل ورسوا ہوکر رہ گئے ہیں۔
عملی طور پر دیکھئے کہ اسلام اتحاد کی روح مسلم ملت میں اس حد تک پیدا کرنا چاہتا ہے کہ لوگ بنیان مرصوص بن جائیں حتی کہ اس کا عبادات کا نظام بھی اجتماعیت اور نظم ملت کا سبق دیتا ہے۔ جماعت کا وقت ہوا، امام کے پیچھے ایک کے بعد ایک صفیں بندھنے لگیں ، جو لوگ کچھ لمحوں پہلے مسجد کے مختلف حصوں میں بکھر ے تھے اب یکا یک آکر صفوں میں ملنے لگے ۔ ہر شخص کا ایک ہی رخ ہے۔ ہر شخص امام کی آواز پر حرکت کررہا ہے سب ایک ہی ساتھ اٹھتے بیٹھتے اور ایک ساتھ رکوع و سجود کرتے ہیں۔ یہ واقعہ دنیا کی ہر مسجد میں دن میں پانچ بار ہوتا ہے ۔ پانچ بار مسلمانوں کو بتایا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کیسی ہونی چاہیے ۔ اسی طرح روزہ میں بھی ہے۔ بلکہ اکثر عبادات میں اجتماعیت کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ آج بھی ہر حج کےموقع پر 20۔25 لاکھ مسلمان ایک ہی فقیرانہ لباس میں پروانہ وار خانہ کعبہ کے گرد طواف کرتے نظر آتے ہیں حالانکہ ان کا کلچر الگ الگ ہے ، رنگ ، روپ، زبانیں سب مختلف ہیں۔مگر مرکز توحید میں آکر وہ سب ایک رنگ اور یک جہت ہوجاتے ہیں۔
مسلمانوں کے اندر برادرانہ مساوات اور دلوں میں اتحاد و ہم آہنگی کے جذبہ کو فروغ دینے کے سلسلہ میں نماز باجماعت کی مصلحتوں پر عظیم سیرت نگار سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ یوں رقم طراز ہیں:
‘‘ جماعت کی نماز مسلمانوں میں برادرانہ مساوات اور انسانی برابری کی درسگاہ ہے، یہاں امیر و غریب ، کالے گورے، رومی و حبشی ،عرب و عجم کی کوئی تمیز نہیں ہے۔ سب ایک ساتھ ایک درجہ او رایک صف میں کھڑے ہوکر خدا کے آگے سرنگوں ہوتے ہیں۔ یہاں شاہ گدا اور شریف و ذلیل کی تفریق نہیں، سب ایک زمین پر، ایک امام کے پیچھے ، ایک صف میں دوش بدوش کھڑے ہوتے ہیں اور کوئی کسی کو اپنی جگہ سے نہیں ہٹا سکتا ۔’’ ( سیرۃ النبی ، ج 5 ، ص 572)
بقول امام الہند مولانا آزاد:
‘‘ دنیا کے تمام رشتے، عہد مودت خون ونسل کے باندھے ہوئے پیمان وفا محبت ٹوٹ سکتے ہیں مگر رشتہ چین کے مسلمانوں کو افریقہ کے مسلمانوں سے ، ایک عرب کے بدو کو تاتا رکر کے چرواہے سے اور ہندوستان کے ایک نومسلم کو مکہ مکرمہ کے صحیح النسب قریشی سے پیوست ویک جان کرتا ہے ۔ دنیا میں کوئی طاقت نہیں جو اسے توڑ سکے اور اس زنجیر کو کاٹ سکے۔ جس میں خدا کے ہاتھوں نے انسانوں کے دلوں کو ہمیشہ کے لئے جکڑ دیا ہے۔’’ (خطبات آزاد، ص 81)
امت مسلمہ کی علمی و فکری تاریخ اختلاف فکر و نظر کی تاریخ ہے، جب تک یہ اختلاف اپنی حدود میں رہا علمی تحقیق و تفحص اور فکری اجتہاد کا سفر بھی جاری رہا اور اس سے زبردست فوائد حاصل ہوئے ۔ لیکن جہاں وہ مذہبی و مسلکی تعصب میں بدل گیا اور گروپ بندی کی شکل میں ظاہر ہوا وہیں اس کے بھیانک تنائج نکلے ۔بہتیر ی بار ایسا ہوا کہ جیتی ہوئی بازی محض باہمی تفرقہ کے باعث شکست میں بدل گئی ۔ کتنی ہی بار یہ ہوا کہ مخالف قوتیں اپنے لاؤلشکر او ربے پناہ وسائل کے باوجود میدان نہ مار سکیں لیکن امت کےکسی معمولی اختلاف نے انہیں فتح تک پہنچادیا۔ جب امت مسلمہ کا دور عروج تھا تب بھی بار ہا اختلاف و انتشار کی ہوائیں چلیں اور امت کو زبردست نقصانات اٹھانے پڑے۔ تاہم جلد ہی امتی روح عود کر آئی اور ان پر قابو پا لیا گیا ۔ لیکن ہمارے صدیوں پر محیط دور زوال میں اختلاف و انتشار کی وبا پوری شدت کے ساتھ امت کے جسم میں سرایت کر گئی حتی کہ ایسے وقتوں میں بھی جب اسے اتحاد و اتفاق کی سب سے زیادہ ضرورت تھی مخالفت و افتراق کے مظاہر سب سے زیادہ نظر آئے ۔ جب چنگیز خان ایک قیامت صغریٰ بن کر عالم اسلام کو تہہ و بالا کررہا تھا اس وقت بھی امت کے سیاسی و مذہبی رہنما او ر قائدین اپنے داخلی مناقشوں اور فرقہ وارانہ نزاعات کے چکر میں پھنسے ہوئے تھے ۔ جب ہلاکو خاں کی خون آشام فوجیں بغداد کے دروازہ پر دستک دے رہی تھیں اس وقت بھی وہاں کے علماء و فقہا اور امراء ‘‘ المامون’’ چوک پرجمع ہوکر مذہبی مناظروں کے دنگل دیکھا کرتے تھے ۔ آج بھی ہم عالم اسلام پر نظر دوڑا ئیں تو کم و بیش یہی صورت حال دکھائی دے گی جس میں بر صغیر کے اندر اور مزید شدت پائی جاتی ہے اور غیروں کی تمام تر چیرہ دستیوں کے باوجود ہم کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کےلئے تیار نہیں ہوتے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ موجود دور میں مسلمان ہر جگہ کسی نہ کسی طاقت کے ظلم و جبر کا شکار ہورہےہیں ۔ کہیں کس اقتصادی قوت کے جبر کا اور کہیں کسی اکثریتی دباؤ کہیں انہیں سیاسی اور فوجی قوت دبائے ہوئے ہے، کہیں کسی طاقت کی سائنسی او رٹیکنالوجیکل برتری مار وہ جھیل رہے ہیں ، ان کی اس نا طاقتی او ربے بسی کا حل صرف ایک ہے اور وہ ہے قوت کی فراہمی ( قرآن کی زبان میں اعداد قوت مرہبہ : انفال :6)یہ ابدی فارمولہ قرآن کا دیا ہوا ہے ۔ اس قوت مرہبہ سے مراد ہے مسلمانوں کا طاقتور ہونا۔ ان کا فکری و تہذیبی ارتقاء اور سیاسی و سماجی امپاور منٹ ۔کیونکہ غیروں کی چپر ہ دستی، دست درازی اور زیادتی ہمیشہ بے طاقتی اور ناتوانی کی سزا ہوتی ہے۔اقبال کے الفاظ میں ۔
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
ظاہر ہے کہ آپ کمزور ہوں تو کوئی بھی تر نوالہ سمجھ کر دبانے کی کوشش کرے گا۔ اس مسئلہ کا حل صرف یہی ہے کہ آپ اپنے آپ کو طاقتور بنائیں ۔ اس کے علاوہ اور کوئی آپشن مسلمانوں کے پاس نہیں ہے۔ اپنے آپ کو طاقتور بنانے کا کام علم و شعور کے حصول سےکیا جائے گا۔ وقت کے مطالبات کو سمجھا جائے، دینی تعلیم او ر علوم دینیہ کے تحفظ کے ساتھ بڑے پیمانے پر جدید تعلیم کے حصول پر ساری قوتیں خرچ کی جائیں۔ مسلمانوں میں باہمی اتحاد پیدا کیا جائے ۔ ان کو جدید فکری وملی قوتوں سے مسلح کیا جائے، نئے چیلنجوں او رنئے امکانات سے بھی باخبر کیا جائے ۔ جزوی اور فروعی مسائل کے بجائے ان کو روح دین، اصول شریعت اور حقائق حیات سے آشنا کیا جائے ۔ احتجاج اور مطالبات کا لفظی طوفان برپا کرنے، غیروں کو شکایتیں کرنے، جلسوں جلوسوں کو دھوم مچانے اور تقریروں و تجویزوں کے سیلاب بہانے کے بجائے ملت کی تعمیری اور مثبت تربیت کرنی ہوگی ۔ انہیں مقصد زندگی کاشعور دینا ہوگا ، آخرت کی حقیقی زندگی کی فکر پیدا کرنی ہوگی۔
بلاشبہ اس تعمیری اور شعوری تربیت میں سب سے بڑا رول علماء ادا کرسکتے ہیں ۔ معاشرہ کی اصلاح اور تعلیم و تربیت میں ان کا کردار سب سے بڑا او راہم ہے۔ کیونکہ مسلمان انہیں کی رہنمائی کومعتبر سمجھتے ہیں ۔ لیکن حق و انصاف کی بات ہے کہ بعض علماء اپنے اہم او رنازک منصب کی ذمہ داری پر ورے نہیں اتر رہے ہیں ۔ ان میں سے بعض ملت کوفروعی چیزوں اور جزوی وغیر ضروری مسائل میں الجھا ئے رکھنا چاہتے ہیں ۔فتوؤں کی دنیا میں انار کی پھیلی ہوئی ہے۔ مختلف دارالا فتاؤں سے بعض ایسے فتوے جاری ہوجاتے ہیں جو صریحاً قرآن و سنت کے خلاف اور ملت کی جڑ کاٹنے والے ہوتے ہیں ۔ وہ مذہبی غلو ، تشدد اور انتہا پسند ی کی علامت ہیں۔ ملت میں داخلی طور پر ان سے اختلاف و انتشار تو پھیلتا ہی ہے خارجی سطح پر لوگوں کو ان پر خوب ہنسنے کا موقع ملتا ہے کیونکہ میڈیا نہ صرف جاگ رہا ہے بلکہ وہ گھر وں کے اندر تک پہنچ چکا ہے اور ہر وقت تاک میں لگا رہتا ہے۔
2 جولائی، 2013 بشکریہ : روز نامہ قومی سلامتی ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/unity-community-need-hour-/d/12482