ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی
21 مئی، 2013
آج مذاکرات کا دور ہے۔ مشرق و مغرب میں مختلف قومیں اپنے لا یخل مسائل کے حل کےلیے مذاکرات کی طرف رجوع کررہی ہیں۔ مذاکرات نہ صرف مسلمانوں کے غیر مسلموں سے تعلقات کو استوا ر کرنے میں مددکرسکتے ہیں بلکہ خود مسلمانوں کے درمیان جوبہت سارے نظریاتی اور عملی بحران پیدا ہوگئےہیں ان کے حل کا بھی اس سے بہتر اور کوئی طریقہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر غیر مسلم انسانیت سے مسلمانوں کا تعامل کیا ہو؟ موجودہ زمانہ میں اس سوال کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہےکیونکہ گلو بلائزیشن کےاس دور میں یہ کسی کےلیے بھی ممکن نہیں کہ وہ اپنے گھیٹو (Ghetto ) بنا کر الگ تھلگ رہ لے۔ نہ یہ ممکن ہے کہ کوئی ایک ملک دوسرے ملکوں سے کٹ جائے اور نہ یہ ممکن ہے کہ کوئی ایک قوم دوسری قوموں سے کوئی رشتہ نہ رکھ کر دنیا میں رہ لے ۔ آج سب کسی نہ کسی طرح سب ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ ثقافت کی یلغار سے کوئی بچا ہوا نہیں ہے۔ جولوگ پہلے ٹی وی سیٹ توڑ کر یہ سمجھتے تھےکہ اس طرح وہ اپنی نسلوں کو مغرب سے آنے والے طوفان بلا خیز سےبچا لے جائیں گے آج انہیں کے بیٹے اور پو تے ٹی وی چینلوں میں کام کررہے ہیں ۔ ان کے گھروں میں انٹر نیٹ استعمال کیا جاتا ہے جس پر گویا پوری دنیا کی معلومات اب آپ کے finger tips کےنیچے ہیں۔ اس صورت حال سےنمٹنے کے لیے مسلمان علماء جن فقہی کتابوں کی طرف اس سلسلہ میں رجوع کرتے ہیں وہ اس زمانہ میں لکھی گئی ہیں جس میں دنیا کے بڑے حصہ مسلمانوں کا اقتدار تھا ۔ ‘‘ اب صورت حال بالکل مختلف ہےاس مقصد کے تحت اب اس سے مختلف اقدامات کی ضرورت ہے جو گزشتہ زمانہ میں تجویز کیے گئے تھے ’’ مقصدکہنے کا یہ ہے کہ ہمارے علماء ڈائیلاگ اور گفتگو کی جو مخالفت کرتے ہیں وہ درست نہیں کہ ڈائیلاگ اور گفتگو اب عام انسانوں کی عملی ضرورت ہے اور اس سے کہیں زیادہ وہ آج مسلمانوں کی بھی ضرورت بن گئی ہے۔ چنانچہ ایران کے فلسفی رہنما اور سابق صدر خاتمی نے باقاعدہ اس کے لیے اپنا تصور مذاکرات پیش کیا جس کو دنیا میں تسلیم کیا گیا ۔ ضرورت ہے کہ اس پر عملی قدم اٹھائے جائیں اور با معنی مذاکرات کا آغاز کیا جائے ۔
مسلمانوں کےاپنے مابین مسائل او ربحرانوں کے حل کے لیے مذاکرات کس طرح مدد کرسکتے ہیں ،اس کی وضاحت عصری تناظر میں کرنے کے لیے ہم عملی مثالوں کا سہارا لیتے ہیں ۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ انتہا پسند عناصرمسلمانوں میں بھی ہیں، عیسائیوں ، یہودیوں، ہندؤوں اور بودھوں میں بھی، یہی بات دوسرے ادیان ومذاہب کے بارےمیں بھی کہی جاسکتی ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ان سبھی مذاہب میں اکثر یت امن پسندوں کی ہے ۔ اب انتہا پسندوں کو سائڈ لائن کرنے اور غیر مؤثر کرنے کے لیے مختلف مذاہب کی امن پسند اکثریت کو باہم مل کر دہشت گردی کے اس خطرے کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ لوگوں کے ذہن میں یہ غلط بات بیٹھ گئی ہے کہ دہشت گردی ناانصافی اور سماجی نا برابری کا رد عمل ہے ۔ یہ بات درست تو ہے مگر آدھا سچ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہب کی غلط تعبیر بھی انتہا پسندی کا اہم سبب ہے کہ مذہبی نظریاتی انتہا پسندی امکانی (potentially ) دہشت گردی جس کو آپ بآسانی عمل دہشت گردی میں بدل سکتےہیں۔
مثال کے طور پر پاکستان کا کیس لے لیں جہاں دہائیوں سے سنی شیعوں اور شیعہ سنیوں کا گلا کاٹ رہے ہیں۔ شیعہ صحابہ رضی اللہ عنہ پر تبر ا پڑھتے ہیں ابوبکر ، عمر اور عائشہ رضی اللہ عنہ کوبرا بھلا کہتے ہیں۔ یا زبان سے نہ کہتے ہوں مگر ان کے لٹریچروں میں یہ چیز موجود ہے او رکھل کر موجود ہے جومجالس عزاء میں کسی نہ کسی طور پر آہی جاتی ہے ۔ عین ممکن ہے کہ یہ محض پروپیگنڈاہی ہو مگر اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ رد عمل میں سنی شیعوں کی تکفیر کرتے ہیں ان کو مباح الدم قرار دے ڈالتے ہیں اور ان کے قبر ستانوں ، امام باڑوں ، مجالس اور بارگاہوں اور جلوسوں کو بموں کا نشانہ بنا دیتے ہیں اور اس کو ثواب کا کام سمجھتے ہیں ۔ اس کے جواب میں شیعہ سنیوں پر حملے کرتے ہیں اور یہ سلسلہ بلا روک ٹوک جاری رہتاہے ۔ بظاہر ایسی انتہا پسند تنظیموں کو سرکار نے کالعدم قرار دیا ہو ا ہے مگر دونوں کے عوام میں ان کا سپورٹ بہت مضبوطی سے کیا جاتا ہے۔ اور اس کے دباؤ میں وہ علماء بھی اس چیز کو غلط سمجھتے ہیں ، مجبور ہیں کہ ان کی ہاں میں ہاں ملائیں۔ دونوں ہی فرقوں میں منہ زور نوجوان اور جذباتی الفاظ والے علماء اورخطیبوں کی کھیپ کی کھیپ ہے جن کو اپنے حلقے کے اکابر علماء کی تائید و حمایت حاصل ہے۔ آپ ان کی اشتعال انگیز تقریروں اور جذباتی بیانات اور نعروں کو فیس بک پر، یو ٹیوب پر بآسانی دیکھ سکتے ہیں۔ راقم نے خود یو ٹیوب پرایسے بہت سے جذباتی علماء کی تقریر یں سنی ہیں۔ جو کسی بھی شہر میں فرقہ وارانہ آگ لگانے کے لیے اور کسی بھی ملک میں آتش فشاں بھڑکانے کے لیے کافی ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان یہ صورت حال با لکل غیر مناسب ہے۔ اس کے بہت سے نقصانات مسلمانوں کے سامنے آبھی رہےہیں ۔ غیر مسلم طاقتیں مسلمانوں کو مزید کمزور کرنے کے لئے ان کے اختلافات کو ہوا دے رہی ہیں۔ کیونکہ وہ یہ سمجھتی ہیں کہ اس طرح مسلمانوں کو کمزور کیا جاسکتا ہے یا ان کی کمزوری کوبرقرار رکھا جاسکتا ہے۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ آج پوری دنیامیں مسلمانوں کی بڑی تعداد ہے بلکہ تمام اقوام میں دوسری سب سے بڑی آبادی انہی کی ہے، اس کے علاوہ پچاس سے زیادہ حکومتیں ومملکتیں بھی ان کے پاس موجود ہیں، ان میں سے بعض تو قدرتی وسائل سےلیس ہیں اور اقتصادی اعتبار سے بہت مضبوط ہیں مگر مسلم مملکتوں او رمسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کے باوجود وہ پسماندگی کے شکار ہیں اور دوسری بہت سی قوموں کے مقابلے میں کافی کمزور بھی ہیں۔مسلم ممالک باہم متحد نہیں ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، اسی طرح سے مسلمان خواہ وہ مسلم اقوام کےہاتھوں میں ہے اختلاف و تنازعات میں گرفتار ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ ایسے میں بھلا کیسے ممکن ہے کہ وہ ترقی کریں یا پھر دنیا میں اپنی حیثیت منوا ئیں۔ مسلمانوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ باہم متحدہو ئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ یہ بات بھی انہیں ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ ان کی جو صورت حال فی الوقت ہے اگر انہوں نے اپنی صفوں میں اتحاد پیدانہ کیا تو آنے والےکل میں ان کے حالات مزید دگرگوں ہوجائیں گے۔ شاید ایسی پستی میں جا پڑیں گے کہ جلد اس کا مداوانہ ہوسکے گا او رانہیں اپنے مقام تک آنے کےلئے صدیوں محنت کی ضرورت ہوگی۔ اس سےقبل کہ حالات مزید خراب ہوں انہیں حالات سے سبق لینا چاہیئے اوراپنے معاملات کو باہم گفت و شنید کے ذریعہ حل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیئے ۔ مسلمانوں کے مابین بڑھتے فاصلے ایک پے چیدہ مسئلہ ہیں۔
میری نظر میں اس کا حل صرف مذہبی ہے اور اس میں بھی دیر لگے گی۔اور وہ یہ ہے کہ دونوں طرف کے علماء باہم گفتگو کریں اور ڈائیلاگ کےذریعہ مسئلہ کاکوئی حل نکالیں ۔ یہ مسئلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں تا ہم وہاں صورت حال کچھ زیادہ ہی بگڑ ی ہوئی ہے اور سامنے کی ہے کہ اس لیے اس کی مثال پیش کی گئی ہے۔ ورنہ بات ایران ،عراق اور شام کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ جہاں فرقہ وارانہ تشدد اب تک لاکھوں انسانوں کی بلی لے چکا ہے۔ اور یہ عفریت روکے نہیں رک رہا ہے بلک شام میں تو اب اس کو ایک زبردست پناہ گاہ اور انڈے سے بچے دینے کے لیے ایک تیار ماحول مل گیا ہے۔ ہم اصل حقائق کا سامنا کرنے کےبجائے ریت میں منھ چھپانے اور مغربی طاقتوں اور یہودی سازشوں کے سرساری ذمہ داری ڈال کر پلہ جھاڑ نے کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔اگر کہیں کوئی سازش ہے بھی تو وہ بھی اسی لیے کامیاب ہوجاتی ہے کہ ہمارے معاشرہ میں پہلے ہی اس کے لیے امکان موجود ہے۔
اگر ہم انسانی مسائل کے حل کےلیے گفتگو او رڈائیلاگ کوایک بہتر متبادل مان لیں اور اس سے استفاعہ کرنےلگیں تو یقین سے یہ تو نہیں کہا جاسکتا ہے کہ اس سے سارے مسئلے حل ہوجائیں گےاور سارے دکھ دورہوجائیں گےمگر اتنا تیقن سے ضرور کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ انتہا پسند ی اور دہشت گردی کی شدت میں ضرور اس سے کمی آجائے گی۔ دنیابہت تیزی سےتبدیل ہورہی ہے ۔ آج جنگ ، فوجی مداخلت یا تشدد سب کاؤنٹر پروڈکٹ ( الٹا نتیجہ دینے والے)ثابت ہو رہے ہیں۔ امریکہ جیسی بڑی اور مہیب طاقت کے لیے بھی یہ ممکن نہیں ہے کہ فوجی مداخلت سےاورجنگ سے سب کو مفتوح کرلے اور مسئلے حل کرلے۔ اگر ایسا ہوسکتا تو نہ نائن الیون ہوتا اور نہ بوسٹن کا تازہ حملہ ۔ اس لیے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ اب غیر مسلموں سے بھی ڈائیلاگ کریں اور خود مسلمانوں کے درمیان جو شدید اختلافات پائے جاتے ہیں اور جو آسانی سے ایک دوسرے کے خلاف تشدد میں بدل جاتے ہیں ان کے خاتمہ کے لیے اور مختلف مسلکوں اور جماعتوں اور مختلف مکاتب فکر کے درمیان پیدا ہونے والے بحرانوں کے حل کے لیے مذاکرات کا سہارا لیں۔
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
21 مئی، 2013 بشکریہ :روز نامہ قومی سلامتی ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/dialogue-key-solutions-problems-facing/d/11846