ڈاکٹر جی ایم بٹ
10ستمبر،2021
کشمیر میں صو فی درگاہوں
او رمزاروں کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یوں کہا جائے کہ یہ ہماری معاشرتی زندگی کا اہم
جز ہیں تو بے جانہ ہوگا۔ صدیاں گزر جانے کے باوجود لوگوں میں ان درگاہوں، مزاروں
اور یہاں منعقد ہونے والے عرسوں کے ساتھ عقیدت جوں کی توں موجود ہے۔ لوگ بڑی عقیدت
کے ساتھ مزاروں اور خانقاہوں پر جاتے ہیں۔ نذر و نیاز پیش کرتے ہیں۔ اپنی مشکلات و
حاجات کا اظہار کرتے اور بڑی امیدیں لے کر
رخصت ہوجاتے ہیں۔ ان مقامات پر نوجوانوں، بوڑھوں او رعورتوں کا رش لگا رہتا
ہے۔مخصوص ایام پر حاضری دینے والوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ بلبل شاہ سے لے کر موجودہ زمانے تک لوگوں کی اس عقیدت
میں کوئی فرق نہیں آئی ہے۔اس حوالے سے رونمایاں کردار بڑے اہم مانے جاتے ہیں۔ للہہ
عارفہ او رشیخ العالم۔ یہ دونوں کشمیری تصوف کے آئینہ دار خیال کئے جاتے ہیں۔
دونوں نے یہاں ریشیت اور صوفیت کو فروغ دینے میں بنیادی کردار ادا کیاہے۔ ان کی
کوششوں کا نتیجہ ہے کہ کشمیر میں مشترکہ کلچر کی روایت آج تک برقرار ہے۔صوفی ازم
کی یہی بنیادی شناخت سمجھی جاتی ہے۔
پچھلے دنوں کشمیر
انتظامیہ کی طرف سے بتایا گیا کہ صوفی درگاہوں پر عرس منعقد کرنے کے لئے تعاون
فراہم کیا جائے گا۔ صوبائی کمشنر نے اس کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ باہمی بھائی
چارہ کو فروغ دینے کے لئے صوفی بزرگوں کی درگاہوں پر منعقد ہونے والی تقریبات کے
لئے حکومت تعاون دے گی۔ ان کاکہناتھا کہ اس حوالے سے ایک ٹھوس پالیسی بہت جلد تیار
کی جائے گی۔ صوبائی کمشنر کا کہناتھا کہ نندہ ریشی کے کلام کو ہندو او رمسلمان سب
ایک ہی نظر سے مانتے ہیں۔ صوفی سنتوں کے ساتھ کشمیر ی عوام کا لگاؤ اور محبت ایک
تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ سخت مشکل حالات کے اندر بھی اس طرح کی صورتحال کو بگاڑ ا نہیں
جاسکا۔ ابتر حالات کے اندر خاص طور سے کووڈ 19 کے دوران ایسی مجالس اور تقاریب کا
انعقاد ممکن نہ ہوسکا۔ تاہم حالات کے اندر تھوڑے سے بدلاؤ کے ساتھ ایسی سرگرمیاں
پھر سے بحال ہورہی ہیں۔ عوام ان سرگرمیوں سے دور رہنا پسند نہیں کرتے۔ بلکہ ان
لوگوں کو پسند نہیں کیا جاتا جو اس قسم کی سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے
ہیں۔ اسلام کی بنیادی عبادات جیسے نماز، روزہ وغیرہ سے تغافل تو کیا جاسکتا ہے
لیکن عرس اورایسی تقریبات کو نظر انداز کرنا برداشت سے باہر ہے۔ یہ کشمیر ی ثقافت
کا ایک لازمی جز قرار پایا ہے۔ بہت سے لوگوں کو اس وجہ سے بڑی تکلیف پہنچتی ہے۔ اس
کو اسلام کے روح کے منافی قرار دیا جاتا ہے۔ بلکہ اسلامی تعلیمات سے بے جوڑ سمجھا
جاتاہے۔لیکن عام لوگ ان باتوں پرکان دھرنے کو تیار نہیں۔ اس دوران یہ بات بھی نظر
انداز نہیں کی جاسکتی کہ پچھلے کچھ عرصے سے صوفی ثقافت کو اصل منشا سے منقطع کرکے
ایک تجارت بنایا گیا ہے۔ کئی لوگوں نے اس کے ساتھ ذاتی مفادات جوڑ دئے ہیں۔
خانقاہوں او ربزرگوں کے مزاروں کا استحصال کرکے اس کو ذاتی مفادات پورا کرنے کا
ذریعہ بنایا گیا ہے۔ خانقاہوں پر چڑھائے جانے والے نذر انے یہاں موجود چیلوں او
رمجاوروں کی جیبوں میں جاتی ہے۔پچھلے طویل عرصے سے ان زیارتوں کے سرکاری اداروں
خاص کر اوقاف اسلامیہ سے متعلق کئی طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ تاہم بہت سے
مقدس مقامات آج بھی لوگوں کے لئے مرجع خلائق بنے ہوئے ہیں۔ یہاں نظام کسی قدر
اطمینان بخش نظر آتا ہے۔ شادرہ شریف کے حوالے سے کہا جاتاہے کہ حاضری دینے والوں
کے علاوہ رات کو قیام کرنے والوں کے لئے انتظامات اطمینان بخش ہیں۔سب سے اہم بات
یہ ہے کہ ہر مذہب کے لوگ بڑے آرام سے یہاں ٹھہرسکتے ہیں۔ اسی طرح دور دراز کی
درگاہوں پر روح پرور مجالس منعقد کی جاتی ہیں۔ ان زیارتوں پر لوگوں کے درمیان ایک
مضبوط بھائی چارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
برگزیدہ صوفیوں کا مرکز
ہمیشہ دل رہا ہے۔ قلب کی صفائی پر خاص توجہ دی جاتی تھی۔ بلکہ سارا نظام ہی دل سے
آلائشیں اور کدورتیں دور کرنے تک محدود تھا۔ کسی دوسرے چیز کو کوئی اہمیت ہی نہ
تھی۔ دل سدھر جائے تو باقی سب کچھ از خود ٹھیک ہوجائے گا۔ یہی صوفیا کی تعلیم تھی۔
یہاں تک کہ ذکر کرواذکار کامرکز بھی دل ہی مانا جاتا تھا۔ ان کے یہاں روحانیت کے
لئے جو مشقیں مخصوص تھیں وہ دل سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کی مخصوص اصطلاحات موجود
تھیں۔ ان اصطلاحات کو اسی مقصد کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ آج نظام بدل چکا ہے۔
معاشی او رمالی دلچسپی نے صوفی ازم کی کشش ختم کی۔ اتنے کڑے او رمشکل نظام کو
اپنانا کسی کے بس کی بات نہیں۔ اچھے کھانوں، چمک دمک والے لباس، رہائشی آسائشوں او
رنقل و حمل کے آرام دہ وسائل کو ترک کرکے سخت ترین آزمائشوں سے خود کو گزارنا اب
محض ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ اس وجہ سے کوئی صوفی ظاہر ہوتا ہے نہ صوفی ازم کو
بحال کرنا ممکن ہوتاہے۔یہ بس ایک نعرہ بن گیا ہے جس کو مختلف لوگ اپنے اپنے مقاصد
حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
10 ستمبر، 2021،بشکریہ: چٹان، سری نگر
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism