ڈاکٹر بشیر احمد ملک،
نیو ایج اسلام
9ستمبر،2021
راولپنڈی کا ایک سو بیس
سالہ قدیم موتی بازار شہر کے چند قدیم ترین بازاروں میں سے ایک ہے۰ مگر اس حقیقت سے بہت کم
لوگ واقف ہیں کہ ٹرنک بازار سے متصل ایک تنگ و تاریک گلی کی ایک حویلی سے شروع کیا
گیا بازار دراصل ایک فرسودہ ہندوانہ رسم “رستی” سے بغاوت کے نتیجے میں بنایا گیا
تھا۰ “ستی”
رسم کے مطابق مرد کی وفات کے بعد اس کی زوجہ کو بھی خاوند کے ساتھ جلا دیا جاتا ہے۔
روایت کے مطابق 1883 میں اس علاقے میں رہنے والے ایک ہندو تاجر
موتی رام نے اپنی مرحومہ بیوی کی یاد میں ایک حویلی بنوائ اور اسے ستی رسم کے خوف
سے گھروں سے فرار ہونے والی خواتین کے دارالامان بنایا اور ہندی نام “ کنیا آشرم” دیا۔ان خواتین کو کنیا
آشرم میں سلائ کڑھائ اور دستکاری کی تربیت دی جاتی اور ان کی بنائ گئ اشیاء سے
آشرم کے اخراجات پورے کۓ
جاتے تھے۔یہ حویلی بازار میں اب بھی موجود ہے۰ سرخ اینٹوں سے بنائ گئ
یہ عمارت فن تعمیر کا شاہکار ہے۰
اس کی دیواروں پر ہندی زبان میں لکھی گئ تین تختیاں آج بھی موجود ہیں۰ ان میں سے ایک تختی پر
چندہ دینے والوں کے نام اور رقوم کی تفصیلات درج ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ موتی
لال نے یہ حویلی دیگر لوگوں کے تعاون سے بنائ تھی۔دوسری تختی 19 جون 1926 میں نصب
کی گئ تھی ۰
اس تختی پر درج ہندی تحریر کے مطابق راۓ
بھولا رام نے اپنی مرحومہ بیوی کی یاد میں اس حویلی کی تعمیر میں حصہ لیا تھا۰حویلی کا دروازہ بھی قدیم
فن تعمیر کا شاہکار ہے اور قیمتی ورثے میں شمار ہوتا ہے۔قیام پاکستان کے بعد راولپنڈی میونسپل کمیٹی نے اس عمارت کو اپنی
تحویل میں لے لیا اور ایم سی بوائز پرائمری سکول کی بنیاد رکھی۔یہ سکول اپ گریڈ ہو
کر ھائ سکول میں بدل گیا ہے۔
ابتداء میں آشرم میں بننے
والی اشیاء کو عمارت کے اندر ہی فروخت کیا جاتا تھا مگر مانگ بڑھنے پر انتظامیہ نے
آشرم کے تھڑے پر ایک چھوٹی سی دوکان بنا دی۔ جب اس دوکان پر کاروبار چمک اٹھا تو
اردگرد کے رہائشی لوگوں نے بھی اپنے مکانوں کی بیٹھک کو دوکانوں میں تبدیل کر کے
کاروبار شروع کر دیا۰
یوں 1901 میں اس تنگ و تاریک گلی نے ایک چھوٹے سے بازار کی شکل اختیار کر لی۔
ابتداء میں دوکانوں کی تعداد 18 تھی جو قیام پاکستان تک بڑھ کر تقریبا” سو تک پہنچ
گئ۰
اس وقت بازار میں تقریبا” 1500 دوکانیں ہیں اور بازار پھیل کر بوہڑ بازار تک پہنچ
گیا ہے۰
بازار کے بالمقابل ٹرنک بازار میں اب صرف
چند دوکانیں ہی ٹرنک پیچنے والوں کی ہیں کیونکہ یہاں تک بھی موتی بازار پھیل گیا ہے۔بازار کے نو
ذیلی بازار ہیں اور ہر بازار کےتاجروں کی ایک علحیدہ تنظیم ہے۰تمام ذیلی تنظیموں کی ایک
مرکزی یونین بھی ہے۔بازار میں ہر وقت جم غفیر نظر آتا ہے اور تل دھرنے کے جگہ نہیں
ملتی۔ اندازا” روزانہ بازار میں تقریبا” آٹھ سے دس ہزار لوگ خریداری کے لۓ
آتے ہیں۰ان
میں اکثریت خواتین کی ہوتی ہے۔
راولپنڈی جو ربع صدی قبل
تک چند
چھو ٹے کاروباری مرکز کا
شہر تھا اب ترقی کر کے وسیع و عریض بازاروں اور بلند و بالا شاپنک مالز کا شہر بن گیا ہے لیکن موتی بازار کی چمک ایک
صدی سے زیادہ گزربے کے باوجود ماند نہیں پڑی۔اس بازار میں ایک ایسی کشش ہے کہ اس
کی بھول بھلیوں جیسی تنگ گلیاں لوگوں سے بھری رہتی ہیں۔ موتی بازار میں نا صرف
ضروریات زندگی کی اشیاء باآسانی دستیاب ہوتی ہیں بلکہ نہایت سستی اور معیاری بھی
ہوتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ لوگ یہاں کھچے آتے ہیں۔ خریداروں میں ناصرف مقامی آبادی بلکہ دوسرے اضلاع، خیبر پختون خواء ، اور آزاد
کشمیر کے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۰یہاں
شادی اور جہیز کا سامان باآسانی میسر ہے جس کی قیمت چند ہزار سے لے کر لاکھوں روپے
تک ہے۰بازار
کے پرانے دوکانداروں کے مطابق ان کے خریداروں میں ایسی خواتین بھی شامل ہیں جہنوں
نے پہلے اپنی شادی کی خریداری کی، پھر اپنی بیٹی کا جہیز خریدا اور بعدازاں اپنی
پوتی یا نواسی کا۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism