ڈاکٹر عظیم ابراہیم
27 جنوری 2016
گزشتہ سال جیسے ہی گھریلو دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی پیش قدمی شروع ہوئی، ہمیں ملک کے شمالی مغرب میں باچا خان یونیورسٹی پر حملے کی خبر ملی۔ 20 جنوری کو انجام دئے گئے ایک اور حملے میں مسلح افراد نے 19 افراد کو قتل کر دیا اور اور 17 افراد کو زخمی۔
2014 کے اوخر میں پشاور اسکول پر حملے کی طرح جس نے ملک کی قیادت کو عسکریت پسندوں پر حالیہ چڑھائی کرنے پر مجبور کر دیا تھا، یہ حملہ بھی اسی قسم کا ہے جس میں"مغربی" تعلیم کو طالبانی تعلیم کی مخالفت سمجھ کر اہداف بنایا گیا ہے۔
یہ یونیورسٹی ایک پشتون قوم پرست رہنما کے نام سے منسوب ہے جن کا یقین ایک غیر متشدد جدوجہد پر تھا، اور اس طرح یہ عسکریت پسندوں کے اقدار پر ایک لعنت ہے۔ یہ یونیورسٹی افغانستان کے قریب اس علاقے کے نوجوان لوگوں کو انگریزی اور سائنس کی تعلیم فراہم کرتی ہے۔
ان کے لئے اس سے بڑا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ وہ اسلامی تاریخ پڑھ پڑھنے والے ہیں اور جو یہ جانتے ہیں کہ بعد کے زمانے کے جہادی اسلام کے لیے ایک دھوکہ ہیں۔
"مغربی" تعلیم فراہم کرنے والے اداروں کو نشانہ بنانا اسلام پسند گروپوں کے لئے ایک عام بات ہے۔ مثال کے طور پر لڑکوں انگریزی اور سائنس کی تعلیم دینا ایک بات ہے۔ لیکن لڑکیوں کو کسی بھی چیز کی تعلیم دینا ان کے نزدیک خاص طور پر ممنوع ہے۔ افغانستان میں لڑکیوں کے اسکولوں کو جلانا ایک عام بات ہے۔
ملالہ اس ذہنیت کے نتیجے میں ایک بین الاقوامی علامت بن گئی ہے۔ لیکن ہمیں ان ہزاروں لڑکیوں کو بھی نہیں بھولنا چاہیے جو اب بھی اسی پریشانی کی چپیٹ میں ہیں۔
اسلامی دنیا کے دوسرے سرے نائیجیریا میں بھی ہمیں بوکو حرام کے اسی رجحان کا سامنا ہے۔ اس عسکریت پسند گروپ کے نام کا لفظی معنیٰ بھی ہی یہی ہے کہ (مغربی) کتابیں "حرام" یا ممنوع ہیں۔ لہٰذا، خاص طور پر عورتوں کے لئے "غیر اسلامی یا مغربی تعلیم حرام ہے"۔
یہ کوئی نظریاتی اصول نہیں ہے
لیکن ان جماعتوں کے لئے یہ کوئی نظریاتی اصول نہیں ہے بلکہ یہ ایک حکمت عملی کی واضح ضرورت ہے۔ اور طویل مدت تک اپنی بقا کے لئے اور جن نظریات کو وہ عسکریت پسند پھیلانے اور شائع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان کے لیے سب سے بڑا خطرہ وہ تعلیم یافتہ نوجوان مسلمان ہیں جو ان کی بدطینتی اور گمراہی کو پہچان سکتے ہیں۔
ان کے لئے اس سے بڑا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ وہ اسلامی تاریخ پڑھ پڑھنے والے ہیں اور جو یہ جانتے ہیں کہ بعد کے زمانے کے جہادی اسلام کے کے لیے ایک دھوکہ ہیں۔
یہ تنظیمیں صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکتی ہیں جب تک انہیں غیر تعلیم یافتہ جہادیوں کی فراہمی ہوتی رہے اور وہ آسانی کے ساتھ انہں اپنے چھوٹے فرقوں میں شامل کرتے رہیں۔
یہ پاکستان اور افغانستان کے چند مدرسوں کا طریقہ کار تھا۔ اکثر معاملات میں ملک کے وسیع علاقوں میں اور خاص طور پر غریب بچوں کے لیے صرف یہی تعلیم دستیاب تھا۔
میں نے یہ پایا ہے کہ یہ فرق بہت تیزی کے ساتھ معمول پر آ جاتا ہے۔ جب میں نے عسکریت پسندی پر تحقیق کرنے کے لئے تقریبا ایک دہائی قبل پاکستان کا دورہ کیا تو میں نے یہ پایا کہ کھل کر شدت پسند عناصر کی حمایت کرنے والی بہت بڑی انتہائی قدامت پسند جماعتوں کے رہنما سب کے لئے سخت طالبان تعلیم کی وکالت نہیں کرتے۔
ان سے ملاقات کرنے کے بعد میں دو باتوں پر حیران تھا۔ ایک، وہ گفتگو میں جس طرح شاندار انگریزی بولتے ہیں اور کس طرح وہ اس بات پر فخر کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کے بچے مغرب میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
ان میں سے ایک نے کہا کہ ان کی بیٹی یونیورسٹی آف ورجینیا میں تعلیم حاصل کرتی ہے، ایک نے کہا کہ ان کی بیٹی بریڈفورڈ انگلینڈ میں تعلیم حاصل کرتی ہے اور ایک نے کہا کہ ان کی بیٹی آسٹریلیا کی کسی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتی ہے۔
میں نے ان ملاقاتوں سے دو باتیں حاصل کیں۔ 1) ۱ن جماعتوں کے رہنما خود اپنے بچوں کو "مناسب اسلامی تعلیم" دینے یا انہیں شہادت دلانے کے سوقین نہیں۔ 2) یہ نعمت صرف دوسرے لوگوں کے بچوں اور غریب ترین خاندانوں کو عطا کی جاتی ہے۔
مجھے یہ بات بھی بہت حیرت انگیز لگی کہ وہ اپنے بچوں کو مغربی یونیورسٹیوں میں بھیجنے کے بھی قابل ہیں۔ امریکہ میں تعلیمی شعبے میں کام کرنے کے بعد میں بہت اچھی طرح اس بات کو جانتا ہوں کہ پاکستان کے کسی گاؤں کی تو بات ہی چھوڑ دیں، خود یہاں کے بچوں کو تعلیم کے لیے کسی ادارے میں بھیجنا اتنا سستا نہیں ہے۔
آخر کا یہ بھی ایک بہت دلچسپ موقع ہے۔ ذرا تصور کریں کہ آپ اتنے پیسے میں "مقدس جنگ" لڑنے کے لئے کتنے کلاشنکوف اور مارٹر بم خرید سکتے ہیں، لیکن پھر بھی موقع ملنے پر وہ مغربی تعلیم حاصل کرنے میں ان پیسوں کا استعمال کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یقینا یہ بہت دلچسپ ہے۔
ماخذ:
english.alarabiya.net/en/views/2016/01/27/The-hypocrisy-behind-militant-attacks-on-educational-institutions.html
URL for English article: https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/militants-attack-educational-institutions-this/d/106138
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/militants-attack-educational-institutions-/d/106164