ڈاکٹر علی ربانی
24 اپریل 2021
کسی بھی قوم کے لئے سب سے
اہم اورپائیدار وراثت میں سے ایک اس قوم کا ادب ہوتا ہے۔ چونکہ ادب اس قوم کی
تخلیقی صلاحیتوں اور خود اعتمادی کا مظہر ہوتا ہے، لہٰذا اسے دوسروں کے ساتھ بات
چیت کے لئے ایک اہم پلیٹ فارم سمجھا جاتا ہے۔
ایرانی قوم ان چند
معاشروں میں سے ایک ہے جن کا ادب سے سب سے زیادہ تعلق رہا ہے۔ گزشتہ تاریخ میں
ایرانی عوام کا ایک نمایاں امتیاز یہ رہا ہے کہ
ادب اور ممتاز شعراء کو وہاں ہمیشہ مرکزیت حاصل رہی ہے۔ فارسی زبان شاعری
کی زبان ہے۔فارسی شاعری نہ صرف ایران میں ادب کے فن کا سب سے نمایاں حصہ ہے، بلکہ
دوسری قوموں خصوصاً ہندوستان سے بھی اس کے گہرے رشتے ہیں۔ اپنی ناقابل تردید دولت
اور تنوع اور صدیوں میں اس کے پھیلاؤ کی وجہ سے، ایران کے ثقافتی میدان کا ادب
ایک ایسا خزانہ ہے جس نے ایران کو ہمیشہ دوسری اقوام کے مابین مشہور کیا ہے اور
دوسری اقوام کے ساتھ باہمی رابطے، بقائے باہمی اور افہام وتفہیم کے اسباب فراہم
کیے ہیں۔ جس طرح یہ خصوصیت، یعنی شاعری کی طرف توجہ، ایک طویل عرصے سے ہندوستانی
عوام میں نمایاں رہی ہے، اور یہ مشترکہ خصوصیت ہندوستان ایران تعلقات کی بنیاد بن
گئی، اور دونوں ممالک کے مابین تعلقات کی تاریخ کا ایک اہم حصہ اشعار اور تصوف پر
مبنی ہے۔ دو نوں قدیم ثقافتوں اور تہذیبوں، یعنی ہندوستان اور ایران نے شاعری، ادب
اور تصوف کی نشوونما میں اہم کردار ادا کیا ہے، اور فارسی ادب اور شاعری سے ان کے
روابط کی ایک مضبوط کڑی کے طور پر استفادہ کیا ہے۔
سعدی شیرازی ایران کے
ممتاز اور مشہور شاعروں میں سے ایک ہیں جو ہندوستانی سامعین کے دل و دماغ کو
میںبستے ہیں۔اس کا ادبی اور اخلاقی کام کے طور پر ہر ایک نے خیرمقدم کیا ہے۔
ایرانی شاعروں میں، شاید سعدی کے علاوہ، مولانا رومی ایران سے باہر اپنے اثر و
رسوخ کی وسعت کے لحاظ سے ان کے مماثل ہوسکتےہیں۔ چونکہ فارسی، ہندوستانی، عربی اور
ترک ثقافت کے دائرے میں رومی کے کلام کی فکر اور روحانی غلبہ نے لوگوں اور مفکرین
کے افکار پر ایسا اثر ڈالا ہے کہ اس کا اثر نہ صرف فلسفہ اور تصوف میں پوری طرح
محسوس ہوتا ہے، بلکہ ان زمینوں کے ادب میں سعدی، جو غنائیت آمیز ادب کے سب سے
نمایاں شاعر ہیں، محبت و اخلاقیات سے لبریز شاعری کے مسلّم استاد ہیں۔ سعدی کی
تقلیدکرنے والوں میں سے ایک امیر خسرودہلوی ہے، جںہی طوطی ہند کا نام دیا گیا ہے۔ ہندوستان اور
ایران میں کم از کم تین صدیوں تک، ابوالفضل عالمی کے عروج تک، وہ شاعروں اور
ادیبوں کے لئے ایک رول ماڈل تھے۔ امیر خسرو کی عشقیہ نظمیں، جو سعدی کی خوبیوںسے
جڑی ہیں، ان میں وہی فصاحت اور مٹھاس ہے۔ لہذا، امیر خسرو، حسن دہلوی سجزی
(738-650 ہجری) کی طرح، ہندوستان کی سرزمین میں فارسی بولنے والے شعراء کی پہلی
نسل کے طور پر سمجھے جاتے ہیں۔
ہندوستانی عوام سعدی
کیطرف راغب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ’سعدی شیرازی‘ اور ان کی زبان کی ایک وسیع
جغرافیائی حدود ہیں جو مصر سے لے کر برصغیر اور مشرقی ایشیا تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس توسیع
کی وجہ خوبصورتی، سادگی اور در حقیقت سعدی کی زبان کا مدھر اور بھرپور مواد ہے، جو
یہاں تک کہ انتہائی معقول حقائق کا اظہار بھی کرتا ہے جو محاورے بھی بن چکے
ہیں۔دوسرا یہ کہ سعدی کے اشعار آج ضرب المثل ہیں۔انکے اشعار میں انسانیت پسندی
اور ہمدردی اور محروموں کی دیکھ بھال کرنے اور لاچاروں اور معذوروں کی مدد کرنے کا
مشورہ، معنیٰ کی دنیا کا خزانہ ہے، سعدی کے انسان دوست خیالات، جو انسانیت کی
روشنی سے بھرے ہیں، ایک اسکول کے اخلاقی اور تعلیمی اصولوں سے متاثر ہیں جو انسانی
معاشرے کو ایک واحد جسم کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ سعدی کے اشعارایک روحانی، علمی
اور عمل اقدار کا مجموعہ ہیں جس میں انسان کے انفرادی اور معاشرتی فرائض کو پیش
کیا گیا ہے اور معزز زندگی گزارنے کے طریقے کی ترجمانی کی گئی ہے اور در اصل اسلام
کی اعلیٰ تعلیمات کا ایک خلاصہ ہیں۔ سعدی کی شاعرانہ سنجیدگی اور فصاحت نے نہ صرف
ایران بلکہ برصغیر، وسطی ایشیا اور یورپ میں زیادہ مقبول بنا دیا، لہٰذا، برصغیر
ہند و پاک میں، سعدی کو ایران کے مقابلے
میں کہیں زیادہ شایع کیا گیا ہے۔ اور سعدی کی تخلیقات کے ترجمہ اور بیان کا بنیادی
حصہ برصغیر خصوصا ًہندوستان سے متعلق ہے۔
آج بھی، شاعر اور ادیب
اقوام کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیںفردوسی، سعدی، حافظ اوربیدل جیسے
عظیم شاعر قوموں کو قریب لانے میں کامیاب رہے ہیں۔ بہت سارے ہندوستانیوں کورومی،
سعدی، حافظ اور فردوسی سے گہرا لگاؤ ہے، جس طرح ہم ایرانی امیر خسرواور بیدل دہلوی
جیسے عظیم ہندوستانی شاعروں سے خصوصی انسیت ہے۔ ہند و ایرانی معاشرے کی ادبیات اور
شاعری کی طرف توجہ کی وجہ سے، یہ ممکن ہے کہ دونوں ممالک کے مابین ثقافتی اور
سیاسی تعامل کی ترقی اور وسعت میں ادبی ظرفیتوں کا استعمال ہو۔ ایران اور ہندوستان
کے عوام کی شاعری اور ادب سے دلچسپی اور عقیدت ثقافتی تعاون کا ایک مناسب پلیٹ
فارم ہے۔ایران میں تاریخ کے مختلف ادوار میں عظیم شاعر رہ چکے ہیں، ملک بھر میں ان
شعرا کے بہت سے مقبرے ہیں۔ نیشابور کے خیام سے لے کر شیراز میںحافظ اور سعدی،
ہمدان میں باباطاہرسے لے کر، طوس، مشہد میں فردوسی تک اور دیگر کئی مثالوں، جن میں
سے ہر ایک کو ہندوستان اور ایران کے لئے ادبی سیاحت کا مرکز سمجھا جاتاہے۔چونکہ
حزین لاہیجی، ظہوری ترشیزی، ہمدانی، طالب امولی، جیسے شاعر، جن کے مقبرے ہندوستان
میں ہیں، ایرانی ادبی شخصیات کے لئے دلچسپی کا مرکزہیں اور دونوں ممالک کے مابین
تعلقات کی گہرائی کو ظاہر کرتے ہیں۔
یقینی طور پر ہمارے دور
میں جب چیلینجز، دشمنیوں اور بیماریوں نے انسانوں کی زندگی میںاہم موضوع گفتگو کی
حیثیت اختیار کرلی ہے تو، سعدی جیسے عظیم شاعروں کی شاعری، آداب اور تخلیقات جو
انسانوں کو امن، محبت اور اتحاد کی دعوت دیتے ہیں، پہلے سے کہیں زیادہ اہم اور
ضرورت کے حامل ہیں۔
کلچرل کاؤنسلر اسلامی جمہوری
ایران، نئی دہلی
24 اپریل 2021،بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/saadi-shirazi-indo-iranian-relations---/d/124735
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism