New Age Islam
Wed Dec 17 2025, 07:32 AM

Urdu Section ( 6 May 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Holy Quran Uses the Most Persuasive and Natural Method of Reasoning-Part-1 وہی طرز ِ استدلال سب سے زیادہ مؤثر اور فطری ہے جو قرآن مجید نے اختیار کیا ہے

ڈاکٹر اختر حسین عزمی

28 اپریل 2023

(پہلی قسط)

دوسری صدی ہجری میں جب یونانی فلسفہ مسلمانوں کے درمیان بحث کا عنوان بنا تو ان علوم وافکار کے زیراثر، اُس زمانے کے ’دانشوروں‘ نے اسلامی عقائد کے بارے میں بے شمار اشکالات اور فکری مغالطوں کی تردید کیلئے فلسفیانہ سوالات کی عقلی بنیادوں پر تردید کی ضرورت محسوس کی۔ چنانچہ مسلمانوں میں ایک نیاعلم ’’ علم کلام‘‘ وجود میں آیا، جس میں فلسفے کی طرح کسی بات کے اثبات وتردید کیلئے دلیل دینے کے طریقے رائج ہوئے۔ بلاشبہ اس ذریعے سے اس دور کے اہلِ علم نے یونانی فلسفے کی زہر ناکی کا مؤثر علاج کیا۔ اس طرح نہ صرف عقلِ سلیم کو متاثر کیا بلکہ تہذیب نفس کا کام بھی کیا۔

علم کلام اور قرآنی استدلال کا فرق

امام غزالیؒ (م:۵۰۵ھ/۱۱۱۱ء)نے اپنے زورِ استدلال سے یونانی فلسفہ سے مرعوب ذہنوں کے سامنے یونانی فلسفے کی کمزوری کو عیاں کیا۔ وہ قرآنی دلائل اور فلسفیانہ طرزِ فکر رکھنے والے متکلمین کے دلائل کا فرق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’قرآنی دلائل غذا کی مانند ہیں، جن سے ہر انسان استفادہ کرتا ہے، جب کہ متکلمین کے دلائل دوا کی طرح ہیں جس سے کچھ لوگوں کو تو فائدہ ہوتا ہے لیکن ایک بڑی تعداد کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔ قرآنی دلائل پانی کی مثل ہیں، جس سے دودھ پیتا بچہ اور تنو مند شخص، دونوں ہی فائدہ اٹھاتے ہیں، جبکہ دوسرے دلائل [مرغن] کھانوں کی طرح ہیں، جن سے صحت مند اور طاقت ور لوگوں کو تو کبھی فائدہ ہوتا ہے اور کبھی نقصان، لیکن دودھ پیتے بچے اس سے بالکل فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ ‘‘ (علم الکلام ،ص۲۰)

مراد یہ کہ جن ذہنوں کو یونانی فلسفے نے پریشاں فکری میں مبتلا کر دیا ہو، ممکن ہے کہ منطقی دلائل سے ان کی تشفی ہو جائے، لیکن اس چیز کا امکان موجود ہے کہ اکثر لوگوں کو یہ اسلوب الٹا شکوک وشبہات میں مبتلا کردے ، جب کہ قرآنی دلائل اپنی سادگی کے باعث غذا اور پانی کی طرح ہر ذہنی سطح کے فرد کی پیاس اور بھوک مٹا سکتے ہیں۔

امام فخرالدین رازیؒ (م:۶۰۶ھ/۱۲۱۰ء) متکلمین و فلاسفہ کے امام ہیں اور مفسر قرآن بھی۔ وہ تـفسیرکبیر میں قرآنی طرزِ استدلال کی افادیت یوں بیان کرتے ہیں :

 ’’قرآن کا دلیل دینے کا انداز عوام الناس کے ذہنوں کے زیادہ قریب ہے اور ان کی عقلوں میں بات بٹھانے کا مؤثر ذریعہ ہے۔ قرآنی دلائل کو انسانی ذہنوں کے قریب تر ہی ہونا چاہئے تا کہ خواص وعوام اس سے فائدہ اٹھا سکیں ۔ پھر یہ ہے کہ قرآنی دلائل کا مقصد بحث ومناظرہ نہیں بلکہ صحیح عقائد کو دل نشین کرانا ہے اور اس مقصد کے لئے اس قسم کے دلائل دوسری قسم کے دلائل سے زیادہ مضبوط اور مؤثر ہوتے ہیں۔‘‘  (تـفسیر کبیر،ج۲،ص ۹۸)

زندگی کے آخری دنوں میں امام رازیؒ نے جو وصیت اپنے شاگرد ابراہیم اصبہانی کو تحریر کرائی، اس میں بھی کلام و فلسفہ اور قرآن کے بارے میں انھوں نے کہا:

 ’’میں نے فلسفہ و کلام کے طریقوں کو آزمالیا، لیکن مجھے ان میں کوئی ایسا فائدہ نظر نہ آیا جو اُس فائدے کے برابر ہو، جو میں نے قرآن میں پایا ہے۔ اسلئے  کہ قرآن، اللہ کی عظمت کو منواتا ہے اور خواہ مخواہ کی باریک بینی اور موشگافی سے بچاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ جانتا ہے، انسانی عقلیں ان طویل اور تنگ گھاٹیوں اور خفیہ راستوں میں بھٹک کر رہ جاتی ہیں۔‘‘ (طبقات الشافعیہ، ج۸،ص۹۱)

ابن کثیرؒ (م: ۷۷۴ھ/۱۳۷۳ء) کے مطابق امام رازیؒ نے لکھا ہے:

’’میں کلام اور فلسفے کے طریقوں کو آزما چکا ہوں۔یہ نہ تو کسی پیاسے کی پیاس بجھاسکتے ہیں اور نہ کسی بیمار کو شفا دے سکتے ہیں۔ اس کام کے لئے تمام راستوں کے مقابلے میں قریب ترین راستہ قرآن کا راستہ ہے۔ ‘‘

(البدایہ والنھایہ ، ج۱۳، ص۵۶)

امام ابن تیمیہؒ (م:۷۲۸ھ/۱۳۲۸ء )کے مطابق متکلمین وفلاسفہ کے طرزِ استدلال میں غیر ضروری طوالت اور تکلفات سے کام لیا گیا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں :

’’اہل کلام و فلسفہ نے مطالب الٰہیہ پر جو عقلی دلائل قائم کئے ہیں، ان کے مقابلے میں قرآن مجید کے دلائل کہیں زیادہ مکمل، بلیغ اور مؤثر ہیں۔ پھر اس کے ساتھ وہ ان بڑے مغالطوں سے بھی پاک وصاف ہیں جو فلسفیوں اورمتکلمین کے دلائل میں پائے جاتے ہیں۔ ‘‘

(الرّد علی المنطقیین ،ص ۳۲۱،۲۵۵)

قرآنی استدلال کا آغاز خشک اور پیچیدہ متکلمانہ مقدمات سے نہیں ہوتا بلکہ قرآن ہر مخاطب کی ذہنی سطح کے اعتبار سے حجت پیش کرتا ہے ۔ حضرت یوسف ؑ کے پاس جب ان کے ہم نشین دوقیدی اپنے خواب کی تعبیر پوچھنے آئے، تو انہوں نے تعبیر بتانے کے وعدے کے ساتھ ان کے سامنے ایک سوال رکھا:

’’کیا بہت سے متفرق ربّ بہترہیں یا ایک اللہ جو سب پر غالب ہے ؟‘‘ (یوسف :۳۹)

آقا و غلام کی معاشرتی حیثیت سے واقف ہر شخص کے لئے سوال کا یہ انداز جتنا عام فہم ہے، لامحالہ اس کا جواب ایک ہی ہے، خواہ اس سوال کا مخاطب اَن پڑھ ہو یا اعلیٰ تعلیم یافتہ۔ یہ تو ممکن ہے کہ اس سوال کے جواب میں اَن پڑھ اتنا ذہنی وروحانی لطف نہ اٹھا ئے جتنا کہ ایک تعلیم یافتہ اس سے لذت پائے گا لیکن کوئی تعلیم یافتہ شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ سوال عامیانہ ہے، میرے علمی مرتبے کے مطابق نہیں ہے۔ اسی طرح قرآن یہ کہتا ہے کہ :

’’اگر آسمان اور زمین میں ایک اللہ کے علاوہ دوسرے خدا بھی ہوتے تو (زمین وآسمان) دونوں کا نظام بگڑ جاتا ۔‘‘  (انبیاء:۲۲)  لہٰذا، اس آیت میں بتائی گئی حقیقت سے کسی سطح کا آدمی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ کوئی خاندان ہو یا ملک، اگر اس کے سربراہ ایک سے زائد ہوں گے تو نتیجہ کیا ہو گا۔

محسوس واقعات کے ذریعے غیرمحسوس حقائق پر استدلال

قرآن محسوس واقعات کے ذریعے غیرمحسوس حقائق پر استدلال کرتا ہے۔

اَبرہہ کے ہاتھیوں کے ساتھ آنے والے ۶۰ ؍ہزار کے لشکر کے مقابلے کا تصور عرب کے منتشر قبائلی معاشرے میں ممکن ہی نہ تھا۔ اس موقعے پر خود مجاورین ِ کعبہ (قریش) نے ۳۶۰؍ بتوں کی موجودگی کے باوجود صرف ایک ربّ سے اپنے گھر کی حفاظت کی فریاد کی تھی، کسی دیوتا کو نہیں پکارا تھا۔ تمام جاہلی شاعری بھی اس واقعے پر گواہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس محسوس واقعہ کو یاد دلاتے ہوئے کس طرح غیر محسوس حقیقت کی طرف متوجہ کیا۔ فرمایا: ’’ تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے ربّ نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟‘‘ (الفیل:۱)۔ اصحاب الفیل کے ساتھ جو کچھ کیا وہ ’تمہارے ربّ ‘ یعنی محمد ؐ کے ربّ نے کیا۔ اس لئے کہ اس اکیلے ربّ کی طرف تو محمد ؐ ہی دعوت دے رہے تھے، جبکہ مشرکین قریش کو تو ایک ربّ کی بات سننا بھی گوارا نہ تھی۔ حالانکہ اس حقیقت کا مشاہدہ ہی نہیں بلکہ اپنی زبانوں سے اس کا اقرار خانہ کعبہ کے پردوں کو پکڑ کر تمام سرداران قریش چالیس پینتالیس سال پہلے کر چکے تھے ۔

اسی طرح سورۂ قریش جو درحقیقت سورۂ فیل ہی کے مضمون کی تکمیل کرتی ہے، محسوس واقعے کو غیر محسوس حقیقت کے ماننے پر متوجہ کرتی ہے ۔ دورجاہلیت میں عرب میں ہر طرف قافلے لٹتے تھے، مگر مجاورین ِ کعبہ ہونے کے باعث قریش کے تجارتی قافلوں کو عقیدت واحترام سے گزرنے دیا جاتا تھا۔ امن وامان کی اس ضمانت کے باعث قریش کو عرب میں تجارتی اجارہ داری حاصل تھی اور حرم کے نذرانوں کی آمدنی الگ تھی۔ عرب کی معاشی بد حالی اور بھوک کے زمانے میں قریش کو وافر سامانِ طعام ملا اور بدامنی کے خوف کے دنوں میں امن وامان ملا۔ اس کا وہ کیسے انکار کر سکتے تھے کہ یہ سب کچھ انھیں خانہ کعبہ کے متولی ہونے کی حیثیت سے ملا ہے ۔ قرآن نے بھوک اور خوف کی جگہ کھانے اور امن کے محسوس واقعے کا حوالہ دے کر ربّ کی عبادت کی طرف متوجہ کیا۔ فرمایا: ’’پس انہیں چاہئے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں جس نے انہیں بھوک سے بچا کر کھانے کو دیا اور خوف سے بچا کر امن عطا کیا۔‘‘ (القریش :۳-۴)

مخاطب کے اقرار پر مبنی دلائل

قرآنی دلائل مخاطب کے اقرار پر مبنی ہوتے ہیں یا ایسے قوانین فطر ت کے بیان پر مبنی ہوتے ہیں، جو کائنات میں اٹل اور مستقل اصول کی حیثیت سے جاری ہیں۔ چونکہ قرآن کے مخاطب وجود باری کے منکر نہ تھے، اس لئے وجود باری پر براہ راست دلائل دینے کے بجائے بالواسطہ طور پر صفات باری کے بیان کے ذریعے ایسے خالق کا وجود منوایا گیا، جو قادر مطلق اور خلّاق عظیم ہے، جو قہار وجبار ہونے کے ساتھ ستاروغفار ہے، جو بصیر وعلیم ہونے کے ساتھ رحیم و کریم ہے۔ اسی کو بنیاد بناتے ہوئے ان کے شرک کے بودے پن کو نمایاں کیا گیا:

 ’’اِن سے پُوچھو، کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں؟ کون بے جان میں سے جاندار کو اور جاندار میں سے بے جان کو نکالتا ہے؟ کون اِس نظم عالم کی تدبیر کر رہا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ کہو، پھر تم (حقیقت کے خلاف چلنے سے) پرہیز نہیں کرتے؟‘‘ (یونس :۳۱)

مخاطب عوام ہوں یا ان کے اہل فکر، خدا کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے تھے، البتہ شرک کرتے تھے۔ وجود باری پر دلیل اس لئے نہیں دی گئی کہ دلائل کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں دلیل دعوے سے زیادہ واضح ہو۔ یہاں تو دعویٰ بذات خود واضح تھا۔

(جاری)

28 اپریل 2023،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

--------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/holy-quran-natural-method-reasoning-part-1/d/129715

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..