ڈاکٹر عائشہ موسی
08مئی ، 2012
تمام مختلف حالات میں حدیث روایتی اسلام کا ایک ایسا لازمی حصہ ہے کہ ، جب کوئی یہ تجویز پیش کرتا ہے کہ ، صرف قرآن کو ہی مذہبی قانون اور مسلمانوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہونا چاہئے، تو عام طور پر یہ نظریہ حیرت اور صدمہ کا باعث ہوتا ہے ۔
لہٰذا، جو لوگ صرف قرآن پر عمل کی وکالت کرتے ہیں، انہیں حدیث کے مسئلے کا حل پیش کرنا ضروری ہے۔
عربی لفظ "حدیث" کا مطلب کوئی واقعہ ہے، یا قول ہے۔ کسی کا بھی کوئی واقعہ ، یا کوئی قول۔ روایتی مسلمانوں کے لئے اس کا معنی ، کوئی خاص واقعہ یا وہ قول ہے ، جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارے میں بیان گیا ہے ،یا ان سے منسوب ہے۔
روایتی طور حدیث کے تعلق سے گفتگومیں توجہ کا مرکز اس کی ثقاہت کا سوال رہا ہے۔ یہ ان لوگوں کے درمیان گفتگو کا سچ ہے، جو حدیث کی پیروی کی وکالت کرتے ہیں اور ان کے درمیان جو صرف قرآن کی پیروی کی وکالت کرتے ہیں ۔
ان شاءاللہ ، ہم دیکھیں گے کہ حدیث کی ثقاہت کے سوال پر اس قدر توجہ نے دیگر اہم سوال پر پردہ ڈال دیا ہے ۔
روایتی مسلمانوں کے لئے ثقاہت پر توجہ مرکوز کرنا ، اس بات کو یقینی بنانے کی ایک کوشش ہے کہ، لوگ اس بات کا تعین کرنے کے لئے کہ قانون اور رہنمائی کے درست ذرائع کیا ہیں ، احادیث کی حقیقت اور ثقاہت کا فیصلہ کر سکتے ہیں ۔
ابتدائی دور کے مسلم علماء کرام کو ، ان لوگوں کی تشخیص کرنے کے لیے جو قابل اعتماد سمجھے جاتے ہیں ، ان لوگوں سے جو قابل اعتماد نہیں سمجھے جاتے، ان لوگوں کی سوانح حیات مرتب کرنے میں بڑی تکلیفوں کا سامنا کرنا پرا ، جنہوں نے مبینہ طور پر احادیث کی روایت کی اور اسے منتقل کیا ۔
صرف وہی روایت صحیح سمجھی جائیں گی جن کے راوی مستند اور ثقہ افراد ہوں ۔
اس بات کا سوال کہ کیا مسلمان ان کے بیان کردہ معیار کے تئیں ہمیشہ درست رہے ہیں یا نہیں، یہ ایک الگ مسئلہ ہے جسے میں یہاں بیان نہیں کروں گی ۔ یہاں سب سے اہم وہ صداقت ہے کہ، ثقاہت کاسوال ان کی تفہیم اور حدیث کی قبولیت میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔
ایسے بہت سارے لوگ بھی جو قرآن پر عمل کی وکالت کرتے ہیں ،احادیث کے استعمال پر بحث کے درمیان ثقاہت کے سوال پر توجہ مرکوز کرتے ہیں ۔
وہ ایسا تمام احادیث کی ثقاہت کو چیلنج کرتے ہوئے کرتے ہیں، اور اس طرح، ان کی پیروی کے جواز کو بھی چیلنج کرتے ہیں ۔
حدیث کی ثقاہت کو ان کا چیلنج، بنیادی طور اس حقیقت پر مبنی ہے، سب سے پہلے نام نہاد "صحیح" یا حدیث کی "صحیح ، مستند" مجموعہ، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کی وفات کے 200 سال کے بعد تیار کیا گیا تھا ۔
مغربی، غیر مسلم ممتاز اہل علم کے کام سے حوصلہ پاکر، انہوں نے بھی اسی بنیاد پر احادیث کی ثقاہت پر سوال کھڑا کیا ہے ، وہ لوگ جو صرف قرآن کی پیروی کی وکالت کرتے ہیں ، وہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ احادیث کی پیروی نہیں کی جانی چاہئے، کیوں کہ وہ بعد کا ا ختراع ہیں ، جن کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
غیر مسلم اہل علم کے ذریعہ درپیش اصل چیلنج کے جواب میں، مسلمان علماء نے، حدیث کی ابتدائی ممکنہ تحریری ذرائع کی تلاش کے لئے بڑی جانفشانی سے کام کیا ہے، اور کچھ مواد حاصل کیا، اور اس کے زمانے کا تعین انہوں نے ، ہجرت کے بعد دوسری صدی کے وسط میں کیا ، جو نام نہاد صحیح مجموعہ لکھے جانےسے تقریباً 100 سال پہلے کا عرصہ ہے ۔
ساتھ ہی ساتھ وہ ابتدائی تاریخ، جو مسلمانوں کی پہلی نسلوں کے بارے میں احادیث لکھنے اور اس کی روایت کرنے کے بارے میں بتاتی ہے ، علماء کرام کے اندر احادیث کے متعلق ، یہ نتیجہ اخذ کرنے کے لئے ہمدردی پیدا کر دی کہ ابتدائی نسلوں کے ذریعہ تحریری احادیث کی اصل مادی مثالوں کے بغیر بھی ، اس بات کو قبول کرنا مناسب ہے کہ ، احادیث کو شروع سے ہی تحریری اور زبانی دونوں طور پر منتقل کیا گیا تھا ۔
تاریخی شواہد نے ایسے کوئی واضح ثبوت فراہم نہیں کئے ، جو احادیث کی ابتدائی روایت کو ثابت یا باطل، کر سکے ۔
لہذا، ہر فریق ان معلومات کو قبول اور ثابت کرتا ہے، جو اس کے نقطہ نظر کی بہتر حمایت کرتی ہے، اور اس کی ثقاہت پر بحث چھڑتی رہتی ہے۔
لیکن کیا ثقاہت ہی اصل سوال ہے جس کا ہمیں سامنا کرنا چاہئے ؟ کیا حدیث کے موضوع پر گفتگو میں یہ مرکزی اہمیت دئے جانےکے قابل ہے؟ اب ان سوالات کی طرف آتے ہیں جن پر اکثر ثقاہت کے سوال کے ذریعہ پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔
قرآن حدیث سے متعلق بے شمار سوالات اٹھاتا ہے۔ ان پر غور کرنے کے بعد، انشاءاللہ ، ہم اس ثقاہت کے سوالات کو اس کی مناسب جگہ میں رکھ سکتے ہیں۔
حدیث کے سلسلے میں، ان سوالات میں سے ایک یہ ہے جو قرآن اٹھاتا ہے:
" تو اس کے بعد وہ اور کس بات پر ایمان لائیں گے " (7:185)۔
" یہ خدا کی آیتیں ہیں جو ہم تم کو سچائی کے ساتھ پڑھ کر سناتے ہیں۔ تو یہ خدا اور اس کی آیتوں کے بعد کس بات پر ایمان لائیں گے؟ "( 45:6)۔
ہم ان سوالات کا معنی سمجھتے ہیں، اس کے علاوہ قرآن میں ایک دوسرا سوال بھی ہے:
" کیا میں خدا کے سوا اور منصف تلاش کروں حالانکہ اس نے تمہاری طرف واضع المطالب کتاب بھیجی ہے " (6:114)۔
اس کے علاوہ،
تمہیں کیا ہوگیا ہے کیسی تجویزیں کرتے ہو؟ کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں (یہ) پڑھتے ہو ؟ "(36 - 68:35)۔
یہ حقیقی سوالات، حدیث کے بارے میں گفتگو کے دمیان خاص توجہ کے قابل ہیں۔ اگر ہم ان سوالات کے جواب منفی (یعنی "کوئی بھی نہیں" اور " نہیں، میں نہیں کروں گا")، میں دیں ، پھر ہم دیکھیں گے کہ ثقاہت کا سوال محض ثانوی نہیں بنتا ہے - یہ متنازعہ بن جاتا ہے ۔
اگر ہم صرف خدا اور اس کی آیتوں کو قانون اور ہدایت کا ایک مصدر مانتے ہیں، اور خدا کی آیات کے علاوہ کسی حدیث میں یقین نہیں کرتے، تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حدیث مستند ہے یا نہیں، ۔ قرآن یہ نہیں کہتا کہ حدیث ثقہ ہے یا نہیں ۔
قرآن فرماتا ہے کہ "خدا اور اس کی آیتوں کے علاوہ ہے ۔" اگر ہمارے پاس کسی حدیث کے بارے میں اس بات کا واضح ثبوت ہو کہ اس کا تعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ، ہو سکتا ہے ہم اسے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہونٹوں سے براہ راست، اپنے کانوں سے سنیں، پھر بھی یہ اب بھی "خدا اور اس کی آیتوں کے علاوہ ہے۔" لہذا آیات ، 6:114 اور 45:6 کی روشنی میں یہ قانون اور ہدایت ایک مصدر کے طور پر ناقص ہے۔
صرف حدیث ہی نہیں ، بلکہ مستند احادیث، قانون اور ہدایت کے ایک مصدر کے طور پر ناقص ہیں، یہ گمراہی کا ایک ذریعہ ہو سکتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ، زانیوں کو رجم کرنے جیسے ، منفی مواد پر مشتمل حدیث گمراہی کا ایک ذریعہ ہے ۔
لیکن مثبت مواد پر مشتمل حدیث کے بارے میں کیا حکم ہے؟
مرکزی دھارے میں شامل مسلمان کے تمام مکاتب فکر اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ مختلف وجوہات کی بنا پر احادیث ضروری ہیں ۔
اہم وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ ، حدیث کے بغیر ہم مناسب طریقے سے قرآن نہیں سمجھ سکتے۔
لوگ کہتے ہیں کہ حدیث قرآن پر روشنی ڈالتی ہے ۔ لیکن خدا یہ فرماتا ہے کہ قرآن ایک روشنی ہے (4:174، 42:52) ۔
کیا حدیث اس قرآن پر روشنی ڈال سکتی ہے جو خود روشنی ہے ؟
کیا چاند سورج پر روشنی ڈال سکتا ہے؟ نہیں، چاند صرف سورج سے لئے گئے روشنی کی عکاسی کرتا ہے۔
اسی طرح کسی بھی حدیث میں رسول(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ذریعہ پائی جانے والی کوئی بھی روشنی قران کی روشنی کی عکاسی سے زیادہ نہیں ہے۔
چاند اسی صورت میں دکھائی دیتا ہے، جب زمین کا ہمارا کنارا سورج سے دور ہو جاتا ہے ۔ جب سورج ہمارے اوپر ہو، تو چاند دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن جب چاند ہمارے اور سورج کے درمیان ہوتا ہے تو ہم خود کو چاند اور سورج گرہن کی تاریکی میں پاتے ہیں۔
چاند اور سورج گرہن کے درمیان، چاند جو سورج کی روشنی کی عکاسی کرتا ہے، جب ہم سورج کی روشنی سے دور ہو جاتے ہیں، تو ہم سورج کی روشنی سے علیحدہ ہو جاتے ہیں۔
ایک مومن کے لئے، قرآن ایک ایسا سورج ہے جو کبھی نہیں ڈوبتا ۔ حدیث، کوئی بھی اور تمام حدیث، چاند کی طرح ہیں ۔ اگر ہم حدیث کی طرف توجہ دیتے ہیں، تو قران سے منہ پھیر لیتے ۔
اگر ہم حدیث کو اپنے اور قرآن کے درمیان آنے دیتے ہیں، تو ہم خود کو ایک روحانی گرہن کی تاریکی میں پاتے ہیں ،قرآن کی روشنی سے الگ ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر عائشہ موسی عربی اور اسلامک اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی ہیں ۔
ماخذ:
Deen Research Center
URL for English article
https://newageislam.com/islamic-ideology/hadith-question-authenticity/d/7262
URL for this article
https://newageislam.com/urdu-section/hadith-question-authenticity-/d/11348