ڈاکٹر عدیس ددریجا، نیو ایج اسلام
12 مارچ 2014
مقدمہ:
اسلامی کتب میں ہم اکثر ‘‘اسلامی تراث’’ اور ‘‘اسلامی اصالہ’’ کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ ان کتابوں میں، خاص طور پر جن کی نوعیت غیر اسلامی ہوتی ہے اکثر ان باتوں کو اجاگر کرنے اور واضح کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی ہے کہ ‘‘اسلامی تراث’’ اور ‘‘اسلامی اصالہ’’ کے تصور کا کیا معنیٰ ہے، حالانکہ اسلام میں ان کی اہمیت واضح ہے۔ ہم ان تصورات کو کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ ان کی نوعیتیں کیا ہیں؟ اس مضمون میں اس عنوان پر ایک مختصر اور جامع گفتگو کی گئی ہے۔ میری یہ تحریر میری کتاب ‘‘Constructing a Religiously Ideal "Believer" and "Woman" in Islam Palgrave, 2011’’ کے ایک حصے کی ترمیم شدہ پیش کش ہے جسے آپ اس لنک پر کلک کر کے بھی پڑھ سکتے ہیں: http://malaya.academia.edu/AdisDuderija/Papers
1. ایک تصور کی حیثیت سے اسلامی تراث کا کیا مطلب ہے؟
کلاسیکی سنی اسلامی تصور میں عام طور پر (تراث) کا مطلب تسلسل، استحکام، صداقت اور اتھارٹی ہوتا ہے۔ اس کا لغوی معنیٰ معتقدات و معمولات کو ‘‘منتقل’’ کرنا ہے۔ اس کے وسیع تر تصور میں تراث کی تعریف اس طرح کی جا سکتی ہے ‘‘ایک مرکزی دانشورانہ بنیاد کے ساتھ ایک مجموعی مذہبی و تاریخی ڈھانچہ’’، پہلے قرآن و سنت اور بعد میں فروغ پانے والے بے شمار اصولوں کا مصدر و منبع اسی کی بنیادیں ہیں جن کا تعلق فلسفہ، دینیات، اخلاقیات، فقہ، قانونی اصول، تصوف اور ساتھ ہی ساتھ بعض سماجی اور سیاسی نظریات اور تصورات سے بھی ہے۔
روایت (تراث) کا تصور یہ نظریہ پیش کرتا ہے کہ یہ بے شمار متناقض تشریحات پر مشتمل ہے، جو کہ کبھی کبھی باہم مخصوص بھی ہو سکتے ہیں اس کے علاوہ ان میں سے ہر ایک کو ایک دوسرے کے لیے لازم سمجھا جاتا ہے۔ اور یہ متناقض تشریحات کی نوعیت میں اختلافات کا نتیجہ ہیں جن کا تعلق روایت کے کتابی مصادر سے ہے۔ یہ تشریحات تاریخی، سماجی یا نصّی ہو سکتی ہیں۔ جو بات ان سب میں مشترک ہے اور جن کی وجہ سے تشریحات کی اتنی ساری شکلیں پیدا ہوتی ہیں وہ یہ حقیقت ہے کہ ‘‘ان تمام میں بعض علمی مفروضات، تعلقات اور بنیادی اقدار مشترک ہیں’’۔ جس کی وجہ سے لوگ اس کے بدلے میں خاص علمی مفروضات، لسانی معمولات اور معانی کے بارے میں بات کرنے کے ایک مشترک طریقہ میں شریک ہوتے ہوئے اپنے ذاتی تجربات کو پیش کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ تاہم یہ ضروری نہیں ہے کہ تشریح کا مجموعہ ‘‘معنی کے تعینات کے تمام اجزا سے اتفاق کرے’’۔
روایت (تراث) کی ایک مثال اس طرح پیش کی جا سکتی ہے کہ تراث اس ندی کی طرح ہے جو انپے سرچشمہ سے جاری ہوتا ہے (اسلامی روایت کے معاملے میں قرآن اور سنت) اور اس کی ندیاں، اور وہ تمام لوگ جو اس ندی سے بانی پیتے ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ اپنے سرچشمہ سے کتنے دور ہیں ان سب کو ایک روایت سمجھا جاتا ہے۔
موسیٰ نے درج ذیل انداز میں روایت (تراث) کا تصور بیان کرنے کے لیے علم حیاتیات سے ایک مناسب قیاس پیش کیا ہے:
روایت کثِير جنینی کی طرح نہیں ہے جس میں کچھ خاص آرگنزم بغیر کسی ترمیم کے اپنے ہی جیسے نسلی کرداروں کو جنم دیتے ہیں۔ بلکہ روایت کا عمل (kenogenesis) بدل تولید جیسا ہے: اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ علم حیاتیات میں کس طرح ایک ایک جرم یا ایک آرگنزم روایتی ارتقاء میں اصلاح کرنے کے لیے موجودہ ماحول سے خد و خال پیدا کرتا ہے۔
اس نظریہ کے مطابق ہر روایت کو جس میں اسلام بھی شامل ہے ایک لاحق روایت سمجھا جاتا ہے۔لہٰذا اسلامی روایت جیسا کہ اس کی وضاحت اس مضمون میں کی گئی ہے نظریات کے مسلسل تبادلوں کا نتیجہ ہے اور یہ ان مختلف تشریحات کے بےشمار پہلوؤں کو تسلیم کرتا ہے جو ان میں موجود ہیں۔ لہٰذا روایت (تراث) کے تصور کی نوعیت جامد و ساکن نہیں ہے بلکہ یہ انسانی تاریخ میں تبدیلیوں کا موضوع بنا رہا ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو مسلسل تحقیق و تفتیش، اصلاح اور ترقی کے مراحل سے گزاری گئی ہے۔
نسبی نقطۂ نظر سے تاریخی مطالعہ کے مطابق اسلامی روایت کو مخالفانہ قوتوں اور نظریات کا حامل مانا گیا ہے، اس تصویر کی طرح نہیں جو کہ کامل اور بے عیب ہے۔ خاص طور پر نظریاتی طور پر غیر محفوظ قانونی مباحث جو ثقافت کے ایک وسیع ترین فریم ورک میں پیوستہ ہیں انہیں نظریاتی طور پر مالامال سمجھا جاتا ہے جہاں اختیارات کی تقسیم پر مسلسل گفتگو کی جاتی ہے۔
2. ایک تصور کی حیثیت سے اسلامی اصالہ کا کیا مطلب ہے؟
اسلامی روایت (تراث) کے تصور کی ایک معقول تشریح کی روشنی میں ہمیں ‘‘اسلامی اصالہ’’ کا تصور کس طرح سمجھنا چاہیے؟ اسلامی روایت کی معتبریت (اصالہ) 1974 میں کویت میں اسلام قبول کرنے والے عرب مسلم مفکرین نے تراث اور معتبریت (اصالہ) کے متعلق اپنا جو حتمی منشور پیش کیا ہے اس کے چوتھے بیان میں اچھی طرح سے مذکور ہے۔ اس میں تخلیقی صلاحیتوں کی اہمیت اور ان کی قدر و قیمت پر اور انسانی روح کی نزاکت پر زور دیا گیا ہے:
معتبریت (اصالہ) تراث کے لغوی لگاؤ پر مشتمل نہیں ہے، بلکہ اسے چھوڑ کر تقلید اختیار کرنے پر اور اس کے اپنے اقدار سے منتقل ہو کر ایک نئی صورت اختیار کرنے پر مشتمل ہے جہاں اسے فروغ حاصل ہو اور جہاں اس کے اقدار کو فروغ ملے۔ اسلامی تراث کا حقیقی احیاء نو اسی وقت ممکن ہے جب اس کا ایک تخلیقی، تاریخی اور تنقیدی مطالعہ کیا جائے، اسے تخلیقیت کے ایک نئے مرحلے سے گزارا جائے، ماضی کو ماضی ہی رہنے دیا جائے تاکہ اس کا تصادم حال اور مستقبل سے نہ ہو اور جب اسے حال اور مستقبل کے تناظر میں ایک نئی شکل دی جائے۔
3. خلاصہ:
مذکورہ بالا مباحث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ‘‘تراث’’ اور ‘‘اصالہ’’ کا تعین ایک تصور کے طور پر کرنااس بات کے لیے بڑی اہمیتوں کا حامل ہے کہ ہم اسلام کے مختلف پہلوؤں اور اس کے مصادر و ماخذ قرآن و سنت کو کس طرح سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہٰذا آئندہ تحریر میں ہم ‘‘اسلامی تراث’’ اور ‘‘اسلامی اصالہ’’ کے تصور کے حوالے سے بحث کریں گے، ہمیں مذکورہ بالا مباحث کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔
عدیس ددریجا ملایا یونیورسٹی میں سینئر وزٹنگ لیکچرر ہیں، ان کی تعلیمی اور غیر تعلیمی تحریروں کو اس سائٹ پر پڑھا جا سکتا ہے: https://malaya.academia.edu/AdisDuderija اور وہ اس بلاگ پر بھی Critical-Progressive Muslim Thought: Islamic Hermeneutics, Gender and Interreligious Dialogue لکھتے ہیں۔
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-society/how-understand-concepts-‘islamic-tradition’/d/56092
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/how-understand-concepts-‘islamic-tradition’/d/66275