ڈاکٹر ابراررحمانی
10 جنوری ، 2021
اردو ادب کا سورج آخر
غروبا ہوگیا۔ دنیائے اردو زبان وادب میں کچھ تاریکی سی چھائی ہوئی ہے۔اسی تاریک
فضا میں چند سطور سپرد قلم وقرطاس کررہا ہوں۔شمس الرحمٰن فاروقی سے میرے تعلقات
خوشگوار رہے ہیں۔ میں ان کی علمیت کا ہمیشہ قائل رہا ہوں۔میری ان سے پہلی ملاقات
پٹنہ میں ہوئی جہاں وہ پوسٹ ماسٹر جنرل بہارکے طور پر اپنے فرائض انجام دے رہے
تھے۔میں اپنے مؤ قر جریدہ سہ ماہی ’پیش رو‘ کے لیے انٹرویو کرنا چاہتا تھا۔ لیکن
وہ اس پرراضی نہ ہوئے۔شایدان کی عدیم الفرصتی نے انہیں اجازت نہ دی ہو۔لیکن جب میں
نے مکررگزارش کی تو انہوں نے ایک مضمون دینے کا وعدہ کرلیا ۔ پھر انہوں نے موجودہ
ادبی صورت حال پرایک مقالچہ لکھ کر تیسرے دن ہی میرے حوالے کردیا، جو ’پیش رو‘ کے
شمارہ دو میں شائع ہوا۔ اسی مقالچہ میں انہوں نے نئی نسل کو للکارتے ہوئے کہا تھا
:
شمس الرحمن فاروقی
------
’’میں نئے لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ تمہارے تنقیدی نظریات کیا ہیں؟
اور وہ کس قسم کے ادب کے بنیاد گزار ہیںیاوہ تنقید کون سی ہوگی جو تمہارے ادب کی
تفہیم اورتعین قدر کرسکے یا تمہارے ادب کو کس قسم کی تنقید درکار ہے یعنی وہ کس
قسم کی تنقید کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر
تمہارے ادب کے لیے محمد حسن اور محمد عقیل کی تنقید کافی ہے تووہ آج کا ادب نہیں
ہے۔اگر اس کے لیے فاروقی ،نارنگ اوروارث علوی کی تنقید کافی ہے تو وہ بھی آج کا
ادب نہیں ہے۔‘‘
(’پیش رو‘ ستمبر۔ دسمبر۱۹۸۸ء)
عام طور پرلوگ فاروقی
صاحب کوبڑبولا اور گھمنڈی سمجھتے ہیں۔لیکن مذکورہ بالا اقتبا س کی روشنی میں انہوں
نے جہاں ایک طرف اپنے ہم عصر پروفیسر محمدحسن اور پروفیسر محمدعقیل جیسے ترقی
پسندوں کی تنقید کوپرانا اورفرسودہ ادب کہا ہے وہیں انہوں نے خود اپنی تنقید بشمول
نارنگ اوروارث علوی کے نقد وادب کو آئوٹ ڈیٹڈ قرار دیا ہے، لیکن افسوس آج تیس
بتیس سال ہونے کو آئے مگرہم ان کے چیلنج کا جواب نہ دے سکے۔آج بھی ہم میں سے
کوئی ایسا ادیب وناقد ابھرکر سامنے نہیں آیا جسے ہم کہہ سکیں کہ یہ ہیں ہمارے
ناقد اورادیب جنہیں ہم آپ کے مقابل رکھ سکتے ہیں اور جو معاصر ادب میں خاطر خواہ
اضافہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آج صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ہم دعوے توبہت کرتے
ہیں ۔ غالب اور میر تک کو چراغ دکھاتے نہیں شرماتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ نثری
اصناف ہوں یا کہ شعری اصناف ہم کسی شعبہ میں اپنی علمیت کا جھنڈا نہیں گاڑ سکے ہیں۔ہم
ایمانداری سے اگر اپنے کاموں کا جائزہ لیں تو ہم اپنے پیش رو ادیب وناقد کے پاسنگ
میں بھی نہیں ہیں۔خیر!جہاں تک میرا تعلق ہے میں ہمیشہ ان حضرات خاص طور پر فاروقی
صاحب کے علمی اور ادبی حیثیت کا قائل رہا ہوں۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ
میں نے ان کے سامنے سلینڈر کردیا ہو۔ میں نے فاروقی صاحب کے فن اور شخصیت پرایک
مقالہ بھی سپرد قلم کیا ہے اور ان کی کتاب پر گاہے بگاہے تجزیہ وتبصرہ بھی کیا
ہے۔لیکن ان کا ردعمل میرے تئیں کچھ سرد رہا ہے۔ جب میں نے اپنا مقالہ ’’جدیدیت اور
شمس الرحمٰن فاروقی‘‘ مکمل کرلیا تو ہمارے باس آجکل کے ایڈیٹر محبوب الرحمٰن
فاروقی نے کہا کہ شمس الرحمٰن بھیا دہلی آئے ہوئے ہیں اوراپنی بیٹی کے یہاں ٹھہرے
ہوئے ہیں تم یہ مضمون انہیں دکھالو۔حالانکہ میرا یہ مزاج نہیں ہے پھر بھی اپنے باس
کے حکم کی تعمیل میں اپنے ایک دوست کے ساتھ ان کی بیٹی کے گھر سکھدیو وہار جاکر ان
سے ملاقات کی اور اپنا مضمون ان کو ملاحظہ کے لیے پیش کیا۔انہوں نے بڑے شوق اور
جستجو سے مضمون لے کر پڑھنا شروع کیا۔ میرے اس طویل مضمون کوپانچ سات منٹوں میں
انہوں نے پڑھ کرمجھے لوٹا دیا۔ وہ شاید میرے اس مضمون سے پوری طرح مطمئن نہیں تھے۔انہوں
نے دو ایک باتوں کی طرف اشارہ بھی کیا لیکن میںبھی جس بات کو صحیح سمجھتا ہوں اسے
حرف آخر مان کر لکھ دیتا ہوں۔میرا یہ مضمون ممبئی کے ’اردو چینل‘ ستمبر۔ دسمبر۲۰۰۳ء میں اور پاکستان کے
کراچی سے نکلنے والا سہ ماہی جریدہ ’روشنائی‘ میں جولائی ۔ ستمبر ۲۰۰۳ء میں شائع ہوا اور عام
طور پر پسند کیا گیا۔میرا یہ مضمون پاکستان کے رسالے میں من وعن شائع ہوا جب کہ
ہندوستان کے اردو چینل نے مضمون کے دو ابتدائی پیرا گراف کو کاٹ کرشائع کیا۔ جس کی
وجہ سے میں اپنی بات جوقارئین تک پہنچانا چاہتا تھا اچھی طرح سے نہیں پہنچا سکا۔ میں
نے لکھا تھا کہ آج ہم مابعد جدیدیت کے عہد میں سانس لے رہے ہیں۔ جدیدیت کے
علمبردار شمس الرحمٰن فاروقی بھی اس کا اعتراف کرچکے ہیں کہ جدیدیت کا دور ختم
ہوچکا ہے ۔خود فاروقی صاحب اب کلاسیکیت اور روایت کی آغوش میں پناہ گزیں ہیں۔ اب
یہ بہت مناسب وقت ہے کہ ہم جدیدیت اور شمس الرحمٰن فاروقی کا غیر جانبدارانہ
مطالعہ اور تجزیہ کرسکیں۔
اردو ادب میں جب ترقی
پسند تحریک کے تحت سماجی عوامل تاریخی حسیت، افادیت، مقصدیت، کمٹمنٹ اور اس طرح کے
دوسرے ترقی پسند خیال کا شوروغلغلہ اپنی انتہا کو پہنچ گیا تو اسے اشتہار بازی کے
نام سے نوازا گیا اور اس کا شدید ردعمل جدیدیت کی شکل میں منتج ہوا۔
پارکھی نظریںان دو
پیراگراف کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ سکتی ہیں لیکن اس بیماری کا کیا علاج کہ اپنے
ممدوح کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے والے اتنی سی بھی تنقید برداشت
نہیں کرسکتے جب کہ فاروقی صاحب ان باتوں کی بہت زیادہ پروا نہیں کرتے اورہمیشہ
آگے ہی آگے کی طرف دیکھتے رہے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کئی وقیع کام جسے ہم
کارنامہ سے موسوم کرتے ہیں انجام دیے۔ شعرشور انگیز اردو غزل کے اہم موڑ، اردو کا
ابتدائی زمانہ ، کئی چاند تھے سرآسما ںوغیرہ اہم ہیں۔اردو غز ل کے اہم موڑ شمس
الرحمٰن فاروقی کی ایک اہم تصنیف ہے۔کلاسیکی ادب پر گہری نظررکھنے والے جدیدیت کے
علمبردار شمس الرحمٰن فاروقی نے اس کتاب میں واضح کردیا کہ معنی آفرینی اور مضمون
آفرینی ہماری شعریات کے بنیادی تصورات ہیں۔ مضمون آفرینی کا سراغ تو قدیم عربی
اور ایرانی شعریات میں ہے لیکن معنی آفرینی اور اس کے پیچھے جو نظریۂ شعر ہے
دونوں ہی کم وبیش پورے طور پر ہندوستانی ہیں۔ ہمارے تصور معنی آفرینی کی ابتدا،۱۷؍ویں
صدی کے ہند فارسی شعراور اردو شعرا کے یہاں نظر آتی ہے۔۱۰؍ویں
صدی کے وسط تک معنی آفرینی کا تصوراردوشاعری میں پوری طرح قائم ہوچکا تھا۔ افسوس
کہ یہی زمانہ ہمارے تہذیبی زوال اورانگریزی تہذیب کے آگے ہمارے علمی شکست کا بھی
ہے، لہٰذا معنی آفرینی اور اس طرح کی دوسری اصطلاحوں کے پیچھے جو شعریات ہے اسے
بہت جلد بھلا دیاگیا اورآج کی اصطلاحوں کے معنی متعین کرنا بھی ہم میں سے اکثر کے
لیے دشوار ہوگیا ہے۔ شعرشور انگیز کا توخیر جواب نہیں ایک بے مثل کارنامہ ہے۔وہیں
ان کی تصانیف جسے انہوں نے ناول سے موسم کیا تھا کئی چاند تھے سرِ آسما ں کو اس
کی تمام ترخوبیوں کے باوجود میں اسے مکمل طور پر اب تک نہیں پڑھ سکا ہوں۔کبھی ہمت
کرکے اٹھاتا ہوں اور پھرچھوڑ دیتا ہوں۔ جب کہ میں کوئی ناول اگر ایک دفعہ شروع
کرتا ہوں تو ختم کیے بغیر نہیں رہتا۔ بشرطیکہ اس ناول میں خود کو پڑھوانے کی
صلاحیت ہو۔یہ نقص صرف فاروقی صاحب کے یہاں نہیں بلکہ قرۃ العین حیدر وغیرہ کے یہاں
بھی پایا جاتا ہے۔میرے باس محبوب الرحمٰن فاروقی کا جب انتقال ہوا تو جنازے کے بعد
ہم نے شمس الرحمٰن فاروقی صاحب سے درخواست کی کہ وہ محبوب صاحب پراپنے تعزیتی
تاثرات آجکل کے لیے لکھ دیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ یہ کام مجھ سے نہیں ہوسکے
گا۔ لیکن پھرانہوں نے ایک ہفتہ کے اندر ہی اپنا ایک مضمونچہ لکھ کر ہمیں بھیج دیا
جسے انہوں نے انتہائی محبت سے لکھا تھا اور ہم نے اسی عقیدت سے ’آجکل‘ میں شائع
کردیا۔
ایک دلچسپ بات اور ملاحظہ
کریں۔فاروقی صاحب ترقی پسندوں کوتقرری پسند کہا کرتے تھے اور اگرترقی پسند کہتے
بھی تھے تو اس سے ان کی مراد پروموشن کے خواہاں ہوتی تھی۔جواب میں ترقی پسند حضرات
خاص طورپرپروفیسر محمد حسن انہیں ڈاکیہ / پوسٹ مین کہا کرتے تھے۔وہ کہتے تھے کہ
اردو ادب میں ڈاکیے کا کیا کام؟ایک اور واقعہ بیان کرتا چلوں ۔۲۰۱۳ءمیں الٰہ آباد کے
حمیدیہ گرلس کالج میں۱۸۵۷ءکے
موضوع پرتین روزہ سمینار منعقد کیا گیا جس میں۱۸۵۷ءکے حوالے سے مقالات پڑھے
گئے۔اسی سمینار کے آخری سیشن۲۲؍دسمبر
کو۱۸۵۷ءکے
پس منظر میں اکبر الٰہ آبادی پر شمس الرحمٰن فاروقی کا توسیعی خطبے کا اہتمام کیا
گیا تھا جس کی صدارت خاکسار کے ذمہ تھی۔یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی ۔ میں
تھوڑا گھبرایا ہوا ساتھا کہ میں کبھی ان کا منظور نظر نہیں رہا۔ میری اہلیہ راحت
جبیں جو میر ے ساتھ اس سمینار میں شریک تھیں وہ مجھ سے زیادہ پریشان تھیں کہ پتہ
نہیں فاروقی صاحب کس طرح مجھ سے پیش آئیں لیکن اب جب کہ صدارت کی ذمہ داری قبول
کرہی لی تھی تو اسے نبھانا بھی تھا۔یعنی اوکھلی میں جب سر ڈال دیا تھا تو پھر موسل
سے کیا ڈرنا۔سمینار ہال میں میں پہلے سے ہی اپنی اہلیہ کے ساتھ بیٹھا تھا۔پروگرام
کے مطابق اپنے وقت پر شمس الرحمٰن فاروقی صاحب تشریف لائے۔ میں نے انہیں دیکھتے ہی
آگے بڑھ کر سلام کیا اور انتہائی فرماں برداری سے سرجھکا دیا۔انہوں نے سلام کا
جواب دیتے ہوئے میرے سرپر ہاتھ پھیر کردعائیں دیں۔ پھر انہوں نے خیریت دریافت کرتے
ہوئے پوچھا ۔ میاں یہ کیا حال بنا رکھا ہے۔یہ سارے بال سفید کیوں کررکھے ہیں۔ میں
نے دس پندرہ سالوں سے جھیل رہے اپنے مرض پارکنسن کے بارے میں بتایا ۔ یہ سن
کرانہوں نے افسوس کا اظہار کیا اور ہم نے راحت کی سانس لی۔اللہ نے لاج رکھ لی۔
فاروقی صاحب کا خطبہ شروع
ہوا۔ خدا خدا کرکے تقریباً ایک گھنٹہ میں ان کا پرمغزتوسیعی خطبہ ختم ہوا۔ ا ب
میری باری تھی صدارتی کلمات کہنے کی۔ میں نے اس پورے خطبے کو غور سے سنا تھا۔ چنانچہ میں نے کہا کہ فاروقی صاحب کا خطبہ
انتہائی پرمغز اور دلچسپ تھا، مگراس خطبے میں اکبر الٰہ آبادی پرصرف ان کی ادبی
حیثیت پر گفتگو کی گئی تھی۔ میں نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خطبے میں
اکبر الٰہ آبادی کو۱۸۵۷ءکی
جنگ آزادی کے پس منظر میں دیکھا جانا چاہئے تھا۔ فاروقی صاحب نے چھوٹتے ہی کہا کہ
میاں کیا ادیب وشاعر کو بھی ہاتھ میں تلوار تھمادینا چاہئے۔ میں نے عرض کیا کہ
نہیں۔ ان حضرات نے اپنے قلم کو ہی تلوار بنارکھاتھا۔ایک آخری بات میں نے یہ کہی
کہ الٰہ آباد کسی زمانے میں الٰہ آبادی امرود ، گنگا جمنا سنگم اور اکبرالٰہ
آبادی سے پہچانا جاتا تھا۔ آج بھی الٰہ آباد تین چیزوں سے پہچانا جاتا ہے۔
امرود اپنی جگہ ، گنگا جمنا کا سنگم اپنی جگہ بس اکبرالٰہ آبادی کی جگہ اب شمس
الرحمٰن فاروقی صاحب نے لے لی ہے۔یعنی اب یہ شمس الرحمٰن فاروقی صاحب سے پہچانا
جاتا ہے۔ یہ سن کر وہ جذباتی ہوگئے اور کہا کہ میاں تم نے یہ کیا کہہ دیا۔
10 جنوری ، 2021،بشکریہ:انقلاب،
نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/shams-ur-rehman-farooqi-writer/d/124057
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism