ڈاکٹر عبدالقدیر خان
19 مئی ، 2016
جب سے سائنس (علم، معلومات، تحقیق) نے جنم لیا ہے اسی وقت سے سائنسدانوں اور دانشوروں نے اللہ تعالیٰ کے وجود اور دنیا کی تخلیق سے متعلق گرما گرم بحث شروع کردی ۔ لا تعداد لوگوں نے دنیا کی تخلیق کو دیکھ کر اللہ کے وجود کو تسلیم کیا مگر کچھ مغربی نام نہاد دانشوروں نے اور کمیونسٹوں نے نعوذ با اللہ ، اللہ کے وجود کا ر سے ہی انکار کردیا۔ پھر بھی لاتعدادمغربی مفکروں، دانشوروں اور نو مسلم دانشوروں نےاللہ کے وجود کو تسلیم کیا اور اس کی حمایت میں نہایت دقیق دلائل دیئے ۔ ایسے مغربی مفکروں اور نو مسلم دانشوروں کی اتنی زیادہ تعداد ہےکہ ان کےنام اور ان کے دیئے گئے دلائل بیان کرنے کےلئے ایک ضخیم کتاب کی ضرورت پڑے گی۔
جس مسلمانوں (اور غیرمسلموں ) نے ترجمہ کے ساتھ کلام مجید کامطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ پورے کلام مجید میں اللہ رب العزت نے کس قدر صاف صاف الفاظ میں اور کتنے آسان طریقے سے کتنی مثالیں دے دے کر زمین و آسمان کی تخلیق ، انسانوں اور جانوروں کی تخلیق ، سورج، چاند اور دوسرے سیاروں کی گردش اور اپنے محور پر مستقل قیام، ستاروں کی پیدائش اور خاتمہ ،انسان کی تخلیق جس کے بارے میں پہلے کسی کو بھی رتی برابر اندازہ نہ تھا، کےمتعلق بیان کیا ہے ۔ اور جو تفصیلات کلام مجید میں موجود ہیں انہیں اب حساس آلات کی مدد سے ڈاکٹروں نے دیکھ کر مکمل تصدیق کی ہے۔اسی طرح پیغمبروں ، حکمرانوں کے واقعات او ران کی تفصیل سمجھدار لوگوں کےلئے مشعل راہ ہیں۔کلام مجید میں اللہ رب العزت کھول کھول کر مثالیں دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ دیکھو ہم تمہیں کس طرح باتیں موشگافیاں) کھول کھول کر بیان کرتے ہیں کہ تم سمجھ سکو ۔ اور سب سے اہم باتیں سورہ رحمن میں بیان کی ہیں اور ان کو بیان کر کر کے ہر بار پوچھا کہ تم کن کن نعمتوں سے انکار کروگے۔
مغربی مفکرین میں سے جنہوں نے بھی ترجمہ ، تشریح او رتفسیر کےساتھ کلام مجید کامطالعہ کیا وہ مسلمان ہوگئے ۔ اس وقت دماغ میں مشہور نومسلم ڈاکٹر مورس نکائی (Bucaille Dr. Maurice) اور (Weiss Lepold) کے نام آگے ہیں ۔ دونوں کو اللہ تعالیٰ نے روشنی ،عقل و فہم عطا فرمائی تھی اور دونوں اسلام قبول کر کے اسلام کی انمول خدمات رب العزت نے چند خوش قسمت لوگوں کےدل و دماغ کھول دیئے تو دوسری جانب کئی نام نہاد مسلمانوں کے دل و دماغ پرمہر وتالے لگادیئے کہ وہ د ہریے بن گئے۔
آپ کی خدمت میں صرف چند مغربی مفکرین کے بیانات پیش کررہا ہوں۔
(1) قرآن او رسائنس میں مکمل ہم آہنگی ہے او ر تعجب کی بات نہیں کیونکہ خاص طور پر ان میں یکسانیت ہے، تفرقہ نہیں (Maurice Dr. Bucaille) ۔ (2) سائنس کے بغیر مذہب نا مکمل ہے او رمذہب سائنس کے بغیر اندھا ہے ( Albert Einstein) ۔(3) سائنس اور مذہب کے درمیان کبھی اختلاف نہیں ہوسکتا ( George Sine) ۔ (4) سائنس او رمذہب ( ایمان) ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں نفی نہیں (Arthur Thomas) ان کے علاوہ ترکی کے ہارون یحییٰ ( اصلی نام عدنان اوکتر (Adnan Oktar) نے بھی چند کتب اسلام پر لکھی ہیں جن میں معجزات الہٰی ( اور وجود الہٰی کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ان کی لاتعداد ڈاکو مینٹریز بھی ہیں جو مغربی عوام کے لئے خاصی مفید ثابت ہوئی ہیں۔
دیکھئے دراصل میں بیسویں صدی کے سب سے بڑے سائنسداں ، جرمنی نژاد بعد میں امریکن شہری، پروفیسر ڈاکٹر البرٹ آئن اسٹائن ( Albert Einstein) کے وجود رب العزت پر لکھے بیان کو آپ کی خدمت میں پیش کرناچاہتا ہوں ۔ یہ اقتباس میں نے ان کی تحریر کردہ کتاب ‘‘ The it see as world) سے مستعار لیا ہے۔
‘‘ سب سے بہترین احساس جس پر ہمیں اختیار ہے وہ روحانی یا تصوفانہ جذبات ہیں ۔ اس کے اندر ہی تمام فن کاری اور صحیح سائنس کے جز ہوتے ہیں۔ ہر وہ شخص جس کے لئے یہ احساس عجوبہ ہے اور جو ( قدرت کے) معجزات سےمتاثر نہیں ہوتا او رہمیشہ خوفزدہ رہتا ہے وہ ایک مردہ شخصیت ہے۔ وہ احساس جو آپ کے اندر گھس جائے ، پیدا ہو جائے،جاگ جائے حقیقتاً ہمارے اندر ہی موجود ہوتا ہے اور اعلیٰ عقل و فہم اور روشن خوبصورتی کے طور پر ظاہر ہوتی ہے اور صرف اس کی بڑی بڑی علامات ہمارے عقل و فہم سمجھ پاتی ہے یہی مذہبی احساس کی اصل روح ہے۔ صرف اس اور صرف نظریئے کے تحت میں اپنے آپ کو ایک مذہبی آدمی سمجھتاہوں۔ میرا مذہب ایک انکسار انہ پسندیدگی پر مبنی ہے۔اس لا محدود و اعلیٰ ہستی (خدا) کی جو خود نہایت چھوٹی سے چھوٹی چیز میں اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے جس کو ہم نے اپنی محدود عقل و فہم سےسمجھ سکتے ہیں ۔ ہر وہ شخص جو سنجیدگی سےسائنس پڑھنے میں مشغول ہوتا ہے جلد ہی اس کو یقین ہوجاتا ہے کہ ایک روح ، ایک بڑی ہستی دنیا کے قوانین کے پیچھے ہے۔ ایک ہستی جو انسان سےبہت اعلیٰ ہے ۔ ایک سائنسٹسٹ کے مذہبی جذبات ایک ولولہ انگیز شکل اختیار کرلیتےہیں کہ قدرت کے قوانین کس قدر ہم آہنگ اور اعلیٰ ہیں اور یہ نظام اس قدر اعلیٰ ہے کہ اس کے مقابلے میں انسان کی عقل و فہم او رسمجھ بوجھ نہایت حقیر ہے۔
کوئی بھی منطقی طریقہ قدرت کے معمولی سےمعمولی قوانین کوسمجھنے کےلئے کافی ہے۔ ہم صرف ایک کشف و وجدان کے ذریعے ان کو سمجھ پاتے ہیں او ریہ کیفیت ہم باہری یا ظاہری منظم چیز (شکل) کو دیکھ کر اس کے پیچھے جو پیچیدہ منظم نظام ہے اس کی مدد سے کچھ سمجھ پاتے ہیں۔ یہ وجدانی کیفیت (خدا کی جانب سے) ایک قیمتی تحفہ ہے اور منطقی دماغ ا س کا تابعدار ہے۔ ہم نے ایک ایسی سوسائٹی بنا لی ہے کہ وہ تابعدار کی تو بہت عزت کرتی ہے او ر جو تحفہ (خدا کی جانب سے ) ملا ہے اس کو نظر انداز کردیتی ہے۔ انسان ہکاّ بکاّ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا جب وہ لا انتہا ، دائم و قائم، زندگی، انتہائی اعلیٰ نظام حیات دیکھتا ہے ۔ اگر انسان اس وسیع حیران کن نظام کا چھوٹا سا حصہ روز سمجھنے کی کوشش کرے۔ کبھی اپنی یہ پاکیزہ جستجو بالائے طاق نہ رکھے۔ میں جو قدرت کانظام دیکھتا ہوں تو ایک نہایت شاندار اعلیٰ نظام نظر آتا ہے۔ ہم بہت ہی کم، نا مکمل طور پر سمجھ سکتےہیں او ریہ احساس ایک سمجھدار انسان کو اپنی کمتری کا احساس دلاتا ہے اور حقیقتاً یہی مذہبی احساس ہے۔’’
آئن اسٹائن کا یہ بیان ان سائنسدانوں کے نظریات کی نفی ہے کہ سائنس پڑھ کر انسان خدا کے وجود سے دور ہوجاتا ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جوں جوں انسان قدرت کی اعلیٰ موشگافیاں سمجھنے لگتا ہے وہ حیران رہ جاتاہے کہ یہ نظام ، یہ پیچیدگیاں ، صرف ایک اعلیٰ قوت، انسان سےبرتر قوت ہی کا کام ہے اور انسان خدا کے وجود کا قائل ہوجاتاہے۔
ہم مسلمانوں کےلئے قرآن ایک مشعل راہ ہے ۔ ہمارے تمام سابقہ نامور سائنسدان ایمان کے پختہ پیروکار تھے اور وہ قرآن کے ہر لفظ کو اللہ تعالیٰ کا فرمان سمجھتے تھے او رسمجھنا چاہئے بھی تھا۔ اس کی مدد سے انہیں پورا یقین تھا کہ تمام نظام حیات او رنظام کائنات کا خالق اللہ رب العزت ہےکیونکہ کلام مجید میں اللہ تعالیٰ نے نظام حیات او رنظام کائنات کی اتنی تفصیلی او راعلیٰ تشریح کی ہے کہ ہمارے مسلمان سائنسدان اس کی مدد سے لا تعداد گتھیاں سلجھا نے میں کامیاب ہوگئے تھے ۔ موجودہ دور میں بھی لاتعداد اعلیٰ سائنسدان اللہ تعالیٰ کے وجود او راس کے تخلیق کردہ نظام کو دل و دماغ سےقبول کرتےہیں ۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ اب ہمارا نوجوان طبقہ قرآنی تعلیمات سے نا بلد ہوگیا ہے۔ والدین بچوں کو کلام مجید کی تعلیم تو کیا ترجمہ تک نہیں پڑھاتے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے مغربی فلسفہ او ران کی تعلیم وایجادات کو ہی حرف آخر سمجھنے لگتے ہیں اور احساس کمتری کا بری طرح شکار ہوجاتےہیں ۔
19 مئی، 2016 بشکریہ : روز نامہ جدید خبر ، نئی دہلی
URL: