نیو ایج اسلام
اسٹاف رائٹر
18 دسمبر 2023
امریکا نے
آئندہ انتخابات میں جماعت اسلامی کی حمایت کا اعلان کیا ہے
اہم نکات:
1. امریکہ جنوبی ایشیا میں
استحکام نہیں چاہتا۔
2. اپنے مفادات کے لیے انتہا
پسند تنظیموں کی پشت پناہی کرنے کی امریکہ کی ایک تاریخ رہی ہے۔
3. عوامی لیگ کے دور حکومت
میں بنگلہ دیش دہشت گردی کا مرکز بنا ہوا تھا۔
4. جماعت اسلامی جمہوریت اور
سیکولرازم پر یقین نہیں رکھتی۔
5. شیخ حسینہ نے بنگلہ دیش سے دہشت گردوں کا صفایا
کیا۔
------
Shahriar
Kabir. The Telegraph.
------
شہریار کبیر کے زیر نظر انٹرویو
سے بنگلہ دیش کی موجودہ سیاسی صورتحال کی عکاس ہوتی ہے۔ بنگلہ دیش کے اندر جنوری
2024 میں انتخابات ہونے والے ہیں اور شیخ حسینہ کی عوامی لیگ مسلسل چوتھی مرتبہ جیت
حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ حسینہ نے ملک بنگلہ دیش کی ایک کامیاب قیادت کی اور ملک
کو عسکریت پسندی اور دہشت گردی کی پناہ گاہ سے تبدیل کر کے وہاں جمہوریت اور سیکولر
قدروں کو بحال کیا اور اسے ترقی پذیر معیشت والے ممالک کی صف میں لاکر کھڑا کیا۔ انہیں
نہ صرف سیکولر اور جمہوری ذہن رکھنے والے مسلمانوں بلکہ اقلیتوں کی بھی زبردست حمایت
حاصل ہے کیونکہ ان کے دور میں اقلیتیں جماعت اسلامی کی حمایت یافتہ عوامی لیگ کے دور
حکومت سے زیادہ محفوظ تھیں۔
شہریار کبیر کمیونسٹوں کی جماعت
سے قربت پر حیرت زدہ ہیں کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جماعت کمیونزم کو بطور ایک
سیاسی نظریے کے اور اس کے نظریات و معتقدات کو تسلیم نہیں کرتی۔ اس سے بہت لوگوں کو
حیرت ہو سکتی ہے لیکن ان لوگوں کو نہیں جو 1940 کی دہائی سے واقف ہیں جب تحریک آزادی
اپنے عروج پر تھی، اور اس دور میں ان کے تعلقات کیسے تھی یہ جانتے ہیں۔ اس دور میں
جماعت اور کمیونسٹ پارٹی مشترکہ طور پر انگریزوں کے خلاف جلسے منعقد کرتی تھی۔ اس وقت
یہ مانا گیا کہ یہ دونوں ایک مشترکہ مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں لہٰذا اس پر کسی کو کوئی
حیرت نہیں ہوئی۔ لیکن ان کے یہ دوستانہ تعلقات آزادی کے بعد بھی نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ
ہندوستان میں بھی بدستور جاری ہے۔ ہندوستان میں جماعت اسلامی کے کمیونسٹوں کے ساتھ
بڑے اچھے اور گہرے روابط ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ شیخ حسینہ حکومت کی بے پناہ
مقبولیت اور عوامی لیگ کی عوام پر مضبوط گرفت انہیں کام کرنے اور اپنے پاؤ پسارنے کا
موقع نہیں دیتی۔ لہٰذا ان دونوں تنظیموں کو لگتا ہے کہ عوامی لیگ کی حکومت میں انہیں
صدیوں پرانے تعلقات کی وجہ سے بہتر امکانات اور زیادہ مواقع میسر ہو سکتے ہیں۔
جہاں تک امریکہ کی بات ہے جو جماعت
اسلامی کو اعتدال پسند اسلامی تنظیم قرار دے رہا ہے، تو واضح ہے کہ امریکہ اپنی سہولت
کے مطابق دنیا میں طمغے بانٹا پھرتا ہے۔ امریکہ کو اخلاقیات یا انسانی حقوق سے کوئی
سروکار نہیں ہے، بلکہ یہ قدریں امریکہ کے لیے صرف ایک سیاسی ہتھیار ہیں۔ یاد رکھیں
کہ جب طالبان کی حمایت کرنے میں امریکہ کا سیاسی مفاد تھا تو اس نے گڈ طالبان، بیڈ
طالبان کی تھیوری دنیا کے سامنے پیش کی۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ نے چند وجوہات کی بنا
پر بنگلہ دیش کی سیاست پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ سب سے پہلی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے
کہ چونکہ شیخ حسینہ کی حکومت نے بنگلہ دیش سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا اور اپنے ملک
کو معاشی ترقی کی راہ پر ڈالا۔ جو ملک ترقی کرتا ہے وہ عالمی طاقتوں پر اپنا انحصار
کم کرتا ہے اور امریکہ کے آگے سر نگوں نہیں ہوتا۔ دوم، شیخ حسینہ حکومت ایک آزاد خارجہ
پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ایک طرف انہوں نے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات بنائے رکھے ہیں
تو دوسری طرف اپنے ساتھ اقتصادی تعلقات قائم کرنے کے لیے وہ چین تک پہنچ گئی ہیں۔ اور
شیخ حسینہ کی یہی خوبی امریکہ کی آنکھوں میں چبھنے لگی ہے۔ لہذا، بی این پی-جماعت کی
اتحاد والی حکومت اس کے مفادات کو بہتر طریقے سے پورا کرے گی۔
تاہم حسینہ حکومت کی جانب سے انتخابات
میں ای وی ایم کے استعمال سے انتخابات کی شفافیت پر شکوک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں۔ شیخ
حسینہ کی پارٹی نے گزشتہ انتخابات میں بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس سے ای وی
ایم کے استعمال پر شکوک پیدا ہونے لگے تھے۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ کافی پریشان
کن بات ہے کہ جنوبی ایشیا کی حکومتیں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال پر اصرار کرتی
ہیں۔ شیخ حسینہ کو اگر واقعی یقین ہے کہ عوام ان کے ساتھ ہے تو حکومت کو انتخابات میں
بیلٹ پیپر کے استعمال کے مطالبے کو تسلیم کر لینا چاہیے۔
------
India would hate
to see Bangladesh Nationalist Party-Jamaat wrest power: Shahriar Kabir
بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی-جماعت
کا حکومت میں دیکھنا بھارت کو ناگوار گزرے گا: شہریار کبیر
از سبھورنجن داس گپتا
17 دسمبر 23
آئندہ سال کے اوائل میں پارلیمانی
انتخابات ہونے والے ہیں اور بنگلہ دیش میں ایک سیاسی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ اس میں مرکزی
کردار برسراقتدار عوامی لیگ، بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)، جماعت اسلامی اور
امریکہ کا ہے۔ موجودہ شیخ حسینہ کی زیرقیادت حکومت کے خلاف مظاہرے اور ریلیاں جو مسلسل
چوتھی بار اقتدار میں آنے کی کوشش میں لگی ہے، اپوزیشن لیڈروں اور ان کے حامیوں کی
گرفتاریاں، اور اس کے نتیجے میں ہونے والے تشدد کی باتیں خبروں میں چھائی ہوئی ہیں۔
ستمبر میں امریکی محکمہ خارجہ نے "بنگلہ دیش میں جمہوری انتخابی عمل کو نقصان
پہنچانے کے ذمہ دار، یا اس میں ملوث، بنگلہ دیشی افراد" پر ویزا پابندیاں عائد
کرنے کا اعلان کیا اور نومبر میں، بنگلہ دیش کے لیے امریکی سفیر پیٹر ہاس کی"مختصر
چھٹی" کے نام پر اچانک روانگی نے ایک ہلچل مچا دی ہے۔ اس سیاسی پس منظر میں، سبھورنجن
داس گپتا نے بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن شہریار کبیر کے ساتھ
بات چیت کی۔ اقتباسات پیش خدمات ہیں۔
س: بی این پی اپنی مزاحمت کو برقرار
رکھے ہوئے ہے، کبھی کبھی پرتشدد ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ بنگلہ دیش کے لوگوں نے
ان کی حرکتوں پر کس حد تک ردعمل ظاہر کیا ہے؟
پہلے مرحلے میں بی این پی کی طرف
سے شروع کی گئی مزاحمت کم و بیش پرامن رہی۔ لوگوں نے بھی ایک حد تک رد عمل کا اظہار
کیا...
لیکن 28 اکتوبر سے، بی این پی-جماعت
کی حکومت مخالف تحریک پرتشدد ہو گئی - ایک کانسٹیبل کا قتل ہوا، صحافیوں کو شدید تشدد
کا شانہ بنایا گیا، چیف جسٹس کی رہائش گاہ پر حملہ کیا گیا، کئی بسوں اور دیگر گاڑیوں
کو آگ لگا دی گئی اور بسوں کے دو ملازموں کو جلا کر ہلاک کر دیا گیا۔ اور سب سے تشویش
ناک بات یہ ہے کہ ریل اور سڑک کے ہڑتالوں سے کاروبار، یومیہ اجرت کمانے والے اور خاص
طور پر قصبوں اور شہروں کو سبزیاں سپلائی کرنے والے کسانوں پر منفی اثر پڑا ہے۔ مجھے
خدشہ ہے کہ انتخابات تک ریلیاں، ناکہ بندی اور ہڑتالیں جاری رہیں گی۔ تاہم عوام اس
مسلسل بدامنی سے تھک چکے ہیں اور بیزار بھی ہیں اور کوئی جواب نہیں دے رہے۔ یعنی یوں
سمجھیں کہ بی این پی کی حکومت مخالف تحریک کی حمایت مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔
س: کیا برسراقتدار عوامی لیگ اس
دباؤ سے متاثر ہوگی؟
برسراقتدار پارٹی نے واضح طور پر
کہا ہے کہ انتخابات کرانے کے لیے کسی بھی صورت میں نگران حکومت قائم نہیں کی جائے گی۔
اس سے قبل حکمران جماعت نے بی این پی کو مذاکرات اور مشاورت کی دعوت دی تھی لیکن اس
اپیل کو نظر انداز کر دیا گیا۔ تاہم، بی این پی کے کچھ لوگ اپنے طور پر الیکشن لڑنے
کے لیے بی این پی سے باہر نکل آئے ہیں۔
س: بی این پی کے انتخابی اتحادی
جماعت اسلامی کی تازہ ترین سیاسی پوزیشن کیا ہے جسے امریکہ نے ’’اعتدال پسند اسلامی
جماعت‘‘ کا نام دیا ہے؟
اول، جماعت، جسے آئی ایس آئی فنڈ
کرتا ہے، بی این پی کا استعمال کر رہی ہے۔ دوم، ہائی کورٹ نے جماعت پر الیکشن لڑنے
پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ تاہم، جماعت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے لیکن فیصلہ
آنا ابھی باقی ہے۔ آپ دیکھیں کہ جماعت کی سیاست، حتیٰ کہ اس کا آئین بھی، ملک کے سیکولر
اور جمہوری آئین کے بالکل خلاف ہے۔ وہ اپنی رہنمائی قرآن سے حاصل کرتے ہیں، جو یقیناً
ایک مقدس مذہبی کتاب کی حیثیت سے قابل قبول ہے، لیکن اسے بنیاد بنا کر جدید طرز حکمرانی
کا نظام قائم نہیں کیا جا سکتا۔ مزید یہ کہ اس کا نظریہ مکمل طور پر خواتین مخالف اور
اقلیت مخالف ہے۔ یہ بالکل بھی "اعتدال پسند اسلامی جماعت" نہیں ہے جیسا کہ
امریکی انتظامیہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ ایک پاگل بنیاد پرست جماعت ہے جس
کا ماضی مذموم اور قابل مذمت رہا ہے۔ اس نے 1971 میں یحییٰ خان کی قاتل فوج کے ساتھ
تعاون کیا اور بنگالیوں کی نسل کشی میں حصہ لیا۔ اب بھی اس کے ہاتھ آئی ایس آئی کے
ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ یہ پہلے کی طرح بالواسطہ طور پر یا ڈھکے چھپے انداز میں الیکشن
لڑیں گے، یعنی وہ اپنے نامزد "آزاد" امیدواروں کی حمایت کریں گے۔
س: بی این پی کی غیر موجودگی میں
مرکزی اپوزیشن کے طور پر کام کرنے والی جاتیہ پارٹی اور بنگلہ دیش کمیونسٹ پارٹی اور
بنگلہ دیش کی ورکرز پارٹی جیسی بائیں بازو کی جماعتوں کی سیاسی پوزیشن کے بارے میں
آپ کی کیا رائے ہے؟
جاتیہ پارٹی کو اپنی اندرونی
کشمکش خود ہی ختم کرنی ہوگی۔ بہرحال وہ زیادہ تر حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کر رہے
ہیں۔ لیفٹ پارٹیاں، جو ماضی میں عوامی لیگ کی قیادت والے اتحاد میں شریک رہی ہیں، ایسا
لگتا ہے کہ اب انہوں نے اپنا پلہ بدل لیا ہے۔ یہ اب بی این پی کے قریب ہے۔ یہ میری
سمجھ سے باہر ہے۔ بائیں بازو کی "سیکولر" پارٹی جماعت کے ساتھ مل کر کیسے
کام کر سکتی ہے؟ درحقیقت، بائیں بازو کے کچھ سیاست دان بی این پی اور دیگر اسلامی جماعتوں
کے زیر اہتمام ریلیوں اور جلسوں میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ جب صحافی ان سے وجہ پوچھتے
ہیں، تو وہ کوئی تشفی بخش جواب نہیں دیتے۔
س: امریکہ بنگلہ دیش میں اتنی زیادہ
دلچسپی کیوں لے رہا ہے؟
بنگلہ دیش سے متعلق امریکی انتظامیہ
کی پالیسی اور ان کے رویہ میں شروع سے ہی خامیاں رہی ہیں۔ اس نے جنگ آزادی کے دوران
پاکستان کی قاتل فوجی حکومت کی حمایت کی۔ اس دور میں ڈھاکہ کے امریکی قونصل جنرل، آرچر
بلڈ نے بار بار اپنی رپورٹوں میں اس غلطی کو اجاگر کیا ہے جس کا ارتکاب محکمہ خارجہ
کر رہا تھا۔ لیکن اسے نہ صرف نظر انداز کیا گیا بلکہ ہنری کسنجر اور اس کے ساتھیوں
نے اسے گھیرنے کی بھی کوشش کی۔ ہم نے اپنی طرف سے امریکی ارکانِ کانگریس کو یہ بتانے
کی ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اُن کے محکمہ خارجہ کی "اعتدال پسند" جماعت درحقیقت
طالبان کا بنگلہ دیشی روپ ہے۔ امریکی حکومت کو سعودی عرب جیسے شاہی نظام سے نمٹنے میں
کوئی مسئلہ نہیں ہے، جو سزا کے طور پر اعضاء کو کاٹ دیتا ہے۔ اس نے ایک معتمد اتحادی
کے طور پر 1947 سے پاکستان کی فوجی حکومت کی حمایت کی تھی۔ وہ ایک معتمد اتحادی کے
طور پر 1947 سے پاکستان کی فوجی حکومت کی حمایت کرتی رہی ہے۔ امریکہ نے 1973 میں جنرل
پنوشے کی قیادت میں چلی پر خونی فوجی قبضہ انجام دیا - بائیں بازو کے ڈیموکریٹ سلواڈور
ایلینڈے لڑتے لڑتے مر گئے۔ اس نے بڑے آرام اور لاپرواہی کے ساتھ افغانستان سے راہ فرار
اختیارکیا... صرف یہی نہیں بلکہ امریکہ نے عراق پر اس جھوٹے دعوے کے ساتھ خوب بم برسائے،
کہ عراق کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کا خفیہ ذخیرہ ہے۔ مختصر یہ کہ جمہوریت اور انسانی حقوق
کے محافظ کے طور پر امریکہ کا ریکارڈ چونکا دینے والا اور شرمناک ہے۔ لیکن اب وہی ملک
بنگلہ دیش کو لیکر فکر مند نظر آ رہا ہے۔ سچ کچھ اور ہے۔ امریکہ ترقی پذیر دنیا میں
قومی، سیکولر حکومتوں کے خلاف ہے جو آزاد خارجہ پالیسیاں اختیار کرنے کی کوشش کر رہی
ہیں۔ بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت بھارت کے ساتھ دوستی کے اچھے اور مضبوط تعلقات استوار
کر رہی ہے، چین کو دو طرفہ اقتصادی منصوبے شروع کرنے کی دعوت دے رہی ہے، جب کہ روس
ہمارے نیوکلیئر پاور پلانٹ کی تعمیر میں ہماری مدد کر رہا ہے۔ وزیراعظم شیخ حسینہ نے
امریکیوں سے کہا ہے کہ ہم انہیں خلیج بنگال کے گہرے سمندر میں کوئی بندرگاہ یا بحری
اڈہ قائم کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ میرے خیال میں خودمختاری کا یہ تصور اور عمل
دنیا کے سب سے مضبوط ملک کی ناراضگی کا باعث ہے، جسے سب کو محکوم بنانے کی عادت لگی
ہوئی ہے۔ امریکی حکومت ہمیشہ یہی چاہتی ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں اور دیگر جگہوں پر
ایسی کٹھ پتلی حکومتیں ہوں جو ان کے اشاروں پر ناچیں۔
س: بھارت نے اپنی طرف سے واضح
طور پر امریکی حکومت کے سامنے عوامی لیگ کے لیے اپنی ترجیحات کا اظہار کر دیا ہے۔ کیا
اس کا کوئی اثر ہوا؟
ہم حکومت ہند کے 1971 سے ہی
معاونت فراہم کرنے والے کردار کے لیے شکر گزار ہیں۔ میرے خیال میں اس کا کچھ اثر ہونا
چاہیے۔ ہندوستان کی ترجیح کی وجوہات بالکل واضح ہیں۔ مجھے بتائیں کہ ہندوستان اس پریشان
کن ماضی کو کیسے بھول سکتا ہے جب بی این پی اور جماعت کی مخلوط حکومت نے ہندوستان کی
شمالی مشرقی ریاستوں میں شورش کی تحریکوں کی بھرپور حوصلہ افزائی اور مدد کی؟ اس وقت
بنگلہ دیش میں 160 سے کم فوجی تربیتی کیمپ چل رہے تھے اور علیحدگی پسند تحریکوں کے
رہنماؤں کے ساتھ مہمانوں اور مجاہدین آزادی کے جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ عوامی لیگ کی
حکومت نے 1996 میں اقتدار میں آنے کے بعد اس طرح کی شورشوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور
ان علیحدگی پسند رہنماؤں کو حکومت ہند کے حوالے کر دیا۔ بی این پی-جماعت کے دور حکومت
میں اقلیتی برادری کو بھی بہت زیادہ ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا، یہاں تک کہ ان پر ظلم
و ستم کے بھی پہاڑ توڑے گئے۔ تو ظاہر ہے کہ اگر بنگلہ دیش میں بی این پی-جماعت، کی
حکومت بنتی ہے، جسے آئی ایس آئی کی حمایت حاصل ہے، تو یہ یہ ہندوستان کے لیے انتہائی
ناگوار ہوگا۔ ہندوستان نے کھل کر یہ امریکہ سے کہا ہے کہ موجودہ نظام پورے خطے کی ترقی
اور استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔
سوال: کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل
میں ہندوستان کی شکست کا بنگلہ دیش میں بھرپور استقبال کیا گیا۔ کیا بنگلہ دیش میں
عوامی تاثر بھارت کے خلاف ہے؟
بے شک ہماری سیاست اور معاشرے
میں پاکستان نواز عناصر موجود ہیں۔ ان آزادی مخالف اسلام پسندوں نے بنگلہ دیش کی جنگ
آزادی میں پاکستان کا ساتھ دیا۔ ان کے سیاسی اور نظریاتی ذریۃ اب بھی سرگرم ہیں، اور
بنگلہ دیش کی سیاست، ثقافت اور معاشرے میں پاکستانی فکر کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش
کر رہے ہیں۔ کھیلوں میں بھی اس کا اثر کافی نظر آتا ہے۔ ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں کہ
کس طرح بنگلہ دیشی کرکٹ میچوں میں بھارت کے خلاف پاکستان کا ساتھ دیتے ہیں۔ یہ کوئی
نئی بات نہیں ہے۔ لیکن بنگلہ دیش میں کھیلوں کے شائقین کی اکثریت اچھی کرکٹ کو پسند
کرتی ہے اور بھارت کی حمایت کرتی ہے۔
ماخذ:https://www.telegraphindia.com/world/india-would-hate-to-see-bangladesh-nationalist-party-jamaat-wrest-power-shahriar-kabir/cid/1987468
English
Article: After Destroying Pakistan, The US Now Wants to Ruin
Bangladesh
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism