داؤد خٹک
28 اکتوبر، 2014
ماہ رواں کے آغاز میں ٹی ٹی پی ( تحریک طالبان پاکستان) کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اعلان کیا کہ ان کا گروپ ، داعش ( دولت اسلامیہ عراق و شام یعنی آئی ایس آئی ایس) کی حمایت کرے گا۔ انہوں نے داعش کو مخاطب کرتے ہوئے ‘‘ اے ہمارے بھائیو! پوری دنیا کے مسلمان آپ سے بڑی توقعات رکھتےہیں ۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔ ہم آپ کو جنگجو اور ہر طرح کی حمایت فراہم کریں گے’’ اگلے روز ٹی ٹی پی کے سربراہ ملا فضل اللہ نے داعش کے ساتھ اپنے گروپ کی وابستگی کی تردید کرتے ہوئے اپنے تحریری اور آڈیو پیغام میں واضح کیا کہ وہ افغان طالبان کے سربراہ ملا عمر کے ساتھ اپنی وفاداری کی تجدید کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا ‘‘ ہم ملا محمد عمر کی بیعت کر چکے ہیں میں دنیا بھر کے مجاہدین کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ ملا عمر کی قیادت میں کفار کے خلاف جہاد جاری رکھیں ۔ اگر ملا عمر حکم دیں تو ہم اپنے مجاہدین نہ صرف عراق، شام اور یمن بلکہ دنیا کے کسی بھی حصے میں بھیجنے کو تیار ہیں۔’’
شاہد اللہ شاہد ہے کے 5 اکتوبر کے بیان اور اس کے رد عمل میں ملا فضل اللہ کے پیغام نے اڑنے والی گرد ابھی بیٹھ نہیں پائی تھی کہ شاہد اللہ شاہد نے 14 اکتوبر کو ایک تازہ بیان میں کہا کہ ان کے علاوہ پشاور، ہنگو، گرم اور کزئی اور خیبر سے ٹی ٹی پی کے پانچ کمانڈر داعش ( آئی ایس آئی ایس ) کے ساتھ اپنی وابستگی اور وفاداری کا اعلان کرتے ہیں اس اعلان سے ٹی ٹی پی کو اس سال کا آخری جان لیوا دھچکا لگا ۔
پاکستانی طالبان کی قیادت کے لئے اندرونی لڑائی اور دھڑے بندی حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد ہی شروع ہوگئی تھی ۔ حکیم اللہ نومبر 2013 میں امریکہ کے ڈرون حملے میں مارا گیا تھا ۔ اس کے بعد ٹی ٹی پی کے سجنا اور شہر یار محمود کے دھڑوں میں قبائلی علاقے سے تعلق نہ رکھنے والے سوات کے ملا فضل اللہ کو نیا امیر بنانے پر تنازع ہوا ۔ اس دوران ٹی ٹی پی پنجاب کے سربراہ عصمت اللہ معاویہ نے دہشت گردی کا خیر آباد کہنے کا اعلان کردیا جب کہ ملا فضل اللہ کے دست راست خالد خراسانی نے اگست 2014 میں جماعت الاحرار کے نام سے اپنا علیحدہ گروپ بنا لیا ۔ پاکستانی فوج 15 جون 2014 سے شمالی وزیر ستان میں آپریشن شروع کرچکی ہے جس میں اب تک ٹی ٹی پی کا بنیادی دھانچہ ( انفراسٹرکچر ) تباہ ہوچکا ہے سینکڑوں دہشت گرد مارے جا چکے ہیں اور بہت سے فرار ہوگئے ہیں ۔ اب شاہد اللہ شاہد کی داعش سے وابستگی سے ملا فضل اللہ کی اتھارٹی بڑی حد تک کمزور ہوگئی ہے۔
جہاں نئی گروہ بندی سے ٹی ٹی پی کی کمزوری عیاں ہوئی وہاں اس علاقے میں ایک نیا پنڈورا باکس بھی کھل گیا جو جنگجو اور دہشت گرد گروپوں کی پناہ گاہ تھا۔ متعدد پاکستانی اخبارات نے اپنے اداریوں میں ایک بھیانک مستقبل کی نشاندہی کی ہے ۔ کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں نے بھی اس علاقے میں داعش کی آمد پر شدید تشویش ظاہر کی۔ سب سے پہلے ستمبر 2013 میں پشاور میں داعش کی حمایت میں پمفلٹ تقسیم کیے گئے تھے ۔ نوجوانوں کی داعش میں شمولیت کے خدشے کے پیش نظر پاکستانی علما کونسل نے 18 اکتوبر کو ایک بیان جاری کیا جس میں داعش کی مذمت کی گئی اور تمام مسلمان ملکوں سے کہا گیا کہ وہ اس تشدد پسند گروپ کی حمایت نہ کریں کیونکہ ان کے عقائد اور اعمال اسلامی تعلیمات اسلام کے خلاف ہیں۔
کیا داعش پاکستان او رافغانستان میں قدم جما سکتی ہے ؟
بے نام پمفلٹ تقسیم کرنے سے قطع نظر داعش کے پاکستان میں جگہ بنانے کا اندیشہ ہے کیونکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں درجن سے زائد مقامی اور بین الاقوامی جنگجو اور دہشت گرد گروپوں کے ٹھکانے قائم ہیں اس لئے وہاں داعش کے ارکان کی موجودگی کو یکسر نظر انداز تو نہیں کیا جاسکتا تاہم زمینی حقائق اور علاقائی حرکیات کی نوعیت کو پیش نظر رکھا جائے تو یہاں داعش کے پھیلنے کا کوئی امکان نہیں ہے اس کے لئے سب سے پہلا اور سب سے بڑا چیلنج افغان طالبان ہیں ۔ اگر داعش پاکستان یا افغانستان میں جڑیں پکڑتی ہے اور یہاں اس کی سرگرمیاں میں اضافہ ہوتاہے تو افغان طالبان کی فنڈنگ اور نئی بھرتیاں شدید طور پر متاثر ہوں گی اس کے علاوہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سر گرم درجن بھر جنگجو بشمول القاعدہ ملا عمر سے وفاداری کا حلف اٹھا چکے ہیں جب کہ ابو بکر البغدادی اپنے تئیں پوری مسلم دنیا کے خلیفہ ہونے کے مدعی ہیں ۔ لہٰذا پاکستان میں موجود کسی گروپ کی داعش سے وابستگی کا مطلب افغان طالبان سے براہ راست تصادم کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔ طالبان ایسے گرو پ کو یہاں قدم جمانے اور ان کے وسائل میں شراکت دار بننے کی ہر گز اجازت نہیں دیں گے جس سے ان کی سرگرمیوں میں فرق پڑتا ہو۔
گزشتہ دہائی کے دوران طالبان کے خود کش بمباروں نے شہریوں کی بہت بڑی تعداد کا خون بہایا جس کی وجہ سے عوام کی بھاری اکثریت دہشت گردی اور انتہا پسندانہ نظریات سے متنفر ہوچکی ہے۔ داعش کے نظر یات تشدد پر مبنی ہیں ۔ عراق اور شام میں غیر سنی مسلمانوں اور غیر مسلموں کو قتل کرنا ان کا معمول ہے۔ اس لیے اگر ٹی ٹی پی کے منحرف لیڈر اس میں شامل ہوئے تو انہیں مقامی آبادی کی طرف سے حمایت نہیں ملے گی۔ علاوہ ازیں ٹی ٹی پی اندرونی اختلافات اور دھڑے بندی کا شکار ہے۔ شمالی وزیر ستان میں اس کا انفراسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے اور چھ کمانڈر ملا فضل اللہ کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں ، اس لیے یہ پہلے کی طرح ایک موثر طاقت نہیں رہی ۔
ماہرین کی آرا مختلف ہیں ۔ افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند کا خیال ہے کہ بھاری مالی وسائل رکھنے کے باوجود داعش کو افغانستان اور پاکستان میں حمایت نہیں مل سکے گی۔ اس کےبر عکس دفاعی تجزیہ کار بریگیڈ یئر ( ر) سعد محمد خان کہتے ہیں ‘‘ چونکہ خطے میں جنگجو ئیت کا مرکز موجود ہے اس لیے اگر داعش کو عراق اور شام میں کامیابی مل گئی تو یہ اپنے نیٹ ورک کو اس خطے تک پھیلا سکتی ہے۔’’
پاکستانی طالبان کے وہ چھ کمانڈر جنہوں نے داعش کے ساتھ وابستگی کا اعلان کیا ہے، ان کے نام معلوم ہیں اور نہ ان کی اثر پذیرائی کے بارے میں کچھ کہا جاسکتا ہے ،البتہ ایک بات واضح ہے کہ ان کی علیحدگی ٹی ٹی پی کے لیے بہت بڑادھچکا او رملا عمر کی اتھارٹی کے لیے ایک چیلنج ہے۔داعش کے یہ نئے پیروکار اپنا وجود قائم رکھنے میں کامیاب ہوجاتےہیں وہ ہو ٹی ٹی پی اور افغان تقسیم کرنے کے موجب بنیں گے ۔ اس سے دوسرے جنگجو گروپوں کو بھی اپنے علیحدہ گروپ تشکیل دینے او راپنی آزاد پالیسیاں وضع کرنے کی ترغیب ملے گی جس سے ملا عمر کی طاقت کو ضعف پہنچے گا۔
28 اکتوبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ قومی خبر، پاکستان
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/daa-ish-gain-ground-pakistan/d/99763