ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام
28 اپریل 2025
انسانی فکر کے زاویے مختلف ہونا ایک فطری تقاضا ہے۔ لیکن اگر یہ فکری اختلاف مثبت راہ پر گامزن ہے تو بلاشبہ اس کے نتائج واثرات درست ثابت ہوں گے۔ اگر فکری اور نظریاتی اختلاف میں ذاتی مفاد یا پھر کہیں بھی کجی ہوگی تو اس کے نتائج لامحالہ مایوس کن اور معاشرے کے لیے مضر ثابت ہوں گے۔ اب متذکرہ اصول کو ذہن میں رکھ کر ہمیں اپنے سماج اور سماج میں رہ رہے مفکرین ومدبرین کا نہایت سنجیدگی اور دیانتداری سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یوں تو ہم ہر روز اخبارات، ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے جدید افکار اور تخیلات سے مستفید ہوتے ہیں، لیکن ان میں کتنی باتیں اور مباحث ایسے ہوتے ہیں جو ہمارے معاشرے کو صحیح فکر اور منطقی نظریہ سے ہم کنار کرتے ہیں۔ یہ سب مناظر پورے طور پر ہماری نظروں کے سامنے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ٹی وی پر ہونے والے مباحثے اور سوشل میڈیا پر نشر ہونے والے انفرادی یا اجتماعی افکار اب زیادہ تر نفرت و تشدد اور اور ذاتی مفادات کے عکاس نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو مثبت راہ اور صالح فکر معاشرے کو ملنی چاہیے تھی اب وہ نہیں مل رہی ہے۔ جانبداری پر مبنی خواہ کتابیں ہوں، فکری و نظریاتی مباحث ہوں ،یا پھر اخبارات اور سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی خبریں ہوں ،وہ ہمیشہ انسانی رشتوں اور سماجی رکھ رکھاؤ کے لیے نقصاندہ ثابت ہوتی ہیں۔ اسی طرح کسی بھی دھرم اور دین کے خلاف زبان درازی کرنا، نیز کسی بھی دھرم کی مقدس و محترم شخصیات پر انگشت نمائی کرنا بھی قانوناً، اخلاقاً جرم عظیم ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بد امنی اور بے چینی بڑھانے کا سبب ہے۔ معاشرہ کوئی بھی ہو اگر سماج میں انسانی رشتوں اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے تو ہمیں بنیادی طور پر ہر ایسے نظریہ، فکر، مضمون، خبر اور مباحثے سے گریز کرنے کی سخت ترین ضرورت ہے جن کی وجہ سے معاشرے میں کسی بھی طرح نفرت بڑھنے کا اندیشہ ہو۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر کیوں آ ئے دن رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں لوگ گستاخی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اگر اس مسئلہ ہر نگاہ تدبر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ مستشرقین نے اسلام دشمنی اور تعصب کی وجہ سے جو کتابیں اور لٹریچر تیار کیا ہے اس سے بہت لوگ متاثر ہوئے اور اسی سے متاثر ہوکر گاہ بگاہ لوگ ایسا کرتے رہے ہیں۔ یاد ہوگا سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسے لوگوں نے بالترتیب سنٹک ورسیز اور لجا جیسی کتابیں لکھ کر شان رسالت کو مجروح کرنے کی مذموم کوشش کی تھی۔ آج جو سب سے بنیادی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے متشرقین اور دیگر مخالفین اسلام کے اعتراضات یا شکوک وشبہات کے ضمن میں جو جوابات تیار کیے ہیں وہ کافی ہیں یا ایک بار پھر ہمیں اس حوالے سے نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے؟ راقم کا سوچنا یہ ہے کہ اسلام کے آ فاقی اور عالم گیر پیغام کو خود ہم نے اپنے وضع کردہ مسلکوں میں جکڑ رکھا ہے۔ ہمارے پاس ایسا نہیں کہ افراد نہیں ہیں لیکن جو مسلکی اور فکری حصار اپنے اپنے طور پر بنا رکھی ہے،ہم اس سے باہر نکلنے اور کسی بھی سنجیدہ کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں۔ جو لٹریچر مغرب کی دانشگاہوں میں تیار ہوا ہے وہ تو ہوچکا ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ سچائی یہ ہے آج بھی کتنے ادارہ اور افراد ہیں جن کا کام ہی یہی ہے کہ اسلام کے متعلق معاشرے یا کم پڑھے لکھے لوگوں میں شکوک وشبہات پیدا کریں اور اس طرح سے انہیں اسلام کی حقیقی تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے باوجود آج بھی کتنے لوگ ایسے ہیں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اسلام ایک سچا اور پر امن مذہب ہے ۔
اب ان دونوں نظریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہمارا عام مزاج یہ بن چکا ہے کہ ہم صرف روایتی اور سنی سنائی باتوں کو آگے بڑھانے یا پھر ان پر اعتقاد کرنے کو ضروری سمجھتے ہیں۔ تحقیق کرنا یا حالات کا صحیح تجزیہ کرنا شاید ہماری عادت نہیں ہے۔ اسی وجہ سے بہت سارے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ تاہم کسی بھی مسئلہ کو سمجھنے اور اس کے مطابق کوئی فیصلہ یا رائے زنی یا تحریک چلانے سے قبل منظر،پس منظر اور اس کے عواقب و عوامل پر پوری طرح سے نظر ڈالنے ، غور و خوض کرنے کی بڑی ضرورت ہوتی ہے۔ شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی بھی، یا کہیں کا بھی فرد زبان درازی کرتا ہے، یا لکھ کر داغدار کرے گا ،تو اس کا یہ عمل لازمی طور پر قابل مذمت اور لائق تردید ہے۔ لیکن اب جو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کہیں اس طرح کا مذموم واقعہ رونما ہوتا ہے تو پھر اس کا تعاقب کیسے کیا جائے؟ یا اس کا حل کیا ہونا چاہئے؟عام طور پر اس طرح کی باتوں کا حل لوگ مظاہرے کرنے کو سمجھتے ہیں۔ کیا واقعی اس کا حل یہی ہے؟ یا پھر دوسرے عوامل پر بھی نظر کرنے کی ضرورت ہے؟ یعنی قانونی اور عدالتی چارہ جوئی وغیرہ وغیرہ۔اس ضمن میں یہ بتانا ضروری معلوم ہوتا کہ جب مستشرق ولیم میور نے اپنی کتاب "لائف آف محمد " لکھی اور اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو مجروح کیا تو اس کے جواب میں بانئی دانشگاہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سر سید احمد خاں نے خطبات احمدیہ لکھ کر دندان شکن جواب دیا۔ سر سید کا یہ عمل اس بات پر ناطق ثبوت ہے کہ ہمیں مظاہروں سے زیادہ ایسے لوگوں کے جواب علمی طور پر دینے کی ضرورت ہے۔ بناء بریں آج پھر شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر کینچڑ اچھالی گئ ہے اس لیے یہ موقع ہے کہ ہم اس طرح کے جتنے بھی اعتراضات ہیں ان کا علمی طور پر رد کریں اور ایسا جشم کشا تحقیقی کام ہو جو مخالفین کو بھی لاجواب کرسکے۔ ان کے شک و ریب کا علمی طور پر ازالہ کیا جا سکے۔ برادران وطن کی ایک بڑی تعداد آج اسلام کے متعلق غلط فہمی کا شکار ہے اس کی کئی وجوہات ہیں ایک پہلی وجہ یہ ہے کہ ہمارے کردار اور اخلاق جس طرح پراگندہ اور غیر معتبر ہیں وہ بھی سبب بن رہا ہے غلط فہمیوں کا۔ اسی طرح آپ یاد کیجیے اس وقت کو جب سوامی دیانند سرسوتی نے ایک کتاب "ستھیارتھ پرکاش" لکھی تھی تو اس کتاب میں اسلام کے علاوہ دیگر تمام مذاہب کو منفی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔ اس وجہ سے بھی لوگوں یعنی برادران وطن کے اندر اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق شکوک پیدا ہونے لگے۔ ان کے علاوہ آج ہندوستان میں اسلامو فوبیا کے بڑھتے اثر نے بھی اسلام کے خلاف بہت ساری غلط فہمیاں پیدا کی ہیں۔
ان تمام احوال کا نہایت دانشمندی سے محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے اور پھر اس تناظر میں جذباتیت سے بچ کر علمی اور تحقیقی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک بات ہے کہ ہندوستان جیسے تکثیری اور جمہوری معاشرے کی کہ جہاں تمام ادیان کا احترام کرنا ہندوستانی تہذیب کا اٹوٹ حصہ رہا ہے، اگر ایسے معاشرے میں کسی بھی دھرم پر بے جااور ناقابل قبول نکتہ چینی ہوتی ہے تو یہ رویہ نہ ہندوستانی سماج کے لیے ٹھیک ہے اور نہ ہی اس ملک کے اس طبقہ کے لیے جن کو سب وشتم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ہندوستان میں اسلامو فوبیا کے اثرات کو فروغ دینے میں ان مباحثوں کا بھی گزشتہ کئی برسوں سے بڑا حصہ رہا ہے جو دھرم اور مسلمانوں کے نام پر کیے گیے ہیں۔ ان چینلوں نے ایسے ایسے پروگرام نشر کیے جن کی وجہ سے اکثریت کو مسلمانوں سے نفرت ہونے لگی۔ اس میں برابر کے شریک وہ نام نہاد مذہبی رہنما اور دانشور بھی ہیں جو ان مباحثوں کی زینت بنتے ہیں اور اسلامو فوبیا جیسے مرض کو عمدا یا انجانے میں بڑھاوا دیتے ہیں۔آخری بات یہ ہے کہ آج جہاں ہمیں اپنے کردار وعمل اور اخلاق و اعمال کو نہایت باوقار اور پرامن بنانا ہے، تو وہیں ہمیں ان رویوں ، اعتراضات اور شکوک وشبہات پر بھی پوری طرح نظر رکھنی ہوگی ، ہاں اگر کہیں سے کوئی قابل اعتراض یا مشکوک عمل کا ارتکاب کیا جاتا ہے تو اس کا جواب ہمیں علمی اور تحقیقی بنیادوں پر دینا ہوگا۔ اس کے لیے قانونی چارہ جوئی بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی ہماری روایت اور اخلاقیات کا امین ہے ۔ ہندوستان میں بڑھتے اسلامو فوبیا کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے مل کر تمام طبقات کو آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ اگر معاشرے میں اسلامو فوبیا کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں تو پھر اس کے اثرات یقیناً تشفی بخش نہیں ہونگے۔ جب پورا ہندوستانی معاشرہ بلاتفریق دین ومذہب ایسی تمام حرکتوں کا سدباب کرے گے جن سے ایک دوسرے کے تئیں خوف یا مایوسی پیدا ہوتی ہے ، تو یقیناً اس سے ہندوستانی سماج میں بقائے باہم اور قومی ہم آہنگی کی پر کیف فضا ہموار ہوگی۔
---------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/curbing-growing-impact-islamophobia-essential/d/135349
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism