New Age Islam
Mon Feb 10 2025, 06:21 AM

Urdu Section ( 27 May 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Cultural Narcissism- Part 1 (تہذیبی نرگسیت حصہ( 1

 

تہذیبی نرگسیت

مبارک حیدر

سانجھ

جملہ حقوق بحق مصنف محفوظ ہیں

کتاب :     تہذیبی نرگسیت                Book : Tehzeebi Nargasiat

مصنف:    مبارک حیدر     Writer : Mobarak Haider

پہلی اشاعت: جنوری 2009ء  1st Edition : January 2009

دوسری اشاعت: اگست 2009ء 2nd Edition : August 2009 2

تیسری اشاعت: جنوری 2009ء 3rd Edition : January 2009 3

چوتھی اشاعت: فروری2011ء 4th Edition : February 2011 4

سر ورق:      سعید ابراہیم               Title Design : Saeed Ibrahim

قیمت :          200 Price in Pakistan : 200

بیرون ملک قیمت:      $10        $ Out of Pakistan : 10

چھاپا خانہ   :               شاہ محمد شاہ پرنٹرز، لاہور              Printer : Shah Muhammad Shah Printers.

ISBN: 978-969-8957-56-8

فہرست

-1          تمہید کے طور پر          7

-2           تہذیبی نرگسیت         11

-3           عقائد کا انتشار            28

-4           پاکستان کی افغان پالیسی                32

-5           اصل مقصد کیا ہے؟   40

-6           مذہبی قیادت کا اضطراب             43

-7           فحاشی اور عریانی کا سوال              47

-8           افغان، عراق مسئلے کی ترجیح          49

-9           نرگسیت کا مرض        56

-10        یکسانیت اور یک رنگی   62

-11       شمالی قبائل اور تہذیبی نرگسیت     67

-12        نرگسی طیش           72

-13        چت بھی میرا پٹ بھی میرا           75

-14        تلون مزاجی              79

-15        احساسِ مظلومیت      83

-16        نرگسیت اور خوش فہمی 87

-17        موجودہ صورت حال اور تہذیبی نرگسیت       90

-18        مکمل ضابطۂ حیات       96

-19        غلبۂ اسلام 100

-20        سنتِ رسول ﷺ کا نظریہ        103

-21        اِسلاف کا فخر              106

-22        انفرادی فعل            112

-23        روحانیت کیا ہے؟       114

-24        مذہب بطور روحانیت  117

-25        جہاد فی سبیل اللہ        123

-26        اگر نہیں تو پھر یہ ہنگامہ بلا کیا ہے؟ 138

تمہید کے طور پر

پچھلے چند برسوں کے دوران مسلم امّہ نے دہشت گردی کے سلسلے میں بڑا نام کمایا ہے۔ لیکن دہشت گردی کے واقعات سے پہلے بھی ہمارے مسلم معاشرے عالمی برادری میں اپنی علیحدگی پسندی اور جارحانہ فخر کی وجہ سے ممتاز مقام پر فائز رہے ہیں۔

دنیا بھر میں اسلام اور دہشت گردی کے درمیان تعلق کی تلاش جاری ہے اور بیشتر خوشحال یا ترقی یافتہ معاشروں کا دعویٰ ہے کہ جسے دہشت گردی کہا جارہا ہے، وہ سرگرمی اسلام کے بنیادی کردار کا حصہ ہے۔ دوسری طرف سے مسلم معاشروں کے نمائندہ سیاست دان اور دانش ور مسلسل وضاحت پیش کررہے ہیں کہ اسلام میں تشدد اور دہشت گردی کا کوئی تصور ہی موجود نہیں۔

حقیقت کیا ہے، یہ جاننے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ بالخصوص یہ سوال بہت اہم ہے کہ مسلم معاشروں میں موجودہ تشدد کی لہر کے خلاف احتجاج نہ ہونے کے برابر کیوں ہے؟ ظاہر ہے کہ جو عناصر تباہ کاری کے موجودہ عمل میں لگے ہوئے ہیں، انہیں اپنے عزیز و اقارب، اپنے پڑوسیوں اور اپنی بستیوں کی طرف سے نفرت کا سامنا نہیں۔ اگر کسی معاشرے کے رویہ میں کسی عمل سے سخت نفرت موجود ہوتو وہ عمل پھل پھول نہیں سکتا۔ مثلاً عورت کی آزادی اور مذہبی آزادی کے خلاف ہمارے معاشرے میں نفرت موجود ہے تو ان آزادیوں کے پنپنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔ لہذا کہیں نہ کہیں تشدد اور تباہ کاری کو کوئی ایسی تائید حاصل ہے جو اسے توانائی مہیا کرتی ہے۔

تشدد اور تباہ کاری کا یہ عمل جس نے دنیا بھر کے مسلم عوام کو عالمی معاشروں کی نظر میں مشکوک بنا دیا ہے۔ حتی کہ برصغیر ہند اور افغانستان کے مسلمان خوف اور نفرت کی علامت بن گئے ہیں۔ کیا یہ عمل چند لوگوں کی سوچ بگڑنے سے شروع ہوا ہے؟ کیا مسلم معاشرے دنیا کے دوسرے معاشروں کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں؟ کیا برصغیر ہند یعنی بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان کے مسلمان جدید دور کی تہذیبوں کے ساتھ امن کی حالت میں رہ سکتے ہیں؟ کیا افغان قوم کا کردار ایک علاقائی تہذیب تک محدود رہ سکتا ہے؟ یا قدیم فاتحین کی یہ قبائلی آبادی وسط ایشیا، چین، پاکستان اور بھارت کو فتح کرنے کی آج بھی ویسی ہی خواہش رکھتی ہے جیسے ہزاروں برس کے دوران رہی ہے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دنیا کی موجودہ تہذیبوں سے مسلم تہذیب کا ٹکراؤ کیا نتائج دکھائے گا؟ کیا عالمی آبادی جو مسلمانوں کی آبادی سے چار گنا بڑی ہے اور جس میں امریکہ، روس، یورپ، چین، جاپان بھارت جیسے منظم اور مسلح معاشرے شامل ہیں، اپنے ملکوں کی تباہی برداشت کرتے رہیں گے؟

دنیا کے مختلف ملکوں میں سفر کرنے والے مسلمان دورانِ سفر جس تجربے سے گذرتے ہیں، میں بھی کئی بار اس اذیت سے گزرا ہوں۔ مجھے اپنی اذیت اور اپنے عزیز و اقارب ، اپنے دوستوں اور ہم وطنوں کی اجتماعی تذلیل پریشان کرتی ہے۔ اپنی اولاد اور آئندہ نسلوں کی بے بسی اور بربادی کا تصور بے چین کرتا ہے۔ میں پاکستانیوں کی اس نسل سے ہوں جس نے ایک جدید اور مہذب پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔ ہم نے 1960ء اور 1970 ء کی دہائیوں میں قدم قدم پر اگتی ہوئی امیدوں کی فصل دیکھی۔ پھر اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی خاک اڑتی دیکھ کر ہم بربادی کے عمل کو روک نہ سکے، ہمارا معاشرہ جہالت اور نرگسیت کا شکار ہوتا گیا اور قوموں کی جدید انسان دوست تحریکوں سے کٹتا چلا گیا، نیند میں چلتے ہوئے ایک معمول کی طرح جسے عامل نے اپنے کھیل کے لیے سلا دیا ہو۔

مجھے اس کتابچہ کی تلخئ بیان کا احساس ہے۔ مجھے اس بات کا بھی علم ہے کہ میں نے جس طبقہ کو اکاس بیل سے تشبیہہ دی ہے اور جن محترم حضرات کی طرز فکر پر اعتراض کیا ہے وہ کتنے بااثر اور کتنے زودرنج ہیں اور میرا معاشرہ کتنا زود رنج بنادیا گیا ہے۔۔۔ مجھے ڈر ہے کہ ہمارے معاشرے کو تباہی کی طرف دھکیلنے والا عنصر اپنی طرزِ فکر کی تباہ کاریوں کا تجزیہ کرنے پر آمادہ نہیں ہوگا۔ بلکہ طرح طرح کی توجیہات اور الزام تراشی کے ذریعے اپنے کھیل کو جاری رکھنے کی کوشش کرے گا۔ اس کے باوجود میرا ایمان ہے کہ اس عنصر کا ہاتھ روکنا ضروری ہے، جتنا بھی ہم سے ہوسکے۔

دین کو سیاست اور روزگار بنانے والے حضرات میں ایک بہت بڑی تعداد پر خلوص طور پر اپنے راستے کو صراطِ مستقیم سمجھتی ہے۔ یہ سادہ دل مگر خود پسند لوگ ہیں جو مسلم معاشرے کے دوسرے لوگوں کی طرح چند شاطروں کی چال کا شکار ہوئے ہیں، لیکن دین سے روزگار اور سماجی اقتدار حاصل ہونے کی وجہ سے یہ لوگ اپنے موجودہ رول سے مطمئن ہیں بلکہ حالتِ فخر میں ہیں۔ میری تمنا اور دعا ہے کہ اس پر خلوص اور سادہ دل جمِ غفیر میں کوئی ایسی تحریک جنم لے جو انہیں بے جا فخر سے آزاد کرکے خود تنقیدی اور سچے انکسار کی طرف لے جائے۔

مسلم معاشروں کے وہ لوگ جو جدید مہذب معاشروں کے شہری بن گئے ہیں، کچھ عرصہ پہلے تک اپنے آبائی معاشروں کی رہنمائی کیا کرتے تھے۔ ان کی وجہ سے برصغیر کے مسلم اور غیر مسلم عوام انسانی تہذیب کی ترقی کو پسند کی نظر سے دیکھتے اور رشک کرتے تھے، لیکن یہ ایک بڑی بد نصیبی ہے کہ یہ تارکین وطن تیزی سے رجعت اور جہالت کی اس تحریک سے متاثر ہورہے ہیں جو انہیں اسلامی تشخص کے نام پر علم و شعور سے نفرت پر اکسا رہی ہے اور جس کے نتیجہ میں مسلم عوام کے ہیرو اور رول ماڈل نہ تو سائنسدان ہیں نہ موجد بلکہ وہ قاری اور امام مسجد ان کے رہنما بن گئے ہیں جن کا کل اثاثہ رٹی ہوئی آیات اور حکایات ہیں جن کے معنی بھی وہ پوری طرح نہیں جانتے اور جن کے خطبوں میں جھوٹے فخر اور مہمل دعووں کے سوا اگر کچھ ہے تو وہ نفرت ہے جس کا انجام مسلم عوام کی تنہائی اور پسماندگی ہے۔۔۔ اگر یہ کتابچہ تارکین وطن مسلمان نوجوانوں کی توجہ حاصل کرسکے تو میں اسے بھی خوش نصیبی سمجھوں گا۔

مسلم نوجوان کی نفسیات پر مدرسہ اور قاری کے کلچر نے کئی منفی اثرات چھوڑے ہیں۔ لیکن ان میں تنگ نظری اور ایذا پسندی سب سے اہم ہیں، تخریب کاری انہی کا زہریلا پھل ہے۔ ہم اذیت میں جینے اور دوسروں کو اذیت پہنچانے کے عادی ہوگئے ہیں۔ ہمارا امام مسجد ہو یا عام مسلمان فخر سے دعویٰ کرتا ہے کہ ہم نے فلاں کو برباد کردیا۔ مثلاً ہم نے روس کو برباد کردیا، ہم امریکہ کو برباد کررہے ہیں، ہم بھارت کو بھی برباد کریں گے۔چین کو یا جوج ماجوج کہنے کی تحریک جاری ہے اور وقت آنے پر چین کو برباد کرنے کا دعویٰ بھی سنا جاسکے گا۔ لیکن آپ اس امام یا یا اس مقتدی کے منہ سے یہ نہیں سنیں گے کہ ہم نے کس کس کو آباد کیا۔ اسے اپنی یا اپنے عوام کی اذیتیں دور کرنے میں کوئی د لچسپی نہیں۔ اسے فخر ہے کہ وہ برباد کرسکتا ہے۔۔۔ اذیت رسانی اور معصوم بچوں پر تشدد کے جس کلچر نے مدرسہ میں جنم لیا تھا، وہ بڑھ کر یونیورسٹی تک آیا اور اب بازار تک پھیل گیا ہے۔ ہمارے دانشوروں سمیت ہم میں سے کسی نے بھی اپنی عالمانہ نرگسیت سے نکل کر اس بربریت پر اعتراض نہیں کیا۔

مجھے اعتراف ہے کہ یہ کتابچہ اپنے موضوع کی وسعت اور گہرائی کے سامنے بہت ناکافی، بہت سرسری اور سطحی ہے۔ پھر بھی اسے اس امید کے ساتھ پیش کرنے کی جرأت کررہا ہوں کہ مسلم معاشروں کے دانشور اور اہلِ نظر میری کوتاہیوں کو نظر انداز کرکے اس موضوع پر ہماری رہنمائی کریں گے۔

URL: https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-1/d/87216


Loading..

Loading..