مبارک حیدر
نرگسی طیش
پاک افغان قبائل کی موجودہ جنگ صرف اپنی قبائلی روایات کے تحفظ کی جنگ مزاحمت نہیں۔ یہ جنگ اس تہذیبی نرگسیت کا پھل ہے، جس کا ایک رد عمل طیش کی صورت اختیار کرتا ہے۔ مریضانہ نرگسیت کا شکار فرد جب اپنے کسی مقصد میں ناکام ہوتا ہے تو وہ کبھی یہ سوچنے پر آمادہ نہیں ہوتا کہ اس کا مقصد کہاں تک مناسب اور کہاں تک نامناسب تھا، یا یہ کہ دوسروں کو اس کے مقصد سے کیا اختلافات ہو سکتے ہیں۔ بلکہ وہ زخمی شیر کی طرح حیوانی ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ اس کا ردعمل ہمیشہ خونخوار وحشی کی طرح طیش کا ہوتا ہے جیسے جانور استدلال کو سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے اور محض فطرت کے مطابق حرکت کر سکتا ہے، اسی طرح نرگسیت کا مریض اپنی زخم خوردگی پر صرف غیظ و غضب اورجارحیت کا اظہار کرتا ہے، کیونکہ نرگسیت کے تکبر میں مفاہمت، برابری اور جمہوری رویوں کی کوئی جگہ نہیں۔
مریضانہ نرگسیت کی اس شکل کی ایک مثال ملاحظہ کریں، جو ایک حقیقی واقعہ پر مبنی ہے۔ ایک زیر تعمیر فیکٹری میں کام ہو رہا ہے، سامان بکھرا پڑا ہے، کام کے ایک سیکشن کا فورمین دوسروں سے زیادہ مستعد دکھائی دے رہا ہے۔ اس کی شہرت ہے کہ اسے اپنے ہنر اور صلاحیتوں پر بہت ناز ہے۔ اکثر اپنے کام کی داد طلب کرتا ہے اور خود کو اپنے ہم پیشہ لوگوں سے زیادہ معتبر اور ماہر سمجھتا ہے۔ یہ اٹھلاتا ہوا اپنے دو ماتحت کارکنوں کے ساتھ باتیں کرتا ہوا زور زور سے ہاتھ ہلاتا ہوا جا رہا ہے۔ اچانک اس کا ہاتھ ایک ابھرے ہوئے لوہے کے کالم سے ٹکراتا ہے۔ یہ چوٹ سے بلبلا اٹھتا ہے۔ شدید طیش میں لوہے کے ستون کو پاؤں سے ٹھوکر مارتا ہے۔ پاؤں زخمی ہو جاتا ہے۔ چنگھاڑتا ہوا ساتھ والے کارکنوں کو گالیاں دیتا ہے کہ انہوں نے اسے باتوں میں لگا رکھا تھا حالانکہ باتیں یہ خود کر رہا تھا، جس کی وجہ سے یہ سب ہوا۔ ایک کارکن کی ہنسی نکل جاتی ہے۔ فورمین چنگھاڑتا ہوا اس پر ٹوٹ پڑتا ہے اور لوہے کے ایک راڈ سے اسے زخمی کر دیتا ہے۔ فورمین کے ساتھ پھر کیا ہوا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
یہ مریضانہ نرگسیت کی واضح شکل ہے۔ انفرادی مریضوں کا علاج ممکن ہے لیکن ہمیشہ مشکل یہ ہوتی ہے کہ مریض خود کو مریض نہیں مانتا، کیونکہ نرگسیت کے مریض عموماً نہایت ذہین اور اعلیٰ درجہ کے اداکار ہوتے ہیں۔ اپنے مرض کا اعتراف کرنے کی بجائے یہ مریض اپنے نقاد پر جوابی الزام عائد کرتے ہیں اور تقریباً سو فیصد یقیناًالزام یہ ہوتا ہے کہ نقاد حاسد ہے۔
تہذیبی نرگسیت میں اجتماعی فخر اور اجتماعی طیش کی شکلیں ابھرتی ہیں۔ جنوبی افغانستان میں طالبان نے اس فخر کے ساتھ حکومت قائم کی کہ ان کے پاس وہ ہدایت اور صلاحیت ہے جو کسی اور کے پاس نہیں، یعنی قرآن و حدیث پڑھ لینے کے بعد انہیں اور کسی علم کی ضرورت نہیں اور ان کے پاس اسلام ایک ایسے لائسنس کی طرح ہے جس کی رو سے انہیں دوسروں پر ہر طرح کا جبر کرنے کا حق حاصل ہے۔ چنانچہ انہوں نے جبر اور تشدد کے ذریعے دین کو نافذ کیا۔ ریش اور صلوۃ کے جبری نظام کے تحت لوگوں کی حاضری اور معائنہ پریڈ کا نظام، لڑکیوں کے سکولوں کا خاتمہ، دو گواہوں کی بنیاد پر فوجی عدالتوں کے طرز پر سزائیں، دونوں صنفوں کے درمیان شدید امتیاز اور عدم مساوات کے ضابطے نافذ کیے۔ پھر تہذیبی فخر کے نشے میں غیر افغان عناصر کو افغان قوم پر مسلط کر دیا ، جن میں القاعدہ کی عرب قیادت کو مرکزی حیثیت دی گئی، حالانکہ عربوں کے اس تعصب سے دنیا واقف ہے کہ وہ غیر عرب کو شہریت اور حکومت کا حق دینا تو کجا، اپنے ریگستانوں کی ریت پھانکنے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ القاعدہ کی اونچی پروازوں میں امریکہ کو فتح کرنا بھی شامل تھا۔ چنانچہ جب امریکہ کے ٹریڈ ٹاور نشانہ بنے تو طالبان نے بلاتاخیر اس کا تمغہ اپنے سینے پر سجا لیا۔ یہ تہذیبی نرگسیت کا وہ مرحلہ تھا جہاں فورمین اپنے ہاتھ زور زور سے ہلاتا ہوا اٹھلا رہا تھا۔ لیکن جب امریکہ نے حملہ کر کے فورمین کو زخمی کر دیا تو فورمین اس بات کے لئے تیار نہیں ہوا کہ اپنی ماضی قریب کی حکمت عملی یا طرز عمل پر نظر ثانی کرے اور انکسار ، مساوات یا جمہوریت کے کسی اصول سے اپنے اور دوسروں کے مفادات میں توازن کا رستہ نکالے، کیونکہ شیر ایسا کرنے سے فطرتاً معذور ہے۔ فورمین یا شیر اپنے فطری طیش میں پاکستان کے نظام اجتماعی کو درہم برہم کرنے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا، کیونکہ اس نے فورمین کو زخمی کرنے والے لوہے کو روکا کیوں نہیں۔
چند روز پہلے ایک پرائیویٹ چینل پر طالبان زیر بحث تھے ۔ امریکی حملوں کے دوران معصوم قبائلیوں کی اموات پر بات ہو رہی تھی۔ ایک شخص نے کہا کہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ طالبان ان معصوم قبائلیوں کی انسانی ڈھال کا استعمال کرتے ہیں۔ اس پر ایک شخص نے یہ لطیفہ سنا دیا کہ کیسے ایک مجاہد اپنی برقعہ پوش بیوی کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا، کسی نے اس منظر سے یہ سمجھا کہ یہ عورت کو عزت دینے کا کوئی انداز ہے۔ اس نے مجاہد سے پوچھا خان صاحب آج تو آپ پیچھے اور بیگم صاحبہ آگے ہیں ، اس کا باعث کیا ہے؟ تو مجاہد نے اپنی مردانہ غیرت کا تحفظ کرتے ہوئے کہا دراصل آگے مائن بچھی ہوئی ہے اس لئے بیگم کو آگے بھیجا ہے۔ یہ بظاہر ایک معمولی اور مہذب لطیفہ تھا لیکن طالبان کی نمائندگی کرنے والے ایک شریکِ گفتگو مفکر کا چہرہ تن گیا، لہجہ گہرا ہو گیا اور انہوں نے آنکھوں کو ایک زاویہ دے کر کہا دیکھیں مذاق نہ اڑائیں۔ یہ فورمین کے طیش کا وہ حصہ ہے جو ہنسنے والے کو نصیب ہوتا ہے۔
نرگسی طیش کی ایک علامت یہ ہے کہ اس کے مریض دنیا کے ہر اس شخص کا بہ آوازِ بلند مذاق اڑاتے بلکہ گالی دیتے سنائی دیں گے جو ان کی تہذیبی اجتماعیت پر پورے نہیں اترتے یا باہر ہیں یا مخالف ہیں، چاہے یہ ملکوں کے صدور ہوں، سیاسی رہنما ہوں، عالمی مفکر ہوں، چاہے خواتین ہوں۔ انہیں بے وقار کرنے کے لئے بنائے گئے لطیفے ، سکینڈل اور کہانیاں تواتر سے نشر کی جائیں گی۔ لیکن ہر وہ شخص تمسخر سے ماورا اور تقدس کے مقام پر فائز نظر آئے گا جسے تہذیبی نرگسیت کی رکنیت حاصل ہے۔
URL for Part 12:
https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-12/d/87642
URL for this part:
https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-13/d/97657