انسانی حقوق
کی خلاف ورزیاں اس مغربی معاشرے میں نہیں پائی جاتیں جس کی وہ اتباع کی کوشش کر رہے
ہیں۔
اہم نکات:
1. محمد بن سلمان 2017 میں
ولی عہد بننے کے بعد سے اختلاف کو دبا رہے ہیں۔
2. انسانی حقوق کے کارکنوں،
صحافیوں اور علما کو ان کی جدید کاری کے اقدامات پر تنقید کرنے کے جرم میں گرفتار کیا
گیا ہے۔
3. حکومت کے ناقد صحافی جمال
خاشقجی کو مشتبہ حالات میں قتل کر دیا گیا تھا۔
4. امام مکہ مکرمہ صالح الطالب
کو ان کی پالیسیوں پر تنقید کرنے پر دس سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
5. پی ایچ ڈی کی طالبہ سلمیٰ الشہاب کو حکومت پر
تنقید کرنے کے جرم میں 34 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
-----
نیو ایج اسلام
اسٹاف رائٹر
22 اکتوبر 2022
محمد بن سلمان
-----
جب سے محمد بن سلمان 2017 میں سعودی
عرب کے ولی عہد بنے ہیں، وہ وژن 2030 نامی اپنے پرعزم منصوبے کی تکمیل میں لگے ہوئے
ہیں۔ وہ سعودی عرب میں مکمل تبدیلی لانے اور اسے ایک جدید ریاست بنانے کا ارادہ رکھتے
ہیں۔ ان کا مقصد سعودی عرب کا تیل پر انحصار کم کرنا، اس کی معیشت کو متنوع بنانا اور
صحت، تعلیم، بنیادی ڈھانچہ، تفریح اور
سیاحت جیسی عوامی خدمات کو ترقی دینا ہے۔
ان باتوں پر ان کی مخالفت نہیں
کی جا سکتی کیونکہ ہر ملک اپنی معیشت اور انفراسٹرکچر کو ترقی دینا چاہتا ہے۔ پھر محمد
بن سلمان کے وژن 2030 پر ناراضگی، مخالفت اور تنقید کیوں؟ ممتاز علما، صحافی اور انسانی
حقوق کے کارکنان ملک اور معاشرے کو جدید بنانے کے ان کے منصوبوں اور مقاصد پر تنقید
کرتے رہے ہیں۔ اس مخالفت اور تنقید کی وجہ یہ ہے کہ شہزادہ سلمان عجلت میں معلوم ہوتے
ہیں اور چاہتے ہیں کہ 13 سال کے عرصے میں اپنا مقصد حاصل کر لیا جائے۔ پیغمبر اسلام
نے 23 سال میں انقلاب برپا کیا۔ دوسرا یہ کہ، ویژن 2030 عرب معاشرے میں جدیدیت لانے
کا تصور پیش کرتا ہے لیکن انہوں نے جدیدیت کے تصور یا تعریف کو سمجھا کہ نہیں ہے۔ اسلام
جدیدیت کی مخالفت نہیں کرتا بلکہ صارفیت پسند کلچر اور غیر اخلاقی اور غیر اسلامی طرز
زندگی کو فروغ دینے کی آڑ میں فروغ دی جانے والی جدیدیت کی مخالفت کرتا ہے۔ حقیقی جدیدیت
اس وقت حاصل ہوتی جب شہزادہ سلمان آئی آئی ٹی، ٹیکنیکل کالجز کے قیام پر زور دیتے،
سائنس اور ٹیکنالوجی میں تحقیق اور مطالعہ کی حوصلہ افزائی کرتے، درآمدات کو کم کرنے
کے لیے بڑی صنعتیں لگاتے، صحت کی صنعت اور میڈیکل سائنس کو ترقی دیتے اور عربوں کی
سوچ میں سائنسی فکر کو فروغ دینے کے لیے منصوبے اور اسکیمیں تیار کرتے۔ لیکن میڈیا
میں جو خبریں آ رہی رہی ہیں وہ مال، سینما ہال، نائٹ کلب، مخلوط صنفی پارٹیاں اور تفریحی
پروگراموں کی ہیں جو حکومت کے زیر اہتمام ہیں۔ حال ہی میں، مدینہ ریجنل میونسپلٹی نے
ایک پروجیکٹ کے بارے میں انفوگرافکس جاری کیا جس کے تحت دکانیں، ریستوراں، دس سنیما
ہال اور دو تفریحی مقامات بنائے گئے ہیں۔ اس منصوبے میں کسی بھی طبی مرکز یا تعلیمی
ادارے کا ذکر نہیں ہے حالانکہ سعودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ حفظان صحت اور تعلیم کو
فروغ دینے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔ دنیا بھر کے اسلامی معاشرے نے بھی پیغمبر اسلام کی
آخری آرام گاہ مدینہ منورہ میں سنیما ہالوں کے قیام پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ لیکن
حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ مقام مدینہ کی حدود سے باہر ہے۔
تاہم علما، صحافی اور کارکن حکومت
کی غلط پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اگست میں مکہ مکرمہ کی مقدس مسجد کے
امام شیخ صالح الطالب کو صرف حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے کے جرم دس سال قید کی
سزا سنائی گئی تھی۔ انہیں 2018 میں گرفتار کیا گیا تھا اور ایک نچلی عدالت نے انہیں
بری کردیا تھا۔ لیکن ایک خصوصی عدالت نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں دس
سال قید کی سزا سنائی۔ انہوں نے مبینہ طور پر مسجد نبوی میں جمعہ کا خطبہ دیا تھا جس
میں ہم جنس پرستی، تفریح کے
ذرائع، جوئے، سنیما ہالوں کو جائز قرار دینے کے حکومتی اقدام پر تنقید کی تھی اور مسلمانوں
سے کہا تھا کہ وہ ان برائیوں سے دور رہیں۔ ایک مذہبی مبلغ اور امام کی حیثیت سے ان
کا فرض تھا کہ وہ نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں لیکن سعودی حکومت نے اس بات کو
لوگوں کو حکومت کے خلاف اکسانے کی کوشش سے تعبیر کیا۔
گزشتہ دس سالوں کے دوران کم از
کم 25 علماء، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو محض حکومت پر تنقید کرنے کے جرم
میں دس سے پندرہ سال کی سزا سنائی جا چکی ہے۔ ممتاز حقوق نسواں کارکن لوجین الہتھلول
کو خواتین کے ڈرائیونگ کے حقوق کے لیے لڑنے پر گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ انہوں
نے تقریباً تین سال جیل میں گزارے جہاں مبینہ طور پر ان کے ساتھ تشدد اور جنسی زیادتی
کی گئی۔ جو بائیڈن کی مداخلت کے بعد انہیں گزشتہ سال رہا کیا گیا تھا۔
شیخ صالح کی قید سے چند ہفتے قبل،
برطانیہ کی لیڈز یونیورسٹی میں زیر تعلیم سعودی پی ایچ ڈی کی طالبہ سلمیٰ الشہاب کو
اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ چھٹیوں میں سعودی عرب آئی تھی۔ اسے 34 سال قید کی سزا
سنائی گئی اور 34 سال تک ان کے سفر پر بھی پابندی عائد کی گئی۔ یہ فیصلہ انصاف کی دھجیاں
اڑانے والا ہے کیونکہ یہ شاید ایک امن کارکن کو سنائی جانے والی سب سے طویل سزا ہے۔
اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے سعودی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کچھ بیانات دیے تھے، خاص
طور پر لوجین الہتھلول کی حمایت کا اظہار کیا تھا۔ دہشت گردی کے ایک ٹربیونل نے اسے
امن عامہ میں خلل ڈالنے اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ پیدا کرنے میں مخالفین کی مدد
کرنے پر مجرم قرار دیا۔ سلمیٰ ایک کارکن بھی نہیں ہے۔ وہ اپنے آپ کو ڈینٹل ہائیجنسٹ،
میڈیکل ایجوکیٹر اور لیڈز یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ اور شہزادی نورہ بنت عبدالرحمن
یونیورسٹی میں لیکچرار کے طور پر متعارف کراتی ہیں۔ وہ شادی شدہ ہیں اور دو بیٹوں کی
ماں ہے۔
ایسی غیر منصفانہ اور مضحکہ خیز
سزاؤں پر دنیا بھر میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور تنظیموں نے اظہار مذمت کیا ہے۔ سلمیٰ
اور شیخ صالح کی سزا کے خلاف سوشل میڈیا پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ سید وسیم نے ٹویٹر
پر لکھا:
"سعودی عرب کی حکومت کی
برائیوں پر کھلے الفاظ میں شیخ صالح الطالب کو جیل میں ڈالنا اس بات کی ایک بہترین
مثال ہے کہ وہ ملک کس طرح راستے سے ہٹ چکا ہے۔ باقی مسلم دنیا کے لیے یہ ایک شرمناک
اور مکروہ مثال ہے۔
ترکی الشلوب نے ٹویٹر پر لکھا:
"یہ فیصلہ سلمان حکومت
کے ظلم، بدعنوانی اور ناانصافی کی کہانیوں میں سے ایک ہے۔"
اصلاحات بتدریج لائی جاتی ہیں اور
عوام پر زبردستی مسلط نہیں کی جاتیں۔ شہزادہ سلمان جس طرح سے اصلاحات پر زور دے رہے
ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سعودی معاشرے کو مغرب زدہ کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے
ہیں۔ اگر وہ واقعی جدیدیت میں دلچسپی رکھتے ہیں، تو سب سے پہلے انہیں کرنا یہ چاہیے
تھا کہ وہ اپنے ملک میں پارلیمانی جمہوریت لاتے۔ مغربی جمہوریت صرف حکومت پر تنقید
کرنے پر پی ایچ ڈی کے طالب علم کو 34 سال یا کسی عالم کو دس سال تک قید کی سزا نہیں
دیتی۔ اس لیے ایسا لگتا ہے کہ شہزادہ سلمان اس جدیدیت یا مغربی ثقافت کے بارے میں کسی
غلط نظریہ کا شکار ہیں جس کے راستے پر وہ چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ مسلم دنیا
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور سعودی علمائے کرام پر اس قسم کے مظالم پر خاموش ہے۔
گزشتہ سال پاکستان کے مولانا تقی عثمانی کی جانب سے سوشل میڈیا پر خبر ڈالے جانے کے
بعد مدینہ میں سنیما ہالوں کے قیام کی خبر پر ہندوستان اور پاکستان کے مسلمانوں نے
اپنے غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔ لیکن ہندوستان کے کسی مسلم عالم نے شیخ صالح یا سلمیٰ
الشہاب کو جیل بھیجے جانے کی مذمت نہیں کی۔ مولانا سلمان حسنی ندوی نے سلمان حکومت
کے ہاتھوں جیل میں قید شیخ صالح اور دیگر علماء کی حمایت میں نہ بولنے پر مولانا ارشد
مدنی کی تنقید کی۔ ان کی خاموشی واقعی قابل مذمت ہے۔ ہندوستان کے علمائے کرام کی اپنی
مجبوریاں ہوسکتی ہیں کیونکہ ہندوستان میں مدارس اور علمائے کرام کے خلاف حکومت کی دشمنی
کے پیش نظر انہیں سعودی حکومت کی حمایت کی ضرورت ہے۔ سعودی حکومت کی مداخلت بعض اوقات
انہیں ہراساں ہونے سے بچا لیتی ہے۔ اس لیے یہ ہندوستانی علمائے کرام کے مفاد میں ہے،
خاص طور پر دیوبندی علماء کے۔ سعودی عرب کے علمائے کرام اور انسانی حقوق کے کارکنوں
کے خلاف حکومت کی ظالمانہ کارروائیوں کے خلاف آواز اٹھانے سے بریلوی علمائے کرام کو
کیا چیز روکتی ہے؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سعودیوں کو وہابی سمجھتے ہیں؟
مولانا سلمان ندوی یہ بھی بتاتے
ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کے اردو اخبارات یا میڈیا عام طور پر سعودی عرب میں انسانی
حقوق کی خلاف ورزیوں اور علمائے کرام کے خلاف ظالمانہ اقدامات کی خبروں کو دباتے ہیں
کیونکہ محمد بن سلمان کی حکومت نے ان کی وفاداریاں خرید لی ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان
کے اردو اخبارات اور اردو میڈیا دیگر جگہوں پر مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی
اور ظلم و ستم پر روتے ہیں لیکن سعودی عرب کے علمائے کرام اور کارکنوں اور صحافیوں
کے ظلم و ستم کو نظر انداز کرتے ہیں۔
یہ سب دنیا کے مسلمانوں کو یہ باور
کراتے ہیں کہ سلمان حکومت کے وژن 2030 کے پیچھے سعودی ثقافت کی مغرب کاری ہے نہ کہ
جدیدیت اور سعودی عرب کی معاشی اور سائنسی ترقی۔
-----------------
English
Article: Is Mohammad Bin Salman Promoting Modernity in Saudi
Arabia?
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism