سمت پال، نیو ایج اسلام
9 ستمبر 2022
ہر ساز سے ہوتی نہیں یہ
دھن پیدا
ہوتا ہے بڑے جتن سے یہ گن
پیدا
میزانِ نشاط و غم میں
صدیوں تک تل کر
ہوتا ہے حیات میں توازن
پیدا
رگھوپتی سہائے 'فراق'
گورکھپوری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عظیم فرانسیسی کاتھولک
فلسفی، سائنس دان اور ریاضی دان رینے ڈیکارٹس (1596-1650)، جس نے یہ مشہور قول
'کوگیٹو ایرگو سم' (میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں) ایجاد کیا، بہت ہی باریک بات
کہی ہے کہ، 'انسان جھٹکوں اور بحرانوں کے بعد ہی اپنی زندگی کے تجربات سے ہم کنار
ہوتے ہیں۔ محبت یا تو ختم ہو جاتی ہے یا مضبوط ہو جاتی ہے۔ ایک رشتہ یا تو ختم ہو
جاتا ہے یا پھر جوان ہو جاتا ہے۔ زندگی میں کسی بھی رشتے کی پائیداری کا اندازہ
لگانے کے لیے اسے جھٹکا دینا پڑتا ہے۔' بالکل سچ کہا۔ سونا سٹرلنگ (خالص سونا،
عربی میں کندن یا اکسیر) تبھی بنتا ہے جب اس کے خالص پن کو جانچنے کے چودہ سخت
ترین امتحانات سے گزارا جاتا ہے۔ کسی بھی قسم کا بحران چیزوں میں توازن پیدا کر دیتا
ہے۔ ہمیں کبھی بھی کسی کی وفاداری یا دوستی کا یقین اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک کہ
کوئی بحران نہ پیدا ہو جائے۔
اسی طرح، ہمیں اس وقت تک
کسی چیز کی افادیت یا فضولیت کا علم نہیں ہوتا جب تک کہ کوئی بحران اس کی اصل
نوعیت کو ظاہر نہ کر دے۔ ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ زندگی کے ہر رشتے کو ٹوٹنے
یا سالم ہونے کے لیے کسی نہ کسی قسم کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انسان
کی حقیقت کا اندازہ اسی وقت لگایا جا سکتا
ہے جب اس کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آئے۔ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں وہ زندگی کی
ایک بڑی اور خوش کن حقیقت کا محض ایک حصہ ہے۔ یہ اصل نہیں ہے۔ ہم لوگوں کو اپنا
دوست اور رفیق کہتے ہیں لیکن ان کی صحبت کا امتحان تب ہی لیا جا سکتا ہے جب کوئی
صورت حال پیدا ہو۔ ہم سب کم و بیش حالاتی مخلوق ہیں۔
ہم حالات اور ماحول کے
مطابق کام کرتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ جب حقیقی صورت حال ہمارے سامنے آئے گی تب تک
ہم کیا ردعمل ظاہر کریں گے۔ میں نے نام نہاد 'بہت اچھے لوگوں' کو اس انداز میں کام
کرتے دیکھا ہے جو ان کی ظاہری وضع قطع اور ظاہری شکل و صورت سے میل نہیں کھاتا ہے۔
خام نوعیت کا ان کا بے ساختہ ردعمل ان کی تمام ظاہری نفاست کا پردہ چاک کر دیتا
ہے۔ راقم الحروف نے بھی واقعی غیر ذمہ دارانہ انداز میں کام کیا ہے کیونکہ مجھے
کہیں زیادہ نرم مزاجی اور پرسکون انداز میں کام کرنا چاہیے تھا۔ ہم سب حالات،
ماحول اور بحرانوں کے غلام ہیں۔ اور صرف وہی لوگ خالص سونا ہیں، جو بحرانوں کا
شکار ہوتے ہوئے بھی ٹکے ہوئے ہیں۔ اردو کے شاعر جگن ناتھ آزاد نے بجا طور پر کہا
تھا، 'وہ ظرف کا اعلی ہے / جو ہر مشکل سے اوپر آیا ہے'۔ اصغر حسین گونڈوی کا شعر
اسے مزید واضح کرتا ہے: چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے/آگر آسانیاں ہوں،
زندگی دشوار ہو جائے۔ اسے بڑے زاویے سے
بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
1962 میں ہند چین جنگ میں ہندوستان کو مکمل طور پر شکست ہوئی تھی
اور دفاعی اور سیاسی نظام میں بہت سی خامیاں سامنے آئی تھیں۔ لیکن اسی بھارت نے
بھارت چین جنگ میں شکست کے صرف تین سال بعد پاکستان کو فیصلہ کن شکست دی تھی۔ اس
وقت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے اس بحران سے سبق سیکھا اور 1965 کی جنگ میں
ہندوستان نے 1962 کی خوفناک یادوں کو بھلا کر پاکستان کو شکست دی تھی۔
بحران کو صرف بہترین لوگ
ہی اپنے فائدے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں اور وہ اس پرسکون بدھ راہب کی طرح ہیں،
جس نے ناریل کو توڑا اور اس کا پانی پیا اور مسکراتے ہوئے اس شرارتی بندر کو 'بہت
شکریہ' کہا جس نے اسے ناریل مارا! لہذا، ہر قسم کے بحرانوں کے لئے تیار رہیں. وہ
آپ کو زندگی کی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہ کرتے ہیں۔ اور انسان ہمیشہ آزمائش کی
چکی میں پستے رہتا ہی۔
English
Article: A Crisis Puts Things in Perspective
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism