New Age Islam
Fri May 16 2025, 08:34 PM

Urdu Section ( 15 Feb 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Creation of Life and the Universe: A Purposeful Plan-Concluding part حیات وکائنات کی تخلیق ایک منصوبے کے تحت، ایک مقصد کیلئے ہوئی ہے

ڈاکٹر عبدالمغنی

(آخری حصہ)

14فروری،2025

نظریہ کائنات کی تشریح کے ساتھ ساتھ نظریہ حیات کی وضاحت بھی ضروری ہے اس لئے کہ اوّل تو کائنات خود ایک مظہر حیات (Phenemenon of Life) ہے، دوسرے کے کائنات بے حیات نہیں ہوسکتی اورکائنات کے اندر حیات کا وجود لازماً ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ خود قرآن نے زمین و آسمان کے مرکب کے اجزائے ترکیبی کو ایک دوسرے سے جدا کرکے تخلیق کائنات کے آغاز کی جو نشاندہی ایک آیت میں ہے، جس کا حوالہ دیا جاچکاہے، اس میں یہ صراحت بھی کردی ہے کہ خدا نے ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا، یعنی کائنات کے وجود میں آنے کے ساتھ ساتھ حیات کا عمل بھی شروع ہوگیا۔ لہٰذا دیکھنا چاہئے کہ کائنات میں حیات کے وجود کے متعلق قرآن کا نقطہ نظر کیاہے؟

قرآن کاموقف سمجھنے کے لئے سب سے پہلے حسب ذیل آیات پر ایک نظر ڈالنی چاہئے:

۰ ”ہم نے انسان کو سٹری ہوئی مٹی کے سوکھے گارھے سے بنایا۔“(الحجر:26)

۰”او راس سے پہلے جنوں کو ہم آگ کی لپٹ سے پیدا کرچکے تھے۔“(الحجر: 27)

۰”وہی جس نے تمہارے لئے زمین کا فرش بچھایا اور اس میں تمہارے چلنے کو راستے بنائے، اور اوپر سے پانی برسایا،پھر اس کے ذریعہ سے مختلف اقسام کی پیداوار نکالی۔ کھاؤ اوراپنے جانوروں کو بھی چراؤ یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں عقل رکھنے والوں کیلئے۔“(طٰہٰ: 54-53)

۰”ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا،پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کوبوٹی بنادیا، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا۔پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا۔ پس بڑا ہی بابرکت ہے اللہ،سب کا ریگروں سے اچھا کاریگر“۔ (المومنون: 12تا15)

۰ ”او رکیا انہوں نے کبھی زمین پر نگاہ نہیں ڈالی کہ ہم نے کتنی کثیر مقدار میں ہر طرح کی عمدہ نباتات اس میں پیدا کی ہیں؟ یقینا اس میں ایک نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر ماننے والے نہیں“۔ (الشعراء: 8-7)

۰ ”کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ آسمان سے پانی برساتاہے اور پھر اس کے ذریعہ سے ہم طرح طرح کے پھل نکال لاتے ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں پہاڑوں میں بھی سفید، سرخ اور گہری سیاہ دھاریاں پائی جاتی ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور مویشیوں کے رنگ بھی مختلف ہیں حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندو ں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں۔“(فاطر۔28-27)

۰ ”اسی نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر وہی ہے جس نے اس جان سے اس کاجوڑا بنایا اور اسی نے تمہارے لئے مویشیوں میں سے آٹھ نرو مادہ پیدا کیے وہ تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تین تاریک پردوں کے اندر تمہیں ایک کے بعد ا یک شکل دیتا چلا جاتاہے یہی اللہ (جس کے یہ کام ہیں) تمہارارب ہے، بادشاہی اسی کی ہے، کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے، پھر تم کدھر پھرائے جارہے ہو“۔(الزمر:6)

۰”او رہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں، شاید کہ تم اس سے سبق لو۔“(الذاریات:49)

۰ ”کیا یہ کسی خالق کے بغیر خود پیدا ہوگئے ہیں؟ یا یہ خود اپنے خالق ہیں؟“(الطور:35)

۰ ”ہم نے ہر چیز ایک تقدیر کے ساتھ پیدا کی ہے اورہمارا حکم بس ایک ہی حکم ہوتاہے او ر پلک جھپکاتے وہ عمل میں آجاتا ہے“۔(القمر: 49-50)

۰ ”حالانکہ اس نے طرح طرح سے تمہیں بنایا ہے“۔ (نوح: 14)

(یعنی مولانا مودودی کہتے ہیں کہ ”تخلیق کے مختلف مدارج اوراطوار سے گزارتا ہوا تمہیں موجودہ حالت پر لایا“)

۰ ”اور اللہ نے تم کو زمین سے عجیب طرح اگایا۔“(نوح: 17)

۰ ”کیا انسان پر لامتناہی زمانے کا ایک وقت ایسا بھی گزراہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا؟“ (الدھر:1)

۰ ”ہم نے انسان کوبہتر ین ساخت پرپیدا کیا“۔(التین:4)

مذکورہ بالات آیات کے اشارے سے واضح ہوتاہے کہ زندگی سرراہے پڑی ہوئی کوئی خودکار چیز نہیں ہے، یہ باضابطہ پیداکی گئی ہے اورکوئی اس کا پیدا کرنے والاہے۔ اس بات کا خالق نے خود دعویٰ کیا ہے اور تخلیق کی نسبت اپنی طرف کی ہے، اس لئے کہ وہی خدائے کائنات اورمالک حیات ہے۔ اس نے کائنات کے ساتھ ساتھ حیات ایک اندازے اورمنصوبے کے مطابق پیداکی ہے۔ یہ اس کی بنائی تقدیر ہے جس کے تحت ہر چیز بقدر ضروری، پوری اہمیت کے ساتھ پیدا کی گئی ہے۔ہستی کا ایک نظام ہے جو قدرت الہٰی کے مرتب کئے ہوئے فطری ضابطوں پر مبنی ہے۔ وجود نر ا وجود نہیں ہے، اس کے کچھ قواعد اور کچھ مقاصد ہیں۔وجود کی بے شمار شکلیں ہیں جو ایک منطقی ربط کے ساتھ باہم مربوط ہیں۔

منصوبہ تخلیق:

حیات و کائنات کے وجود کا تجسس کرتے ہوئے ہر صاحب علم کو یہ جاننے کی کوشش کرنی چاہئے کہ زمین سے آسمان تک فطرت کے عظیم الشان نظام کا منصوبہ تخلیق کیا ہے؟ اس اہم ترین سوال کا بہتر ین جواب دہی ہے جو خود کے لفظوں میں قرآن مجید نے دیاہے۔ اس سلسلے میں حسب ذیل آیات پراچھی طرح غور کیا جاناچاہئے:

۰ ”یہ آسمان وزمین او ران کے درمیان کی چیزیں ہم نے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنادی ہیں۔ ان کو ہم نے برحق پیداکیاہے، مگر اکثرلوگ جانتے نہیں ہیں“۔ (الدخان: 38-39)

۰ ”نہایت بزرگ وبرتر ہے وہ جس کے ہاتھ میں کائنات کی سلطنت ہے، اور وہ ہرچیز پر قدرت رکھتاہے، جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہترعمل کرنے والاہے، او ر وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی۔“(الملک:1-2)

۰ ”اللہ نے تو آسمانوں اور زمین کوبرحق پیداکیا ہے اور اس لئے کیا ہے کہ ہر متنفس کو اس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے لوگوں پر ظلم ہرگز نہ کیاجائے گا“أ (الجاثیہ:22)

۰ ”یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے یہیں ہمارمرنا اورجینا ہے اور گردش ایام کے سوا کوئی چیز نہیں جو ہمیں ہلاک کرتی ہو“ درحقیقت اس معاملہ میں ان کے پاس کوئی علم نہیں ہے۔ یہ محض گمان کی بنا پر یہ باتیں کرتے ہیں“۔ (الجاثیہ: 24)

۰ ”لوگو! بندگی اختیار کرو اپنے اس رب کی جو تمہارا او رتم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں ان سب کا خالق ہے، تمہارے بچنے کی توقع اسی صورت ہوسکتی ہے“۔ (البقرہ: 21)

۰ ”پس (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروؤں) ایک سوُ ہوکر اپنا رُخ اس دین کی سمت میں جمادو، قائم ہوجاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیداکیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی، یہی بالکل راست اور درست دین ہے،مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔“(الروم:30)

۰”ہم نے اس آسمان اور زمین کو، اور اس دنیا کو جو ان کے درمیان ہے، فضول پیدا نہیں کردیا ہے“۔ (صٓ: 27)

۰ ”پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھاکہ زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں انہوں نے عرض کیا: کیا آپ زمین میں کسی ایسے کومقرر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کوبگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا آپ کی حمد وثنا کے ساتھ تسبیح اورآپ کے لئے تقدیس تو ہم کرہی رہے ہیں۔ فرمایا: میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے۔ اس کے بعد اللہ نے آدم علیہ السلام کو ساری چیزوں کے نام سکھائے، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا اگر تمہارا خیال صحیح ہے (کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے انتظام بگڑ جائے گا) تو ذرا ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ انہوں نے عرض کیا: نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے، ہم تو بس اتناہی علم رکھتے ہیں، جتنا آپ نے ہم کو دے دیاہے حقیقت میں سب کچھ جاننے اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں۔ پھر اللہ نے آدم علیہ السلام سے کہا: تم انہیں ان چیزوں کے نام بتاؤ ”جب اس نے ان کو ان سب کے نام بتادیئے، تو اللہ نے فرمایا: میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں، جو کچھ تم ظاہرکرتے ہو، وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو کچھ چھپاتے ہو، اسے بھی میں جانتا ہوں۔ پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہ السلام کے آگے جھک جاؤ، تو سب جھک گئے،مگر ابلیس نے انکار کردیا وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈمیں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہوگیا“۔(البقرہ:30تا 34)

ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حیات و کائنات کی تخلیق ایک منصوبے کے تحت، ایک مقصد کیلئے ہوئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ خدا کی بندگی کرتے ہوئے انسان اپنی زندگی میں روئے زمین پر نبابت الہٰی کی امانت کا حق ادا کرے اور اس مقصد کے لئے جہاں ہرہر فرد بہترین شعور وکردار کا ثبوت دے وہیں پوری نوع انسانی ہرسطح پر ہمہ جہت ترقی کرے تاکہ عالم وجود کا ارتقااس حد تک پہنچ جائے جو خدا نے مخلوقات کی ہستی کے لئے مقرر کردی ہے۔یہ فروغ ہستی عروج انسانیت بھی ہے۔ اسلام کی روایات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہونے والی روحانی و جسمانی معراج، جس کا بیان قرآن کی سورہ بنی اسرائیل اور سورہ نجم میں ہواہے، ایک مربوط ومتوازن ارتقائے وجود کی وہ انتہا ہے جس کے آگے انسان کا تصور نہیں جاسکتا۔زمین و آسمان کی وسعت کے مقابلے میں آدمی کی قوتوں کا پیمانہ مختصر ہے لہٰذا اگرو ہ عقل سلیم سے کام لے تو اپنے محدود علم پر نازکرنے کے بجائے ان باتوں کا علم، جن کا سمجھنا اس کیلئے محال ہے، خدا سے طلب کرے اوراس کے لبوں پر یہ دعا ہو:

”اے میرے رب! مجھے مزید علم عطا کر“۔ (طٰہٰ: 114)

یہ درحقیقت اس حکمت کی طلب ہوگی جسے قرآن مجید نے ”خیر کثیر“ قرار دیا ہے:

”جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتاہے، اور جس کو حکمت ملی، اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔“(البقرہ:269)

علم و حکمت کی جستجو قرآن حکیم کا ایک موضوع ہے اور اللہ کی کتاب نے بار بار انسان کو فطرت کے تمام داخلی وخارجی مظاہر پر غور وفکر کرنے کی دعوت دی ہے۔ ان مظاہر کوخدا نے اپنی نشانیوں سے تعبیر کیا ہے اور ان کا نام آیات رکھاہے۔ کائنات میں ہر طرف خدا کی آیات پھیلی ہوئی ہیں اورپیہم ان آیات کا ظہور ہوتا رہتاہے۔لہٰذا دیدہ دری کاتقاضا ہے کہ ہدایت الہٰی کے تحت ان آیات پر تدبر کرکے ایسی تدبیروں سے کام لیا جائے جو حق و صداقت کو واضح کردیں۔ آدمی کو  جو قوتیں فطری طور پر دی گئی ہیں ان کا صحیح مصرف یہی ہے:

”عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تمہارا رب ہر چیز کاشاہد ہے؟“

14فروری،2025، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

-----------------

Part: 1 - The Quran Repeatedly Invites Man To Contemplate The Phenomena Of Nature قرآن نے بار بار انسان کو فطرت کے مظاہر پر غور کرنے کی دعوت دی ہے

URL: https://newageislam.com/urdu-section/creation-universe-purposeful-plan-concluding-part/d/134628

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..