New Age Islam
Fri Apr 25 2025, 11:10 AM

Urdu Section ( 1 Jan 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Constitutional Equality and Majoritarianism آئینی مساوات اور اکثریت پروری

ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد

29دسمبر،2023

ہندوستانی مسلمان اس ملک کی دوسری سب سے بڑی قومی وحدت ہیں۔ ان کی ساخت اور شناخت کی نوادرات کچھ خود ساختہ اور خود ثراشہ نادانیوں کی دین ہیں او رکچھ دائیں بازو ہندو سوچ اورنظریات کی قبولیت ومقبولیت کی وجہ سے ! ہندوستان روز اول سے کلیدی پر سناتن (ہندو) غلبہ والے دیش اور ثقافت کانا م ہے! دیگر تمام مذہبی وحدتوں نے یا تو یہاں پناہ لی ہے یا پھر ایک محدود تعداد مسیحی ومسلم داعیان ،حملہ آوروں، سیاحوں، تاجروں ،حق کے متلاشیوں ، محققین او رعلمی شخصیات کی رہی ہے۔یہ طبقات دنیا کے مختلف خطوں سے یہاں کی تہذیب وتمدن ، طرز زندگی او رمذہبی عقائد کے مطالعے، مشاہدے وتجزیہ کرنے کی حیثیت سے ہندوستان آتے رہے ہیں۔ بدھ، جین اور سناتن دھرم اسی دھرتی سے تعلق رکھتے ہیں، سکھ پنتھ بھی یہیں پیدا ہوا، پلا اور بڑھا ہے! بنیادی طور پر 99؍فیصد کاتعلق اسی ملک کی مٹی سے ہے۔

اسلام اس خطے میں اس طرح پھیلا ہے کہ اگر متحدہ ہندوستان کو ایک وحدت مان کر تجزیہ کریں تو پاکستان ،بنگلہ دیش اور ہندوستان کی مشترکہ مسلم آبادی 67؍ کروڑ بنتی ہے۔معلوم ہوا کہ اس پورے خطے کی کل 192؍کروڑ کی مشترک آبادی میں 65؍ کروڑ نے تو اسلام قبول کرلیا، کئی کروڑ نے مسیحی مذہب اختیار کرلیا،کئی کروڑ نے سکھ پنتھ کواپنالیا، لگ بھگ دو کروڑ کے قریب مل کر بودھ ،جین، پارسی ،یہودی او ربہائی ہیں۔

معلوم ہوا کہ مسلم مسیحی ،سکھ ،بودھ ،جین ،پارسی ،یہودی وبہائی یہ آٹھ اقلیتیں ہندوستان میں صدیوں سے رہتی آئی ہیں۔ مسلم اور مسیحی برادری کے تعلق سے تحفظات زیادہ ہیں دیگر کے ساتھ کچھ کم! دیگر کے ساتھ کئی مماثلتیں بنیادی تنازعات کو زمین نہیں دیتیں ۔

ہمارا آئین جس میں تمام شہریوں کو مساوی بنیادی حقوق حاصل ہیں!سب قانون کے سامنے اور آگے برابر ہیں! کسی بھی بنیاد پر تفریق کا تصور موجود نہیں ! مقننہ ،انتظامیہ ، عدلیہ، میڈیا، متعدد آئینی ادارے ، سرکاری وغیر سرکاری ادارے، دادرسی ،احتساب ، جواب دہی و جواب داری کے حوالے سے موجود ہیں! گویا زمین پر آئین وقانون کی رو سے سب کچھ موجود ہے مگر پھر بھی کچھ پیچ وخم ہیں جن کو سمجھنا ضروری ہے۔

اس میں سب سے اہم نکتہ مساوات کا ہے جس کی باریکی کو سمجھے بغیر حقائق کی تہہ تک پہنچا ہی نہیں جاسکتا۔ مساوات کا آئین میں جو تصور وخاکہ موجود ہے وہ یہ نہیں ہے کہ ہر وحدت کے مابین مساوات کے اصول کااطلاق ونفاذ راست لازم و نافذ العمل ہے ایسا نہیں ہے! اس کے برعکس جس وحدت سے جس کاتعلق ہے اس میں اور اس حد تک یہ مساوات کااصول شرائط وضوابط کے دائرے میں رہتے ہوئے لاگو ہوگا! ایسا نہیں کہ جو ایک ہندوستانی وحدت پر لاگو ہے وہ فطری طور پر دوسری وحدت یا وحدتوں کا آئینی وقانونی حق بن جائے گا۔ مثلاً کئی وحدتوں کو آئینی رعایات یا خصوصی تحفظات حاصل ہیں۔ جیسے ریزرویشن آئین کے مطابق نہ سب کا حق ہے نہ سب کو ملا ہواہے! ریاستوں کے مابین کئی امور میں قوانین او ران کامزاج الگ ہیں۔ اسی طرح اقلیتوں کے کچھ اضافی حقوق وتحفظات کو آئینی تحفظ فراہم ہے وغیرہ وغیرہ اب آپ کو واضح ہوجانا چاہئے کہ مساوات او ربرابری کا سیدھا مطلب اصول مساوات (پرنسپل آف یونیفارمیٹی) کا سب پر ایک ساتھ او رایک جیسا راست لاگو ہونا قطعا نہیں ہے بلکہ اس کا اطلاق ونفاذ مخصوص وحدت یا شناخت کے حامل یونٹ، اکائی یا وحدت تک اور ان کی حد تک محدود ،مخصوص ، موقوف ، محفوظ ومرکوز رکھا گیا ہے۔

معلوم ہوا کہ اکثریت اوراقلیت ، مستند پچھڑے طبقات ، شیڈولڈ ٹرائب، شیڈولڈ کاسٹ ،ذہنی و جسمانی معذور یا دیگر کوئی شناخت جس کو کسی مخصوص صورتحال میں خصوصی مراعات کا مستحق قرار دیا گیا ہو جیسے آفت زدہ ،فساد زدہ ، حادثہ زدہ ، جنگ زدہ یا کسی سرکاری مڈبھیڑ میں ہلاکت زدہ یا زخم خور دہ وغیرہ۔ مختصراً یہ مساوات مطالبے کے تناظر میں کوئی راست قانونی حق یا جواز (بلنکیٹ کانسٹی ٹیوشنل پروویزن ) فراہم نہیں کرتا!

اب آئیے تھوڑا اس نفسیات کو سمجھیں جو فی الوقت نافذالعمل ہے ۔دائیں بازو کی سیاست وثقافت جس کا محور ہندوتو ہے اس کے کچھ بنیادی نظریات اقلیتوں کی فکر، ساخت او رشناخت سے براہ راست ٹکراتے ہیں۔ جیسے ہر بھارتی شہری کی قومی شناخت ہندو ہے۔ جیسے جین، بدھ ،بہائی، پارسی، یہودی، مسیحی او رمسلم جن میں سے ہر ایک کی اپنی اپنی مذہنی شناخت ہے وہ اسے کیسے قبول کریں؟ دوسرا پہلو جو اس سوچ سے نکلتا ہے وہ ہے اکثریت پرستی ،اکثریت نوازی او راکثریت پروری جس سے براہ راست اقلیتیں او ران کے معمولات متاثر ہوتے ہیں۔

یاد رکھیں دنیا کی تاریخ ،تجربہ اور تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ جب جب او رجہاں جہاں دائیں بازوکی قوتیں سیاست اورحکمرانی پر غالب ہوئی ہیں اس میں برسر اقتدار طبقہ کو تعداد میں اقلیت ہو یا اکثریت اس کی ہر شئی معاملات ومعمولات زندگی پر قطعیت کیساتھ غالب رہتی ہے۔مسلم دور اقتدار میں اسلام، مسلم تہذیب، تمدن، اخلاقیات اور اقدار کادبدبہ اور غلبہ رہا ،انگریز آئے تو مسیحی روایات واقدار کا غلبہ ہوا جس سے آج تک بھی ہندوستان پوری طرح باہر نہیں آسکا۔ اسی طرح مسلم تہذیب آج بھی اپنا وسیع حلقہ اثر یہاں رکھتی ہے۔

مشورہ: آج کی سیاسی، سماجی، ثقافتی اور سرکار سازی کی کیفیات کو سنجیدگی و گہرائی سے سمجھناہوگا، مفاہمتی عمل کو اپنانا ہوگا! براہ راست یا بالواسطہ تصادم،مخالفت، مخاصمت یادشمنی سے باز رہتا ہوگا! کس طور پر کس طرح موجودہ تبدیلی میں حصے داری حاصل کی جاسکتی ہے،کیسے افہام وتفہیم، اعتدال ورواداری کاپل بنایا جاسکتاہے؟ ایک راستہ تویہ ہے۔ دوسرا متنازعاتی روش اختیار کرنے کاہے ! رنجش کوبڑھانا اور اس کی آبیاری کرنے کا ہے! تنازعات کی فہرست کو متواتر بڑھاتے جانے کا ہے ! زندگی او رمعمولات زندگی کو تنگ سے تنگ تر کرنے کاہے! سفر، تجارت، شراکت واشتراک عمل ،تعلقات عامہ خواص سے رسائی او راس سے حاصل، حصول وماحاصل کو مشکل او رناممکنات کی حد تک لے جانے کا ہے۔ یہ وہ انتہائی نکات ہیں جن پر آج ہر ہندوستانی مسلمان کو غورکرنے کی ضرورت ہے۔اکثریت کے ساتھ شمولیت وحصے داری سے آپ کو کون روکتا ہے؟

وہ عنوان جس کے تحت میں آپ سے مخاطب ہوں اور آگاہی ہے۔میرا یہ فرض ہے کہ آپ کو زمین میں اور زمینی تلخیوں او رموجود مواقع سے آگاہ کروں۔ جو کچھ کی سمجھ میں اب آنے بھی لگا ہے او رکچھ کی جب زمین مزید تنگ ہوجائے گی یا شاید رہے گی ہی نہیں تب آئے گا۔

مساوات جس کو میں نے اس مضمون کامرکزی موضوع بنایا اب اس طرف رخ کرتے ہیں۔ مسلمانان ہند سب سے بڑی اقلیت اور دوسری سب سے بڑی اکثریت ہیں۔ آپ کا جمہوری انتخابی سیاست میں کلیدی کردار ہے جس کو آپ نے خود کھودیا ہے۔کیونکہ ہم نے آزادانہ سوچ سے فارغ اپنے کو ایک ایسا جم غفیر بنالیا کہ جس کی کوئی سمت خم وخامی سے خالی ہی نہیں!

تنبیہ: یاد رکھیں کہ جمہوری نظام میں اقلیت کو براہ راست کبھی اقتدار ملنا ممکن ہی نہیں ! دوسرے اکثریت سے معاملہ کیے اور رکھے بغیر امن بقا، سلامتی و ترقی کا تصور بھی نہیں! پھر اقلیت بھی وہ جو مسلمان ہے۔ ذرا غور کریں آپ کا دین اکثریت کے دھرم کی نفی کرتاہے، آپ کی ہر قدر وروایت ، طریقہ زندگی سب کچھ اکثریت کی الٹ ہے،صبح کی پہلی اذان اکثریت کے عقیدے کی نفی کا برملا اعلان ہوتی ہے وہ ملک جو عقیدے کے اعتبار سے سبزی خور ہے وہ ہمیں گوشت خوری کا قانونی حق دیتاہے ۔بیشتر معاملات زندگی خیر وعافیت سے چل رہے ہیں۔ یقینا کچھ مسائل بڑھے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے ! ہم من حیث القوم نہ مسائل کو سمجھ رہے ہیں ۔نہ ان سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کا احاطہ کرپارہے ہیں۔نہ یہ صورتحال زندگی کو آنے والے وقت میں کس قدر تنگ بنادے گی اس کا ادراک ہی کر پارہے ہیں۔ ایک بے راہ روی کا دور دورہ ہے! ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے اہل نظر کی اب یہ ذمہ داری ہی نہیں بلکہ فریضہ حق ہے کہ سرجوڑ کر بیٹھیں۔

رہنمائی: جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں اس کی سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم میں ہر دور کی رہنمائی کے اشارے موجود ہیں۔امن، صلح وسلامتی ،فتنہ، فساد اور قتال سے امت مسلمہ کو بچانے کے لیے میرے آقا نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ ابن عبداللہ لکھوانے اور اس پر مہر ضامن لگادیتے ہیں۔مگر آج ان کی امت اپنے معاملات کو کمزوری کے اس دور میں کچھ معاملات میں صرف نظر،کچھ میں درمیانی راستہ، کچھ سے بے تعلقی او رکچھ سے لاتعلقی کا برملا اظہار کرکے آج اور آئندہ نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنا سکنے سے گریز کررہی ہے۔ کوئی دھمکی یا بے جا ڈرانا یہاں میرا مقصد ہر گز نہیں ! البتہ حقیقت سے آگاہ کرنا فرض کفایہ سمجھ کر کررہا ہوں ۔ جو میں دیکھ رہا ہوں شاید آپ دیکھ اور سمجھ کر بھی اس سے نظر پوشی کررہے ہیں۔

29دسمبر،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

----------------

URL:  https://newageislam.com/urdu-section/constitutional-equality-majoritarianism/d/131428

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..