فائراونتی والس
16 دسمبر 2015
حال ہی میں ہم نے اسلام میں اصلاح کے لئے بڑھتے ہوئے مطالبات کا مشاہدہ کیا ہے۔ اس سے حقیقت کا جائزہ لینا ایک امر یقینی ہو جاتا ہے اور اس سے متعلق بحث و مباحثہ میں کچھ بنیادی حقائق بھی شامل کیے جا رہے ہیں۔ اور ہمیں اس مکالمے کو متنوع آسٹریلیائی معاشرے کے تناظر میں بھی سمجھنا چاہیے۔
قرآن اسلام کی مقدس کتاب ہے۔ یہ ان پیغامات اور ان وحی الٰہیہ پر مشتمل ہے جو 610 عیسوی سے 632عیسوی کے درمیان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا تھا۔ لفظ قرآن کا مطلب وہ شئی ہے کہ "جس کی تلاوت کی جاتی ہو، اس لیے کہ اس کا نزول نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نے اسے لفظ بہ لفظ یاد کیا اور آخر میں اسے ضبط تحریر بھی کر لیا۔
اسلام میں مذہبی پیشواؤں کی کوئی روایت نہیں رہی ہے۔ دیگر عالمی مذاہب کے برعکس، اسلام میں خدا اور بندوں کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اسلام میں مذہبی رسومات قائم کرنے یا اسے ممنوع قرار دینے کے لیے یا قرآن پاک کی تشریح کرنے کے لیے کسی بندے کو سپریم اٹھارٹی حاصل نہیں ہے۔ امام وہ ہے جو نماز میں جماعت کی قیادت کرتا ہے۔ وہ کوئی مذہبی پیشوا نہیں ہے۔ اس میں ایسے کوئی رسوم معمولات نہیں ہیں جن کی ادائیگی صرف ایک مذہبی تعلیم یافتہ شخص ہی کر سکتا ہے۔ امام شادی کر سکتا ہے اور خاندان بھی آباد کر سکتا ہے۔
یہ دوسرے مذاہب سے مختلف ہے۔ اسلام میں ایک اچھا مذہبی عالم امام کے فرائض انجام دے سکتا ہے۔ ایک امام کی تقرری مسجد کی طرف سے کی جا سکتی ہے اور جہاں کوئی امام نہ ہو جماعت کا ایک رکن ہی امامت سے فرائض انجام دے سکتا ہے۔
"انقلاب"، "تبدیلی" یا "اصلاحات" کے لئے عام مطالبہ میں ان پیچیدگیوں اور خاص طور پر تنظیمی ڈھانچے اور اتھارٹی کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ ایک مزید حقیقت پسندانہ اور قابل حصول نقطہ نظر اس امر میں پنہا ہے کہ ائمہ کو اس بات کی تربیت دی جائے کہ وہ قرآن کی مزید جدید اور اعتدال پسند تشریح کی تبلیغ کریں۔
آسٹریلیا میں ائمہ کے لئے کوئی سرکاری ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ اور ان کی تعلیمات اور ان کے طرز عمل کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی نظام نہیں ہے۔ ہمارے اکثر ائمہ کا تعلق بیرون ملک سے ہے جو مصر میں الازہر جیسے کسی اسلامی یونیورسٹی میں مذہبی تعلیم حاصل کر کے یہاں آتے ہیں۔ اسی طرح کی یونیورسٹیوں کے اثرات ائمہ کی رہنمائی اعتدال پسندی یا انتہاپسندی کی طرف کرتے ہیں۔
آسٹریلیا بھر میں مسلم کمیونٹیز کے ساتھ مجھے اپنی گفتگو سے یہ بات واضح ہے کہ وہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنی حمایت دینے کے لیے تیار ہیں۔ ایک فریم ورک کا قیام سے مزید آسٹریلیائی لوگوں اور ائمہ کرام کو آمادہ کرے گا جن کی تعلیمات آسٹریلیائی تناظر میں ہوں گی اور جن کےوضع قطع سے ہمارے طرز زندگی کی عکاسی ہوگی۔
یہ انتہائی ضروری ہےکہ قرآن پاک کی ان کی تشریح اعتدال پسندی پر مبنی ہو اور اس سے دور جدید کی عکاسی بھی ہوتی ہو۔ آسٹریلیا میں، قرآن کی تشریح سے آسٹریلیائی مسلمانوں کی غالب اکثریت کے نقطہ نظر کی عکاسی ہونی چاہئے جو اپنے اور اپنے بچوں کے لئے ایک اچھی زندگی کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔
کچھ لوگوں کو یہ لگ سکتا ہے کہ مفتی اعظم، ابراہیم ابو محمدکی ایک عوامی کوڑے بازی سے ان کا کوئی سیاسی مقصد حاصل ہوا ہوگا، وہ آسٹریلیا میں تمام مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور نہ ہی وہ ان تمام مسلمانوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کا انتخاب آسٹریلین نیشنل ائمہ کونسل نے کیا تھا، جو کہ تقریبا 200 سنی ائمہ کی ایک جماعت ہے۔
پچھلے ہفتے، میں نے 8ویں بالی ڈیموکریسی فورم میں جولی بشپ کی نمائندگی کی۔ ہمارا پڑوسی ایک بہت بڑا مسلم ملک ہے، جہاں نہ صرف یہ کہ اعتدال پسند اسلام مروج ہے بلکہ جہاں رواداری اور مذہبی تنوع کے ساتھ بقائے باہمی کی ایک شاندار مثال ہے جس کی پیروی دوسروں کو بھی کرنی چاہیے۔
ہمارے پاس کامیاب مہاجروں کی دہائیوں سے چلے آرہے ایک مضبوط بین ثقافتی فریم ورک ہے۔ جس کی تائید مذہبی آزادی سے ہوتی ہے جسے ہمارے آئین نے تسلیم کیا ہے اور ایک مضبوط بین المذاہب فریم ورک سے ہوتی ہے۔
اعتدال پسند مسلمانوں کو ان کی مثبت نقل مکانی کی میراث کی حفاظت کے لئے ہماری مدد کی ضرورت جسے وہ لوگ اب تک فاسد کر نے میں کامیاب نہیں ہیں جو ہمارے اقدار کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
ماخذ:
goo.gl/gNTX8Q
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-society/we-need-mellow-muslims-moderate/d/105633
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/we-need-mellow-muslims-moderate/d/105688