New Age Islam
Sat Apr 26 2025, 08:04 PM

Urdu Section ( 5 March 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Concept of Coexistence in Hinduism ہندو دھرم میں بقائے باہم کا تصور

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام

5 مارچ 2025

یہ سچ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب اپنے متبعین کو شدت ، نفرت اور بدامنی کی تعلیم نہیں دیتا ہے۔

مذاہب ہمیشہ سماج میں اتحاد و یگانگت کا درس دیتے ہیں ۔ تاریخ مذاہب کے مطالعہ سے تو یہی واضح ہوتا ہے ۔ مذاہب کا شفاف تصور اسی وقت سامنے آئے گا جب ہم تعصب سے بالاتر ہوکر اور اپنے فکری و نظریاتی حصار سے نکل کر کسی بھی مذہب کا مطالعہ کریں گے ۔ آج مذاہب کی بابت ایک عام رجحان پیدا ہوگیا ہے کہ مذاہب کی تعلیمات دقیانوسیت پر مبنی ہوتی ہیں ۔ مذاھب کے حاملین تنگ نظر ہوتے ہیں ۔ یہ ایک مفروضہ ہے اس مفروضہ کی اشاعت سماج میں اس لیے ہوئی کہ ہم نے مذاہب کی تعلیمات من و عن عوام تک نہیں پہنچایا، بلکہ اپنے مفادات کے مطابق تعبیر و تشریح کی جس کی وجہ سے مذاہب کے سلسہ میں یہ رجحان پیدا ہوا۔ اس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ مذاہب کی تعلیمات کو درست طریقہ سے پہنچانا ہوگا ۔

اسی طرح سے عہد حاضر میں جہاں مواصلات و ممارست کے وسائل دن بدن بڑھ رہے ہیں اور پوری دنیا ایک گاؤں میں تبدیل ہوچکی ہے ۔ وہیں وہی معاشرے  جو تکثیری اور تعدد و تنوع کے لیے جانے جاتے ہیں ، مذہب و دھرم اور ایک دوسرے کی تہذیب و تمدن اور ثقافت و کلچر سے اجنبیت اور عدم واقفیت نے بھی بہت سارے مسائل پیدا کیے ہیں ۔ مذاہب و ادیان کی عدم واقفیت، سماجی انتشار و افتراق کا باعث بنتی ہیں اور معاشرے میں یہ رویہ بڑا ضرر رساں ثابت ہوتا ہے ۔ اس لیے باہمی تعلقات کی بحالی اور سماجی اتحاد و یگانگت کو فروغ دینے کے لیے بھی ادیان و مذاہب کی تعلیمات اور ان کے مزاج و روح سے واقفیت پیدا کرنا بہت ضروری ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی ہمارے سماج میں ایسے عناصر موجود ہیں جو مطالعہ ادیان سے وابستہ جملہ کاوشوں کو نہ صرف غیر ضروری سمجھتے ہیں بلکہ وہ ان عوامل کو معاشرے کے لیے نقصان دہ متصور کرتے ہیں ۔ یہ رویہ بھی بڑا حیرت انگیز ہے کہ ہمارے پڑوس میں یا ہمارے محلے اور گلی میں مختلف الخیال افراد اور مختلف المذاہب لوگ رہتے ہوں اور ہم ان کی مذہبی اور دینی رسومات سے اجنبی بنے رہیں ، یا ان کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش بھی نہ کریں ۔

آج کی دنیا میں وہی معاشرے تاریخ رقم کرتے ہیں جو علم و تحقیق کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں اور سماج میں یکجہتی پیدا کرنے کے لیے بنیادی اقدامات کرتے ہیں ۔ایک دوسرے کو سمجھنے کے لیے جدو جہد کرتے ہیں ۔ دیگر تہذیبوں سے عدم واقفیت کے نتائج ہمیشہ مایوس کن ہوتے ہیں ۔

اس تناظر میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک تعلیم یافتہ ہندوستانی کو حالات نے متنوع کلچر کا مطالعہ کرنے پرمجبور کردیا ہے ، مگر وہ اپنے پڑوس میں رہنے والے ہم وطنوں کے کلچر سے کوئی واقفیت نہیں رکھتا ۔ضرورت ہے کہ اس خطرناک اجنبیت اور مہیب ناواقفیت کو ختم کیا جائے۔

یہاں یہ وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ مسلم سماج میں مطالعہ مذاہب کو سمجھنے کے لیے اتنا کام نہیں ہوا جتنی ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں ضرورت تھی ۔ گنتی کے چند افراد ہیں جنہوں نے اس دلچسپ اور سنجیدہ موضوع پر کام کرکے معاشرتی تنوع کو محفوظ کیا ہے۔  وہیں ہمارے ہندو معاشرے میں بھی اسلام کو سمجھنے کے لیے مثبت اور تعمیری سعی نہیں کی گئی ہے ۔ گویا خلیج اور تفریق دونوں طرف سے ہے ۔ اس لیے ہمارے برادران وطن اور ہندو دانشوروں کو بھی اسلامی تہذیب و معاشرت اور تعلیمات و ہدایات کا معروضی مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ تبھی جاکر کسی درست اور مثبت نتیجہ پر پہنچا جا سکتا ہے ۔ مطالعہ ادیان کا بھی یہی تقاضا ہے کہ ہندوستان میں تمام مذاہب کے حاملین باہم ایک دوسرے کے مذاہب و افکار کا مطالعہ کریں تبھی جاکر ان تمام غلط فہمیوں اور شکوک وشبہات کا ازالہ ہوسکے گا جو ہمارے درمیان دانستہ طور پر پھیلائی گئیں ہیں۔

یہ بات برحق ہے کہ جب ہم مخالف نظریات اور دیگر تہذیبوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو بہت ساری باتیں اور چیزیں ایسی بھی ملیں گی جو ہمارے نظریات و افکار کے متصادم ہوں گی ، مگر ہمیں ان کو برداشت کرنا ہوگا ،اس کے نتائج یقینی طور پر معاشرے میں مثبت مرتب ہوں گے ۔ لہٰذا

معاشرتی ہم آہنگی کے لیے اس وقت سب سے کار آمد اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف مطالعہ مذاہب ہے ،اس علم کی بدولت انسان اپنی سوچوں کے محدود دائرے سے  نکل کر آفاقی عالم کی ہوا خوری  کرتا ہے۔ اخلاقی بلندی کے ساتھ ساتھ اکثریت کی بھلائی کے لئے کا م کرتا ہے اور اسلام کی تعلیمات تو سراسر تفکر و تدبر کے ذریعے مطالعہ کائنات کی دعوت دیتی ہیں ۔ مذاہب کے مذاکرے اور مطالعہ سے  معاشرے میں امن و امان کی راہ ہموار ہوتی ہے ۔مذاہب کے مطالعہ کی روشنی میں ہمیں یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ مطالعہ معاشرے اور سماج پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے اور انسانی مسائل کے حل میں کسی مذہب کے پاس کیا کیا تعلیمات موجود ہیں۔

تصور کیجیے! ایک ایسا ملک جو اپنے دامن میں ثقافتوں ، مذاہب ، زبانوں اور رنگوں کی شاندار وراثت کے لیے جانا جاتا ہو ، یہی نہیں بلکہ اس کے ماضی کے آثار و نقوش قابل فخر اور اس کی تاریخ و تہذیب کا مطالعہ دلچسپی کا باعث ہو ۔ آج اسی سرزمین پر نفرت اور اجنبیت کی لہر چل رہی ہے۔ اس لیے اس شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہندوستانی سماج سے ان حالات کو دور کرنے کے لیے آگے آئے جو ملک کی سالمیت اور سماجی بقائے باہم کے لیے خطرہ ہیں ۔

بڑھتی نفرت کا خاتمہ اور اس کے خوفناک اثرات سے ہندوستانی سماج کو اسی وقت بچایا جاسکتا ہے جب کہ ہم ایک دوسرے کی تہذیب و تمدن اور مذہب و دھرم سے آشنا ہوں گے ۔ مل جل کر رہیں گے ۔ یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہندو دھرم کی جو تصویر پیش کی جارہی ہے ، ہندو دھرم اس سے بالکل الگ ہے۔

قدیم  ہندو روحانی اور ثقافتی ورثے میں اقدار اور

 تعلیم کا ایک ایسا انوکھا اور منفرد نظام شامل ہے جو انسانوں کے لیے رہنمایانہ روشنی کا کام انجام دیتا ہے۔ نظام اقدار و اخلاق اور انسانی ہمدردی کی بنیادیں ویدک صحیفوں میں موجود ہیں ۔ ہندو دھرم کی تعلیمات میں باہمی امن اور ہم آہنگی کا  عنصر نظر آتا ہے۔ جب ہم ہندو دھرم کے مقدس صحیفوں اور شاشتروں کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ رواداری اور اتحاد ، مل جل کر رہنا جیسی واضح ہدایات ملتی ہیں۔اسی طرح یہ کہنابھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سنا تن دھرم طرز زندگی میں ایسے فطری نظام کی طرف

نشاندہی کرتا ہے جو آفاقی اور عالمگیریت کا حامل ہے۔ 

ہندو دھرم کے صحیفوں میں موجود سناتن دھرم کی بنیادی تعلیم کا مختصرا  خلاصہ یہ پیش کیا جاسکتا ہے کہ  دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنا سب سے بڑی نیکی ہے اور انھیں تکلیف دینا سب سے بڑا گناہ ہے۔ سب کے ساتھ پیار محبت سے پیش آئیں، سب کا احترام کریں اور کبھی بھی کسی کے ساتھ ایسا سلوک یا کوئی ایسا عمل نہ کریں جس سے ہم خود اپنے ساتھ نہیں کرنا چاہتے ہیں، ہندو دھرم اسی کی علامت ہے۔

ہندو دھرم کا مذہبی ادب  اور مقدس صحیفے یہ تعلیم دیتے ہیں کہ ہم اپنے ہم منصب انسانوں سے نہ صرف وقار اور احترام کا سلوک کریں بلکہ دیگر تمام ذی روح مثلا جانوروں ،پرندوں، نباتات اور پورے قدرتی ماحول کے ساتھ انتہائی ہمدردی، شفقت اور احترام کا مظاہرہ کریں۔ یہاں تک کہ گھاس کے چھوٹی سی پتی میں بھی خدائی وجدان موجود ہے، لہذا ہمیں فطرت کے ساتھ بھی ہم آہنگی اور پرامن بقائے باہمی کو برقرار رکھنے کے لیے مستقل جدوجہد کرنی ہوگی، یہ سناتن دھرم کی کچھ انوکھی خصوصیات ہیں جو سب کے درمیان ہم آہنگی اور باہمی افہام و تفہیم پر زور دیتی ہیں ۔

 سناتن ویدک دھرم " وسودھیواکٹمب کم" کے بارے میں بھی بات کرتا ہے یعنی پوری کائنات ایک کنبہ ہے ۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہر فرد خدا کی تخلیق ہے اور خدا قادر مطلق ہے ۔خدائی طاقت ہر جگہ اور ہر وقت موجود ہوتی ہے ۔اس کے نتیجے میں ہم کسی کے ساتھ پس منظر، مذہب، ذات یا نسل کی بنا پر بھید بھاؤ نہیں کرتے ہم نہ صرف رواداری پر بلکہ ہر ایک کی غیر مشروط شمولیت و قبولیت پر یقین رکھتے ہیں ۔ اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ

 تمام مذاہب کا بنیادی مقصد ایک جیسا ہی ہے۔ یہ سب ہمیں  اس قادر مطلق کی طرف لے جاتے ہیں ۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ قومی اور عالمی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ بین المذاہب ہم آہنگی اور پرامن بقائے باہمی کی راہیں  ہموار کی جا ئیں ۔

انسانی تاریخ ، تہذیب و تمدن کے سفر میں باہمی افہام و تفہیم کو ہر دور میں کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایک مہذب معاشرہ اور اس کی تشکیل اتفاق رائے، فکری اتحاد اور اشتراک عمل کی زندہ تصویر ہوا کرتی ہے۔ البتہ  اختلاف رائے کا ہونا ،تنازعات کا جنم لینا اور فتنوں کا پیدا ہوتے رہنا بھی اس میں اپنا وجود ہی نہیں رکھتے بلکہ منفی فکر و عمل کو زمین بھی فراہم کرتے رہتے ہیں ۔ یہیں سے انسانی دماغ اور مشترکہ ثقافتی اقدار سے ان کی وابستگی کے حوالے سے فرد، تنظیم ،تحریک ،اداروں ،رہبران ملک و ملت  اور مفکرین وقت کا امتحان شروع ہوتا ہے ۔

----------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/concept-coexistence-hinduism/d/134790

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..