New Age Islam
Mon Mar 17 2025, 01:03 AM

Urdu Section ( 3 Sept 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Concept of Blasphemy in the Modern Period دور جدید اور توہین رسالت کا تصور

مفتی اطہر شمسی مظاہری

3 ستمبر،2022

توہین رسالت کا تصور ہی سرے سے دور جدید سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ دور جدید کی تمام حقیقی آپ کی ذات گرامی کا فیضان ہیں۔ دور جدید میں علم کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔معلوم تاریخ کے مطابق وہ کون سی ہستی ہے جس نے علم کو سب سے بنیادی فریضہ قرار دیا ہے؟وہ شخصیت کون ہے جس پر نازل ہونے والی کتاب کی پہلی آیت تعلیم سے متعلق ہے۔ آزادی ایک بہت ہی مقدس قدر سمجھی جاتی ہے۔ انسانوں کی فکری آزادی، مذہبی آزادی، اظہار خیال کی آزادی اپنے فیصلے خود لینے کی آزادی وغیرہ چھٹی صدی عیسوی سے پہلے دنیا کو دیکھئے تو ہر طرف فکری، جسمانی جبر اور غلامی کا دور دورہ نظر آتا ہے۔یہاں تک کہ ارسطو جیسا مفکر فلسفی بھی ہمیں غلامی کی وکالت کرتا ہوا نظر آتا ہے۔لیکن چھٹی صدی عیسوی کی بعد کی دنیا کو دیکھئے تو اچانک ہر طرف آزادی کی باتیں ہونے لگتی ہیں۔ یہا ں تک کہ مذہبی اقلیتوں کی آزادی کے تصورات بھی بہت تیزی کے ساتھ جنم لینے لگتے ہیں۔ قانون کی کتابوں میں ان کے حقوق کا اندراج ہونے لگتا ہے۔ دوبارہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کون سا واقعہ پیش آیا کہ جس نے یکا یک دنیا کو جبر سے آزادی کی طرف موڑ دیا؟ جواب صرف ایک ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت۔

چھٹی صدی سے پہلے کی دنیا تودور تاریک کی دنیا ہے، سائنس، تہذیب او ر ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا اپنے عہد طفولیت میں دکھائی دیتی ہے۔ لیکن آگے آنے والی صرف دو تین صدیوں پر نگاہ ڈالیے تو دنیا میں ہر طرف سائنس او رٹیکنالوجی کی چمک دکھائی دینے لگتی ہے۔ بغداد سے لے کر اسپین تک ایجادات کی ایک نئی دنیا آباد ہوجاتی ہے۔ جسے دیکھنے کے لئے یوروپ کی نگاہیں حیرت کے ساتھ کھلی کی کھلی رہ جاتی ہے۔ یہاں تک کے یوروپ کے تمام اعلیٰ دماغ لوگ اس نئی دنیاکا مشاہدہ کرنے کے لئے عالم اسلام کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔قرطبہ سے لے کر بغداد تک مسلم دانش گاہوں میں ہر طرف یوروپین طالبین علم دکھائی دینے لگتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دنیا کو اچانک یہ کیا ہوا؟ آخر تاریخ عالم میں کون سا واقعہ پیش آیا جس نے زمانہ کا رخ اچانک ایک جانب سے دوسری جانب کو موڑ دیا۔ جواب پھر ایک ہی ہے۔ یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت۔

غرض یہ ہے کہ جدید دنیا کی مطلوبہ او رمحمود نعمتوں پر اگر آپ نظر ڈالیں تو آپ کو تمام نعمتوں کے پیچھے ایک ہی ذات نظر آئے گی یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ تمام تاریخی تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دور جدید کے بانی ہیں۔ دور جدید کی تمام رونقیں آپ ہی کے دم سے ہیں۔ دور جدید کی تمام رونقوں سے اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کنٹری بیوشن نکال دیا جائے تو دنیا وہیں کھڑی نظر آتی ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل کھڑی ہوئی تھی۔

تاریخ کا موضوعی مطالعہ بتاتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغمبر ہونے کے ساتھ ہی ساتھ ایک ایسی عظیم شخصیت بھی تھے جنہیں بجا طور پر دور جدید کا خالق کہا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو سائنس، تہذیب اوردور جدید کے مختلف مظاہر کی تعلیم دی۔ بلکہ اس کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو وہ ’مائنڈ سیٹ‘ دیا جس کے نتیجہ میں دنیا پر ہر قسم کی خوشحالی اور تہذیب و ترقی کے دوازے کھل گئے۔ اصل یہ ہے کہ دنیا کی تمام ترقیات انسان کے مائنڈ سیٹ کے نتیجہ میں وجود میں آتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعث سے قبل دنیا کو ہم پرستی، جبر اور فطرت کی پرستش کے مائنڈ سیٹ کے ساتھ جی رہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے زور پر دنیا کو تو ہم پرستی اور جبر کے دور سے نکال کر علم، آزادی اور فطرت کی تسخیر و تحقیق کے دور میں داخل کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کو وہ ذہنی اور فکری پختگی عطا کی جس کا آخری نتیجہ موجودہ ما بعد سائنس کا زمانہ ہے۔ گویا کہ اس پہلو سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل کنٹرییوشن یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سوسال قبل دور جدید کا بٹن دبا دیا۔ آپ کے دبائے ہوئے بٹن کے زو رپر دنیا کو دور جدید کی جانب ایک کے بعد ایک بڑھایا جاتا رہا۔ یہاں تک کہ دنیا اکیسویں صدی میں داخل ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عطا کیے ہوئے پختہ فکری رویوں اور ذہنی تصورات نے دنیا کو ایک دور سے نکال کر دوسرے نئے دور میں داخل کردیا۔ انہیں تصورات کے نتیجہ میں دنیا آنے والی چند صدیوں میں ہی ایک عظیم علمی، فکری اور سائنسی انقلاب سے آشنا ہوگئی۔

ان تمام تفصیلات کاماحصل یہ ہے کہ آج کی جدید دنیا ہی عظیم پیغمبر کی رہین منت ہے۔ اور دور جدید کی تمام رونقیں دراصل عظمت پیغمبر کا ثبوت ہیں۔ آپ کے ہاتھ میں موجود ایک قلم سے لے کر ناسا کے ذریعہ کی گئیں تمام ترقیات تک دور جدید کی ہر نعمت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی دین ہے۔ اتنا ہی نہیں ایک تمام نعمتیں عظمت رسول پر شاہد بھی ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ دور جدید دراصل عظمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دور ہے۔ قیامت کی طرف بڑھنے والا ہر دن عظمت رسول کو مزید مستحکم کرنے والا دن ثابت ہوگا۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کو عظمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوری طرح واقف کرایا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت پر گزشتہ چودہ سو سالہ تاریخ کی گواہی، زمین پر بسنے والے ایک ایک انسان پر قائم کردی جائے۔ دنیا کو یہ بھی بتایا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل عظمت گزشتہ چودہ سو سالوں میں پیش آنے والی تمام ترقیات میں ہی نہیں بلکہ آپ کی اصل عظمت ان تصورات، عقائد اور اصول حیات میں ہے جو آپ نے انسانیت کی دنیوی اور اخروی فلاح و بہبود کے لیے پیش کیے ہیں۔

آج ہماری اصل ذمہ داری یہ ہے کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ عطا کیے گئے بنیادی فکری اور اخلاقی اصولوں کی روشنی میں ایسے فکری او رعملی پراجیکٹ تیار کریں جو آج کے انسان کواس کے کرب و الم سے نکال سکیں۔ انتہاپسندانہ افکار اور کیپٹلزم جیسے عفریت کے ظلم کے پاٹوں میں سسکتی انسانیت کو نجات دے سکیں۔ہم کچھ ایسا کریں کہ دنیا کے وسائل سے ایک طبقہ کی اجارہ داری ختم ہو اور وسائل کی منصفانہ تقسیم عمل میں آئے، جیسا کہ یہ خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، تاکہ انسانیت کو راحت کے سانس نصیب ہوں اور فلاح وبہبود کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو دنیا کی نگاہوں میں مستحکم کرنے کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں ہوسکتا۔

مگر کیسی عجیب بات ہے کہ عظمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ان حقیقی تقاضوں سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں۔اس کے برعکس ہم اس ہر کام کا سہرا اپنے سر باندھنا چاہتے ہیں جس کا عظمت رسول سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بھلا اس قوم کو آپ کیاکہیں گے جو عظمت رسول کے عہد میں تمام ذرائع ابلاغ کا استعمال کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کرے کہ نعوذ باللہ ان کے رسول کی توہین کردی گئی ہے۔ جس پیغمبر کے بارے میں خود رب العالمین نے ارشاد فرمادیا ہو ”اور ہم نے آپ کا ذکر اونچا کردیا“(قرآن 69/94)اس عظیم ہستی کا نام کوئی سرپھرا کیسے نیچا کرسکتا ہے؟ جس عظیم ہستی کو خود رب العالمین نے مقام محمود پر فائز (قرآن 17/79)کرنے کا اعلان فرمایا ہو کوئی مجرم پیشہ اسے اس مقام سے کیسے نیچے اتار سکتا ہے؟ جس عظیم تر شخصیت کو خود رب العالمین نے خلق عظیم(94/4)کی سند عطا فرمادی ہوکون ہے جو اس سند پر ادنیٰ درجہ بھی بٹہ لگا سکے؟سچ یہ ہے کہ تاریخ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک عظیم تر ین مقام کا فیصلہ کر چکی ہے اس کو چیلنج کرنے والا ہر سر پھرا خود اپنی توہین کا اعلان کرتا ہے۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اس قدر بلند ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین سرے سے ممکن ہی نہیں ہے۔ کوئی جاہل اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نازیبا الفا ظ کا استعمال کرتاہے تو آپ کے اندر اس درجہ دانش مندی ہونی چاہئے کہ آپ اس کے الفاظ کو اس شخص کی ایسی کمینگی کے ثبوت کے طور پر پیش کریں جو سماج میں لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا کرسکتی ہے نہ کہ یہ کہ آپ اسے توہین رسالت کا کیس بنائیں جو کہ سرے سے ممکن ہی نہیں ہے۔

اس موقع پر کرنے اصل کام یہ ہے کہ ہم پر ایسے موقع کو عظمت رسول کے مزید آشکار ہونے کا موقع بنادیں۔ ہم تمام ذرائع ابلاغ کا استعمال کرتے ہوئے دنیا کے ساتھ ڈائیلاگ شروع کریں تو لوگوں کو سوال اٹھانے کی آزادی دیں، ان کے سوالات پر نہایت درجہ صبر اور متانت کے ساتھ غور کریں آخری حد تک شائستگی کے ساتھ سائنٹفک انداز میں ان کے سوالات کے جواب دیں۔

3 ستمبر، 2022، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

URL: https://newageislam.com/urdu-section/concept-blasphemy-modern-period/d/127866

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..