فاروق ارگلی
آزادی ہند کی تاریخ کو گزشتہ
60برسوں میں اس انداز سے اور کچھ زیادہ ہی زور دے کر پیش کیا گیا ہے کہ پاکستان بنوانے
والے تمام مسلمان تھے، کیونکہ مسلم لیگ والے اور محمد علی جناح مسلمان تھے ۔ یہ اکثریتی
سیاست کی حکمت عملی ہے کہ ان مسلم مجاہدین آزادی کو ملک وقوم کا ہیرو نہ سمجھا جائے
جنہوں نے وطن کی آزادی کے لیے بے مثال دقربانیاں دیں اور تقسیم وطن کی زبردست مخالفت
کی تھی ۔ تاریخ کی اس سچائی کو آنے والی نسلوں کے ذہنوں سے محو کر نے کی آسان ترکیب
یہ اپنائی گئی کہ ملک کو انگریزوں کے کچھ ہندو اور مسلمان حلیفوں نے مادر وطن کے دو
ٹکڑے کرائے جب کہ مسلمانوں کے اکابر علماء نے تقسیم کی زبردست مخالفت کی، تحریکیں چلائیں
اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ مقام حیرت تو یہ ہے کہ تحریک آزادی کی سب سے
بڑی اور واحد علمبردار جماعت کانگریس کی سرکاروں نے بھی بڑی حد تک اکثریتی سیاست سے
مغلوب ہوکر اپنے ان مسلم مجاہدین آزادی کی تاریخ ساز خدمات کوبس سرسری صورت میں محدود
کر نے کی کوشش کی ہے ۔ ہ میں ملک کی سیکولر جمہوری حکومتوں کی گزشتہ ساٹھ سالہ کارکردگی
میں یہ مخصوص نظریاتی کوشش یا سازش صاف نظر آتی ہے کہ اطلاعات ، ابلاغ اور تعلیمات
کسی بھی ذریعہ سے برائے نام ، بہت کم یا محض ضمناً بھی اس عظیم المرتبت مسلم مجاہدین
آزادی اور عوامی رہنماءوں کاذکر سننے میں نہیں آتا کہ دارالعلوم دیوبند سے آزادی
وطن کی تحریک نے ابھر کر کانگریس میں جان ڈالی تھی ۔ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ
کے بعد ان کے جانشین شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے نہ صرف کانگریس
کی تحریک آزادی کو مذہبی فریضہ قرار دیتے ہوئے مسلمانان ہند کو بیدار کیا تھا بلکہ
تقسیم وطن کے خلاف موَثر آواز بھی اٹھائی تھی ۔ آپ نے9جون،1940ء کو جمعیۃ علما ء
ہند کے جو نپور اجلاس میں فرمایا تھا:
’’ اس زمانے میں پاکستان کی تحریک زبان زد ہے، اگر اس کا مطلب اسلامی
حکومت علی منہاج الثبوت ہے،جس میں تمام اسلامی احکام حدود و قصاص وغیرہ جاری ہوں ،مسلم
اکثریت والے صوبوں میں قائم کرنا ہے تو ماشا ء اللہ نہایت مبارک اسکیم ہے ۔ کوئی بھی
مسلمان اس پر گفتگو نہیں کرسکتا ۔ اگر اس کا مقصد انگریز حکومت کے ماتحت کوئی ایسی
حکومت قائم کرنا ہے جس کو مسلم حکومت کا نام دیا جا سکے تو میرے نزدیک یہ اسکیم محض
بزدلانہ اور سفیہانہ ہے جو ایک طرف برطانیہ کے ’’ ڈیواءڈ اینڈ رول ‘‘ کاموقع مہم پہنچا
رہی ہے او ریہی عمل برطانیہ نے ہر جگہ جاری رکھا ہے ۔ ترکی کو اسی طرح تقسیم کیا گیا،
عرب ملک کو اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے کرکے بانٹا گیا، وہی عمل ہندوستان میں مختلف پیرایوں
سے ظاہر ہورہا ہے ۔ کچھ عجب نہیں کہ اس کی بھی وحی لندن، آکسفورڈ ، گیمبرج ، شملہ
یا نئی دہلی وغیرہ سے ہوئی ہو جیسا کہ معتبر ذراءع سے معلوم ہوا ہے ۔ ‘‘
حضرت مولانا سید حسین احمد
مدنی نے اپنی طویل جد وجہد آزادی میں ہندووَں اور مسلمانوں ، سکھوں اور ہندوستان کی
دوسری اقوام کو متحد قومیتیں کی صورت میں منظم کرنے کی کوشش کی ۔ آپ کا فکری نظریہ
یہ تھا کہ ہر مذہب ، ہر تہذیب اور ہر زبان اور رسم رواج کے تحفظ کے ساتھ آزادی ہندوستان
کی تشکیل وتعمیر ہو ۔ انہوں نے مسلمانوں پر زور دیا تھا کہ وطن کو آزاد کرانے کا فریضہ
ان پر دوسرو ں سے زیادہ عائد ہوتا ہے کیونکہ ہندوستان حضرت آد م علیہ السلام کے وقت
سے مسلمانوں کا آبائی وطن ہے ۔ زندگی اور پھر مرنے کے بعد بھی مسلمانوں کو اس سرزمین
سے نفع اٹھانا ہے ۔ مسلمانوں کے پیغمبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں
، آپ سے پہلے بھی یہاں بہت سے پیغمبر گزرہے ہیں ۔ ان سب کا دین بھی اسلام ہی تھا اگرچہ
لوگوں نے اس میں تحریف کردی ہے ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس ملک کو انگریزوں نے مسلمانوں
سے چھینا ہے، انگریزوں نے مسلمانوں کو ہی سب سے زیادہ برباد کیا ہے ۔ ہندوستان کی آزادی
کامطلب یہ ہے کہ دیار عرب، مصر وشام، سوڈان اور وہ ممالک جہاں مسلمانوں کی آبادی ہے،
وہ ہندوستان کی غلامی کی وجہ سے انگریزوں کے قبضے میں ہیں ۔ ہندوستان کے آزاد ہوتے
ہی ان پر انگریز کی گرفت باقی نہیں رہے گی ۔ اس لیے مسلمانان ہند کے لیے انگریز کی
غلامی سے آزادی کی جد وجہد میں تیزی لانا دوسرے ہندوستانیوں سے زیادہ ضروری او رلازمی
ہے ۔ ‘‘
لیکن ولی اللّٰہی حریت کے
وارث و امین مجاہد اعظم حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے جانشین حضرت مولانا احمد
مدنی متحدہ قومیت کے کتنے بڑے مبلغ تھے اس کا اندازہ آپ کے ان الفاظ سے بخوبی ہوجاتا
ہے:
’’ ہم باشندگان ہندوستان بحیثیت ہندوستانی ہونے کے ایک اشتراک رکھتے
ہیں ، جو کہ اختلاف مذاہب کے ساتھ ہر حال میں باقی رہتا ہے ۔ رنگوں اورقامتوں کے افتراقات
سے ہماری مشترکہ انسانیت میں فرق نہیں آتا اور اسی طرح ہمارے مذہبی اورتہذیبی اختلافات
ہمارے وطنی اشتراک میں خلل انداز نہیں ہوتے ۔ ہم وطنی حیثیت سے ہندوستانی ہیں اور وطنی
منافع کے حصول اور مضرات کے ازالہ کی فکر اور اس کے لئے جد وجہد مسلمانوں کابھی اسی
طرح فریضہ ہے جس طرح دوسری ملتوں اور غیر مسلم قوموں کا ۔ اس کے لئے سب کو مل کر پوری
طرح کوشش کرنا ازبس ضروری ہے اگر آگ لگنے کے وقت میں تمام گاؤں کے باشندے آگ نہ بجھائیں
گے، سیلاب کے وقت سب مل کر باندھ نہیں باندھیں گے تو گاؤں تباہ ہوجائے گا او رسبھی
کے لئے زندگی وبال ہوجائے گی ۔ اسی طرح ملک کے باشندوں ( ہندو،مسلم،سکھ ،عیسائی) کا
فرض ہے کہ ملک پر جو کوئی عام مصیبت پڑ جائے تومشترکہ قوتوں سے اسے دور کرنے کی کوشش
کریں ۔ مذہب کے اختلاف سے مشترکہ جد وجہد میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ‘‘( ایک خطبہ کا
اقتباس)
حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین
احمد مدنی الرحمہ کی پوری زندگی دین اسلام کی سر بلندی ، قرآن کریم، احادیث مقدسہ
کی تعلیمات اور اقدار اسلامی کے فروغ کی شبانہ روز کوششوں کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی
تحریک آزادی کی زبردست جد وجہد میں گزری ۔ آپ زہد و تقویٰ ، عبادت و ریاضت اور حق
و صداقت کا پیکر تھے ۔ آپ کی ذات گرامی اعلیٰ ایمانی، اخلاقی اور روحانی صفات کامجموعہ
تھی ۔
آپ کی پیدائش 6اکتوبر ،1879ء
بد ھ کی رات کو گیارہ بجے بانکر مءو ضلع اناوَ میں ہوئی تھی ، جب کہ آبائی وطن تحصیل
نانڈہ ضلع فیص آباد اتر پردیش ہے ۔ آپ کے والد کا اسم گرامی حضرت سید حبیب اللہ تھا
جونہایت نیک سیرت ، دیندار مسلمان تھے ۔ آپ حسینی سید ہیں ، آپ کے اجداد انیس پشت
پیشتر عرب سے ہندوستان آئے تھے ۔ 1892ء میں 13برس کی نہایت ذہین بیٹے حسین احمد کو
ان کے والد نے حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کی شاگردی میں دیوبند بھیج دیا ۔
حضرت مولانا حسین احمد مدنی
رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے بھائی مولانامحمد صدیق بھی دارالعلوم سے فارغ التحصیل تھے ۔
آپ امام و ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوئی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہو کر سالہا
سال تک عبادت وریاضت کے ہمراہ مالٹا میں اسیر فرنگ رہے ۔ مولانا سید احمد رحمۃ اللہ
علیہ مولانا صدیق احمد رحمۃ اللہ علیہ سے چھوٹے او رمولانا حسین احمد رحمۃ اللہ علیہ
سے بڑے تھے ۔ انہوں نے مدینہ منورہ میں ایک مدرسہ قائم کیا تھا جس میں دینیات کے علاوہ
صنعت و حرفت کی تعلیم بھی دی جاتی تھی ۔
شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ
کی نگاہ حق شناس نے اس غیر معمولی طالب علم کو پہلی ہی نظر میں پہچان لیا تھا ۔ تیرہ
سال کے بچے نے اپنی غیر معمولی ذہانت اور جذبہَ خدمت گزاری سے استاذ کی خصوصی توجہ
حاصل کرلی ۔ شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ اسے اپنی اولاد کی طرح چاہتے تھے ۔ اگرچہ اپنی
گوناگوں مصروفیات کی وجہ سے طلبا ء کو درس دینے کا وقت حضرت شیخ الہند کونہیں ملتاتھا
لیکن حسین احمد ان کا وہ چہیتا او رپسندیدہ شاگرد تھے جسے انہوں نے خاص طور پر پڑھایا
اور اس طرح تربیت فرمائی جیسے ایک ماہر فن بیش بہا ہیرے کو تراشتا ہے ۔ حضرت مولانا
محمد میاں رحمۃ اللہ علیہ اپنی شاہکار کتاب ’ اسیر ان مالٹا‘ میں لکھتے ہیں :
’’ اس شاگرد رشید کی نیاز مند ی ، سعادت اور ایثار کی بھی یہ شان تھی
کہ ایک مرتبہ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں سے کسی نے فرمائش کی کہ بھنگی
سے نالی صاف کرادو، بھنگی نہیں ملا، مگر نالی صاف ہوکر دھل بھی گئی ۔ معلوم ہوا کہ
حسین احمد نے اپنے ہاتھ سے کیچڑ کو صاف کیا تھا ۔ ‘‘
اس غیر معمولی طالب علم نے
صرف سات سال میں علوم متدادلہ سے فراغت حاصل کر لی ۔ اس کے بعد آپ امام ربّانی حضرت
مولانا رشید احمد گنگوئی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہو کر ان کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے
۔ کچھ عرصہ بعد آپ کے والد نے مع اہل و عیال ہجرت کر کے حجاز مقدس جانے کا فیصلہ کیا
تو حسین احمد بھی ہمراہ تھے ۔ مکہ معظمہ میں حضرت امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ
کی دینی و روحانی سر پرستی حاصل ہوئی ۔ کچھ مدت بعد آپ کا خاندان مدینہ منورہ جاکر
بس گیا ۔ مولانا مدنی پانچ بھائی تھے: مولانا محمد صدیق، مولانا سید محمود ، مولانا
سید احمد اور سید جمیل احمد ۔ یہ وہی زمانہ تھا جب چند ماہ بعد حاجی صاحب کا انتقال
ہوا ۔ مدینہ منورہ میں اس مہاجر کنبے کو غربت وافلاس کی آزمائشوں سے گزرنا پڑا لیکن
مولانا حسین احمد رحمۃ اللہ علیہ ان کے والد او روالدہ نیزبھائی بہن سے اتنے صابر و
شاکر تھے کہ تمام مصائب صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کر لیے پھر دور آزمائش و ابتلا
ء ختم ہوا ۔ اکیس سال کی عمر میں مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ حرم نبوی میں
درس و تدریس کے فراءض انجام دینے لگے ۔ مولانا محمد میاں رحمۃ اللہ علیہ نے ’ تذکرہ
الرشید‘ کے حوالے سے مولانا عاشق الہٰی میرٹھی کا بیان ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے
کہ مولانا عاشق الہٰی علیہ الرحمہ سیاسی طو رپر مدنی سے اختلاف رکھتے تھے اس لیے مولانا
مدنی کے باب میں یہ خاص اہمیت کاحامل ہے ۔ حضرت مولانا عاشق الہٰی میرٹھی رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں :
’’ مولانا حسین احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے 1316ہجری میں امام ربانی
مولانا رشید احمد گنگوہی سے بیعت ہو کر والد اور بردران کے ہمراہ جد امجد کے بلدہَ
مدینہ منورہ میں اقامت اختیار کی ۔ مکہ معظمہ پہنچ کر حسب اجازت امام ربانی قدس سرہ
’ اعلی حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے رجوع کیا او راذکار تعلیم فرمودہ قطب العالم
پر بہمت تمام کار بند رہے ۔ اس زمانہ میں جو کچھ واردات مجیبہ و کیفیات غریبہ ظاہر
ہوتی رہیں ان کی اطلاع گنگوہ میں آستانہ عالیہ پر کرتے رہے ۔ یہاں تک کہ 1318ہجری
میں حضرت کا والا نامہ پہنچا کہ چند روز کے واسطے گنگوہ آکر مجھ سے مل جاتے تو بہتر
ہوتا ۔ اس فرمان والا شان پر مطلوب بن کر باوجود تنگ دستی و بے سرو سامانی کے مراجعت
ہندوستان کا قصد کرلیا ۔ باپ کا باقتضائے محبت جی چاہا کہ بھائیوں میں سے کوئی رفیق
سفرہوتا تواچھا تھا ۔ چھوٹے بھائی سید احمد صاحب جو ان کے دو چار مہینے آگے پیچھے
سلسلہ خدام میں داخل ہوئے تھے ۔ غلبہ شوق کے سبب فرضی ضروریات ذاتی و خانگی قائم کر
کے باپ سے ہمراہی برادر کی اجازت لے چکے تھے ۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔
بڑے بھائی محمد صدیق صاحب در پردہ خفیہ انتظام کر کے چھپ کر چند روز پہلے ہی روانہ
ہو لیے جس کی اطلاع بارہ گھنٹے بعد قریب مغرب ہوئی ۔ مجبوراً مولانا سید احمد کو ارادہ
منسوخ کرنا پڑا اور مولانا حسین احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ تنہا روانہ ہوئے ۔ جدہ میں
دونوں بھائی مل گئے اور حج بیت اللہ سے فارغ ہوکر گنگوہ پہنچے ۔ چند روز گزرے تھے کہ
امام ربانی نے ایک ایک جوڑایعنی ملبوس کرتہ اور پانجامہ دونوں بھائیوں کو عطا فرمایا
۔ چونکہ اس میں ٹوپی یا عمامہ نہ تھا اس لیے دونوں میں سے کسی صاحب نے دبی زبان سے
عرض کیا کہ ارشاد ہو توہم خدام اپنا اپنا عمامہ حاضر کریں ، اپنے دست مبارک سے عطا
فرما دیا جائے ۔ یہ سن کرحضرت نے سکوت فرمایا اور بمقتضائے ادب دونوں بھائی عطیہ قطب
عالم کو سر آنکھوں پر رکھ کر شکریہ ادا کرتے ہوئے اٹھ گئے ۔ تھوڑے ہی دنوں بعد دونوں
صاحب بلائے گئے اور حکم ہوا کہ اپنے اپنے عمامے لے آوَ ، جب دونوں صاحبوں نے اپنے
عمامے حاضر کیے توحضرت امام ربانی نے اپنے دست مبارک سے دونوںکے سروں پر باندھ کر ارشاد
فرمایا: ’’ جانتے ہو یہ کیا ہے;238;‘‘ مولاناصدیق صاحب نے دبی زبان سے عرض کیا کہ
’’ دستار فضیلت ‘‘ ارشاد فرمایا: ’’ دستار خلافت‘‘ امام ربانی قدس سرہ‘ کی قولی و فعلی
خلافت کے مجموعہ کی مثال میں آپ کے خلفاء کے اندر صرف یہی وہ حضرات پیش کیے جاسکتے
ہیں جن کے کمالات علمیہ و عملیہ اسی سے ظاہر ہیں کہ مدنی مہاجر اور بطحائی پیغمبر صلی
اللہ علیہ وسلم کے پڑوسی ہیں ۔ مولانا حسین احمد مدنی کا درس بحمد اللہ حرم نبوی میں
بہت عروج پر ہے اور عزت و جاہ بھی حق تعالیٰ نے وہ عطا فرمایا ہے کہ ہندی علماء کو
کیا معنی ،یمنی اور شامی بلکہ مدنی علماء کوبھی وہ بات حاصل نہیں ۔ آپ سرتاپا خلق،
مہمان نواز، غیور، باحیا اور بعض ان صفات حمیدہ سے متصف ہیں جن پر دیکھنے والوں کو
حیرت ہوتی ہے ۔ ‘‘
حضرت مولانا عاشق الہٰی میرٹھی
علیہ الرحمہ کی یہ تحریر حضرت مولانا حسین احمد مدنی کی علمی ، دینی اور روحانی عظمت
کی شہادت دے رہی ہے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ کی ذات گرامی اس عہد کے جید علمائے
کرام کے ساتھ ساتھ بزرگان دین کی تمام اعلیٰ خصوصیات سے آراستہ تھی ۔ مدینہ منورہ
میں قیام کے دوران اپنے استاذ محترم حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ سے آپ کے روابط
برابر قائم رہے اور جب ریشمی رومال تحریک کے افشا ہوجانے کے بعد آپ 1915ء میں حجاز
مقدس پہنچے اور انگریزوں نے گرفتار کر کے مالٹا میں اسیر کیا تو مولانا حسین احمد مدنی
بھی استاذ محترم کے ہمراہ گرفتار ہوئے تھے ۔ پانچ سال کے زمانہَ اسارت میں انہیں بڑے
بڑے صدمے اٹھانے پڑے ۔ آپ فرماتے ہیں :
’’ مالٹا کی اسارت کے زمانہ ہی میں پہلے والد صاحب کا ایڈر یا نوپل
میں انتقال ہوگیا جب کہ اس سے پہلے دونوں بھائیوں ، مولاناسید احمد صاحب اور عزیزم
محمود احمد سلمہ ، اور والد صاحب مرحوم کو ترکی حکومت نے شریف حسین کی بغاوت پر نظر
بند کرکے مثل دیگر ہندوستانیوں کے اور عربوں کے ترکی ممالک میں متفرق کردیا تھا ۔ اس
کے بعد صرف بچے اور عورتیں مدینہ منورہ میں باقی رہ گئی تھیں ان میں مولانا عبدالحق
صاحب مدنی کی ہمشیرہ بھی تھیں جو بھائی سید احمد صاحب سے منسوب تھیں ، اس لیے سب کی
خبر گیری دہی حسب استطاعت کرتے تھے ۔ اس زمانہ میں میرے بچے اشفاق احمد اور اس کی والدہ
کا مدینہ منورہ میں ہی انتقال ہوگیاتھا ۔ ‘‘
1920ء میں رہائی کے بعد آپ شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ہندوستان
پہنچے ۔ اس وقت تک آپ کے دل میں وطن عزیز کی آزادی کا جذبہ شدید صورت اختیار کر چکا
تھا ۔ آپ پھر لوٹ کر اپنے بھائیوں کے پاس عرب نہیں گئے اور تحریک آزادی میں پورے
جوش و خروش کے ساتھ شامل ہوگئے ۔ اس وقت اپنے جذبات و احساس کا اظہار شیخ الاسلام اپنے
ایک مکتوب میں اس طرح فرمایا:
’’انگریز روئے زمین پر اسلام اور مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں ۔
وہ اسلام او رمسلمانوں کو صفحہَ ہستی سے مٹانے کے لیے ہر ظلم وبے حیائی اور ہر بدعملی
کونہ صرف جائز بلکہ ضروری سمجھتے ہیں او رنہ صرف انگریز بلکہ یورپ کی تمام قوتیں ایشیا
اور افریقہ کے باشندوں کو نہ انسان سمجھتی ہیں نہ ان کے حقوق کو انسانی حقوق جانتی
ہیں ۔ ہندوستان کو دنیا میں سب سے بڑا دشمن انگریز ہے ۔ اس نے جس قدر ہندوستانیوں کو
نقصان پہنچا یا ہے، اس کے معاشی ذراءع ان کے اخلاق ، ان کی تہذیب اور ان کے علوم وفنون
کو برباد اور تباہ کیا، نہ زمانہ ہائے گزشتہ میں کسی قوم نے اس درجہ نقصان پہنچایا
،اور تباہ و برباد کیا نہ دور حاضر میں ۔ ہندستان انگریز وں کی کلیدی طاقت اور ان کے
غلبہ اور تسلط کا سر چشمہ ہے ۔ جب تک ہندوستان انگریزوں کے چنگل سے رہائی نہ پالے،
نہ ہندوستان خوشحال ہوسکتا ہے نہ وہ ملک اطمینان کا سانس لے سکتے ہیں جو انگلستان او
رہندوستان کے راستہ میں پڑتے ہیں ۔ ہندوستان کو آزاد کرانے کی کوشش صرف ہندوستانیوں
کی نہیں بلکہ پوری نوع انسانی خصوصاً پسماندہ انسانوں اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑی
ہوئی اقوام کی سب سے بڑی خدمت ہے ۔ ‘‘ ( مکتوبات شیخ الاسلام
اپنے وطن کی آزادی کاجذبہ
کس طرح ان کے ذہن پر چھا گیا تھا ۔ اس کا اندازہ ان کے اس خط سے ہوسکتا ہے جو آپ نے
اپنے ایک مدنی دوست کو تحریر فرمایا تھا ۔ اس خط میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم
کے حرم پاک سے روحانی عقیدت اور محبت اور اپنے بھائیوں کی جدائی کے صدمے کو برداشت
کرتے ہوئے آزادی وطن کی شدید آرزو ظاہر کی ہے ۔ آپ نے لکھ :
’’ جس صورت میں بھی مسلمانوں کا نفع ہو، ہر محبوب سے زیادہ محبوب ہے،
اسی لیے میں نے اس دور درواز کی سرزمین کے قیام کو اختیار کیا،باوجود یہ کہ مدینہ منورہ
اور آقائے مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل مدینہ اور اپنے بھائیوں کی تڑپ برقرار
رہتی ہے ۔ ‘‘ ایک اور تحریر میں فرماتے ہیں : ’’ اللہ تعالیٰ عز و جل اور اس کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا اور خوشنودی اور دین کی خدمت اصل خدمت ہے، جہاں یہ مقصدحاصل
ہو، اپنی مراد حاصل ہے ۔ ‘‘ اسی زمانہ میں حضرت مولانا ابوالکلام آزاد کلکتہ میں سرگرم
تھے ۔ خلافت کمیٹی کی جد وجہد شباب پر تھی ۔ مدرسہ عالیہ کلکتہ کے طلبا ء نے تحریک
ترک موالات کی ترغیب پر مدرسہ چھوڑ دیا ۔ اس پر مولانا آزاد کی خواہش تھی کہ وہاں
ایک آزاد مدرسہ قائم کیا جائے جس کے لیے شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ سے درخواست کی
۔ حضرت انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ یا کسی او راہم شخصیت کو اس مدرسے میں درس و
تدریس کا فریضہ انجام دینے کے لیے بھیجا جائے ۔ اس کے لیے مولانا حسین احمد مدنی کا
انتخاب ہوا ۔ شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ اس وقت کافی علیل تھے پھر بھی آپ دور دراز
مقامات پر جاکر آزادی کی تحریک میں جوش اور ولولہ پیدا کررہے تھے ۔ جہاں خلافت کمیٹی
کی سرپرستی میں دینی اور انقلابی مدرسہ نا خدا مسجد میں قائم ہوا تھا ۔ اس مدرسے کے
ناظم مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی رحمۃ اللہ علیہ تھے ۔ مولانامدنی کلکتہ کے لیے روانہ
ہوئے لیکن معلوم ہوا کہ امروہہ میں سنی شیعہ تفرقہ زوروں پر ہے ۔ آپ نے کلکتہ کاسفر
ملتوی کردیا اور امروہہ پہنچے جہاں آپ نے ایسی موَثر تقاریر کیں کہ دونوں فرقوں میں
اتحاد پیدا ہوگیا ۔ ابھی آپ کلکتہ کے لیے روانہ ہونا ہی چاہتے تھے کہ دہلی سے حضرت
شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کی خبر آگئی ۔ شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ وہاں
جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تاسیس کے لیے تشریف لے گئے تھے اور وہاں چند دن صاحب فراش رہ
کر 30نومبر،1920ء کو اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے ۔ ان کا جنازہ دیوبند لایا گیا ۔ امروہہ
سے دیوبند میں مولانا مدنی کو فوراً گاڑی نہیں مل سکی اور وہ تدفین کے بعددیوبند پہنچے
۔ چونکہ آپ کو حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کا سچا جانشین تسلیم کیا جاتا تھا اس
لیے آپ سے گزارش کی گئی دارالعلوم کی ذمہ داریاں سنبھالیں ، لیکن آپ استاذ مرحوم
کے حکم کا خیال کر کے کلکتہ روانہ ہوگئے ۔ وہاں تحریک خلافت اپنے شباب پر تھا ۔ شہراورنواحی
علاقوں میں آئے دن جلسے ہورہے تھے ۔ مولانامدنی رحمۃ اللہ علیہ ان میں شرکت فرمائے
۔ ان کی پرجوش او رموَثر تقریروں نے انگریزی حکومت کو بدحواس کردیا ۔ اب مولانامدنی
رحمۃ اللہ علیہ یوپی اور دوسری ریاستوں کے دورے کرنے لگے جب کہ آپ کے زور خطابت سے
تحریک آزادی میں شدت پیدا ہوگئی ۔ کراچی کے بہت بڑے جلسے میں مولانا نے زبردست باغیانہ
اور انقلابی تقریر کی جس پر آپ کومولانامحمد علی جوہر اور ان کے بھائی مولاناشوکت
علی کے ساتھ گرفتار کرلیا گیا ۔ وہیں ان پر مقدمہ چلا اور اس مقدمہ میں انگریز فوج
نے آپ کو تحریری بیان دینے کامطالبہ کیاتھا ۔ انگریزوں کی عدالت میں آپ کا وہ تحریری
بیان تحریک آزادی کی تحریک کا ناقابل فراموش شہ پارہ ہے جس میں آپ نے قرآن کریم
، احادیث مقدسہ اور اسلامی تاریخ او رعلمائے سلف کے فتاویٰ کے حوالوں سے جہاد آزادی
کاجواز پیش کرتے ہوئے برطانوی سامراج کی غیر انسانی چیرہ دستیوں اور بے ایمانیوں کو
اجاگر کیاتھا ۔ عدالت میں مردانہ وار اپنا بیان پڑھتے ہوئے انہوں نے کہاتھا : ’’ اسلام
کا حکم یہ ہے کہ مسلمان بادشاہ کی اطاعت اسلام کے اندر رہ کر کرسکتا ہے ۔ میں نے اپنے
بیان میں اب تک جو کچھ کہا ہے وہ دائرہ اسلام میں داخل ہے او رملکہ وکٹوریہ کے بھی
اعلان کے اندر ہے لہٰذا اگر ہم کو اسلام کی وجہ سے ایذا پہنچائی گئی تو سات کروڑ مسلمان
اس بات پر غور کریں کہ آیا ان کو مسلمان بن کر رہنامنظور ہے یا گورنمنٹ کی رعایا بن
کر، اسی بائیس کروڑ ہندو بھی غور کرلیں کہ ان کو کیا کہنا ہے کیونکہ جب مذہبی آزادی
چھینی جائے تو سب کی چھینی جائے گی ۔ اگرلارڈریڈنگ ( اس وقت گورنر جنرل) اس لیے بھیجے
گئے ہیں کہ قرآ ن کو جلادیں ، حدیث شریف کو مٹا دیں اور کتب فقہ کو برباد کردیں تو
سب سے پہلے اسلام پر اپنی جان قربان کرنے والا میں ہوں ۔ ‘‘
جس وقت آپ نے اپنا بیان ختم
کیا ، مولانا محمد علی جوہر نے جزاک اللہ کہہ کر آپ کی دست بوسی کی ۔ کھچا کھچ بھری
عدالت میں نعرہ َ تحسین گونج اٹھا ۔ انگریز عدالت نے علی برادران اور دوسرے ساتھیوں
سمیت آپ کو دو سال قید سخت کی سزا سنائی گئی ۔ جیل میں آپ پر بہت سختیاں کی گئیں
جس پر مہاتما گاندھی نے اپنے اخبار ’ ینگ انڈیا‘ میں مضامین لکھے جس سے جیل میں سیاسی
قیدیوں کے ساتھ سختیاں کم ہوگئیں ۔ جیل سے رہائی کے بعد 1923ء میں آپ آسام تشریف
لے گئے ۔ آپ سے سلہٹ میں اعلیٰ یافتہ انگریزی داں مسلمانوں کو ان کی خواہش کے مطابق
اسلامی تعلیم کا سلسلہ شروع کرنے کے ساتھ ساتھ آپ نے بنگال اور آسام کی جہد آزادی
میں عملی حصہ لیا ۔ آپ ان ریاستوں کے گاؤں گاؤں جاکر عوام کوآزادی وطن کے لئے بیدار
اور منظم کیا ۔ یہی وہ زمانہ تھا جب چوری چورا ( ضلع گورکھپور) کا تاریخی واقعہ ظہور
پذیر ہوا جب 5فروری،1922ء کو گاؤں والوں نے پولیس تھانے میں آگ لگا کر چھ سات سپاہیوں
کو زندہ جلادیا تھا ۔ اس وقت زیادہ تر بڑے رہنما جیلوں میں تھے جن میں گاندھی جی اور
پنڈت جواہر لال نہرو بھی تھے ۔ ستمبر 1924ء میں گاندھی جی نے اپنا تاریخی مرن برت شروع
کیا تھا ۔ جس کے بعد انہیں رہا کردیا گیا تھا ۔ گاندھی جی کی تحریک ترک موالات کے سلسلہ
میں قید کیے گئے ۔ آریہ سماجی لیڈر سوامی مسلمانوں کی شدھی کرنے کی تحریک شروع کردی
۔ اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر مونجے نے بھی اسلام مخالف سرگرمیاں تیز کردیں ۔ پنجاب کے سرمیاں
فضل حسین نے ہندو راجپوتوں میں تبلیغ کی آواز بلند کی ۔ ان تحریکوں سے آزادی کی تحریک
کو بے حد نقصان پہنچا ۔ ترکی میں خلافت اسلامیہ کو برباد کرنے کے احتجاج میں جو خلافت
تحریک شروع ہوئی تھی اور کانگریس کو جس سے زبردست تقویت حاصل ہوئی تھی اس سے ہندو مسلم
اتحاد کی جو فضا بنی تھی وہ انگریز کی شاطرانہ سیاست کی وجہ سے ختم ہوگئی ۔ انگریز
پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی پالیسی میں کامیاب ہوگیا تھا، لیکن حضرت مولانامدنی رحمۃ
اللہ علیہ اس دل شکن صورت حال سے دل برداشتہ نہیں ہوئے ۔ وہ اور دوسرے زعمائے ملت جیسے
علی برادران او رمولاناحسرت موہانی وغیرہ کے ساتھ آپ نے سودیشی تحریک اور ولایتی سازو
سامان کے مقاطعے کی تحریک کو تقویت بخشی ۔ گاندھی جی کو اس سے بے حد تقویت ملی ۔ آپ
نے پورے ملک میں جا جا کر مجاہدین آزادی کا حوصلہ بڑھایا ۔ آپ کے خطبا ت نے عوام
میں زبردست بیداری پیدا کردی ۔ آپ نے کم از کم بارہ برسوں تک دوہری ذمہ داریاں نبھائیں
۔ آپ دارالعلوم کے شیخ الحدیث کی حیثیت سے درس و تدریس کامقدس فریضہ انجام دیتے اور
سیاسی سرگرمیاں بھی جاری رہتیں ۔ دور دراز شہروں کے اسفار کا سلسلہ کبھی نہیں تھمتا
تھا ۔ آزادی وطن کی ان سرگرمیوں میں آپ کو مخالفین کی تنقید اور تضحیک کابھی نشانہ
ہونا پڑا اور جسمانی طور پر بھی حملوں کا ہدف بننا پڑا لیکن آپ نے جس عالی حوصلگی
اور شان عزیمت کے ساتھ سینہ سپر ہوکر آزادی کے مشن کو جاری رکھا وہ ایک شاندار نظیر
کی طرح تاریخ کے صفحات پر روشن ہے ۔
1931ء میں گاندھی جی لندن میں برطانوی حکومت کے ساتھ کانفرنس کر کے
خالی ہاتھ لوٹے تھے ۔ کانگریس نے کچھ عرصہ بعد پر جوش تحریک شروع کی ۔ گاندھی جی گرفتار
کر لیے گئے ۔ کانگریس کوبدنام زمانہ آرڈنینس کے تحت غیر قانونی قرار دے دیا گیا ۔
کانگریس نے ورکنگ کمیٹی توڑ کر پارٹی کے ڈکٹیٹرنامزد کردئیے جو ایک کے بعد ایک میدان
عمل میں آتے اور گرفتار کرلیے جاتے ۔ ہوتا یہ تھا کہ پارٹی ایک تاریخ مقررکرتی کہ
فلاں دن فلاں ڈکٹیٹرصاحب عوامی جلسے کومخاطب کریں گے، پولیس اس سے پہلے ہی لوگوں کی
گرفتاریاں شروع کردیتی او رجلسے کی نوبت نہ آتی ۔ حضرت شیخ الاسلام بھی ڈکٹیٹر نامزد
ہوئے ۔ آپ جولائی 1933ء کے ایک دن دہلی کے لیے روانہ ہوئے ۔ ٹرین کچھ ہی اسٹیشن پار
کرسکی تھی کہ پولیس افسروں نے آپ کو اتار لیا ۔ ان دنوں آپ کے پیروں میں پھوڑے نکلے
ہوئے تھے ۔ چلنے میں سخت تکلیف ہوتی تھی ۔ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ
نے آپ کو دہلی جانے سے منع بھی کیا تھی لیکن شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ جہاد آزادی
کے بہادر سپاہی تھے ۔ انہوں نے اس طرح کئی بار انتہائی بیماری کے عالم میں بھی دور
دراز کے سفر کیے تھے اور تکلیفیں اٹھا کر بھی اپنا جہاد جاری رکھا تھا ۔ آپ از اوّل
تا آخر ہندو،مسلم سکھ اتحاد کے ساتھ آزادی وطن کے لیے کوشاں رہے ۔ انہوں نے ہر اس
مرحلے کامقابلہ سینہ تان کر کیا ۔ جب انگریز کی گندی سیاست نے ہندووَں او رمسلمانوں
کے مذہبی فرق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تحریک آزادی کو ختم کردینے کی کوشش کی ۔ علامہ
اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے اس تصور کو بھی تسلیم نہیں جو مسلم قوم کی دوسری قوم سے علیحدہ
شناخت اور تشخص پر مبنی تھا ۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا وہی نظریہ مسلم لیگ کے
لیے نظریاتی قوت تھا اور شاعر مشرق مصور پاکستان قرار پائے ۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ
علیہ نے آپ کو کئی تاریخی ;180;خطوط لکھ کر ان کی تحریک کا رخ موڑنے کی کوشش کی لیکن
آپ کے خیالات کسی طر ح تبدیل نہیں ہوئے ۔ آپ تقسیم وطن کو بطور خاص مسلمانوں کے لیے
بے حد تباہ کن تصور کرتے تھے ۔ آج آزادی کے60برس بعد اگر ہم پاکستان کی صورت حال
اور اس کی غیر اسلامی دہشت گردی کی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں پر پڑنے والی منفی اثرات
کو دیکھیں تو ہ میں اپنے عظیم رہنماؤں کی سیاسی بصیرت اور دو ر اندیشی پر حیرت ہوتی
ہے ۔
اپریل 1942 ء میں بچھراؤں
کے جلسے میں کی گئی ایک شعلہ بار تقریر کے بعد آپ کو گرفتار کر لیا گیا ۔ آپ کو اٹھارہ
ماہ کی قید او رپانچ سوروپیہ جرمانے کی سزا سائی گئی ۔ یہ وہ وقت تھا جب تحریک آزادی
اپنے شباب پر تھی ۔ جنوری 1943ء میں آپ آلہٰ آباد کی نینی جیل میں تھے جہاں ایک
جیل افسر نے آپ کے ساتھ بدتمیزی کی جس سے جیل کے تمام قیدیوں میں بے چینی پھیل گئی
او رجیل سے باہر دور دور تک صدائے احتجاج بلند ہونے لگی، جس سے گھبرا کر حکومت نے اعلان
کیا کہ انکوائری کے بعد اگر الزام درست نکلا تو اس بدلگام افسر کو برخاست کردیا جائے
گا جس نے مولانا کے ساتھ ایسا نازیبا برتاوَ کیا ۔ اس افسر نے ملازمت جانے کے ڈر سے
آپ کے قدم پکڑ کر معافی مانگ لی، آپ نے اسے معاف فرما دیا او رحکام بالا کو پیغام
بھیجا کہ افسر مذکور کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے کیونکہ میں نے اسے معاف کردیا
ہے ۔ رہائی کے بعد رفقاء دارالعلوم کا منشا تھا کہ جیل کی زیادیتوں نے آپ کی صحت پر
بڑا اثر ڈالا ہے اس لیے کچھ دن آپ آرام سے دیوبند میں ہی رہیں ، لیکن آپ رہا ہوتے
ہی سلہٹ روانہ ہوگئے اور ڈیڑھ ماہ تک وہاں رہ کر اپنے شاگردوں کی تربیت فرماتے رہے
۔ 1946ء میں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں آپ نے دن رات کام کیا تھا ۔ مسلمان
مسلم لیگ کے نشہ آور پروپیگنڈے کا شکار ہوچکے تھے ، آپ نے تقریباً سارے ملک کے انتخابی
دورے کیے او رپوری طاقت سے تقسیم کے المیے سے ملک کو بچا نے کی کوشش کی ۔ جمعیۃ علما
ء ہند کے پلیٹ فارم سے آپ نے جان کی بازی لگا کر یہ مہم پوری کی ۔ پنجاب میں آپ پر
لیگیوں نے زبردست پتھراوَ اور جان لیوا حملے تک کیے ۔ انتخابات کے بعد آپ مسلم پارلیمانی
بورڈ کے صدر منتخب ہوئے ۔ 23مارچ،1946ء کو لارڈ پیتھک لارنس وزیر ہندوستانی امور اور
سر اسٹیفورڈ کی قیادت میں حکومت برطانیہ کا وزارتی مشن ہندوستان آیا ۔ جناح نے ڈائریکٹ
ایکشن کا اعلان کردیا ۔ بنگالی میں نوا کھالی کا بدترین قتل عام برپا ہوا ۔ برطانوی
سازش نے بالآخر 15اگست 1947ء کو آزادی کی دولت ہندوستانیوں کے سپرد کردی لیکن اس
کے ساتھ ہی تقسیم کا ایسا زخم بھی دے دیا جو مادر ہند کے خوبصورت جسم پر دائمی ناسور
ثابت ہوا ۔
’’ دیوبند کی سیاسی فکر سے وابستہ علماء کی جماعت نے مسلم لیگ کی شدید
مخالفت کی اور قیام پاکستان کے نعرے کو اسلام مخالف قرار دیا ۔ دیوبند نے جداگانہ قومی
شناخت کے تصور کو مسترد کیا اور اپنی فکر اور رویے سے متحدہ قومیت کی حمایت اور وکالت
کی اور مذہبی بنیاد پر ملک کی تقسیم کو گوارا نہیں کیا ۔ شیخ الاسلام مولانا حسین مدنی
رحمۃ اللہ علیہ نے جب بیان دیا کہ ’’ قوم اوطان سے بنتی ہیں ‘‘ تو اس وقت علامہ اقبال
رحمۃ اللہ علیہ کی جو اضطرابی کیفیت تھی، اس کا بیان پروفیسر فتح محمد ملک کی زبانی
یوں ہے’’ ایک روز اخبارات کے سرخیاں سناتے وقت وہ یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا کہ اقبال
رحمۃ اللہ علیہ بار بار ایک ہی خبر سنانے کا تقاضا کر رہے تھے ۔ اس نوجوان طالب علم
( میاں محمد شفیع ) نے جب یہ دیکھا کہ یہ جملہ سن کر کہ ’’ اقوام اوطان سے بنتی ہےں
‘‘ علامہ کا ہاتھ وہیں کا وہیں رک گیا ۔ ابھی انہوں نے ایک ہی لقمہ توڑاتھا کہ یہ فقرہ
کان میں پڑا تو انہوں نے استفسار فرمایا کہ کیا واقعی یہ مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ
اللہ علیہ کا قول ہے ۔ جب اس نوجوان نے اثبات میں جواب دیا تو انہوں نے لقمہ واپس پلیٹ
میں رکھ دیا اور چاہا کہ وہ اس پوری خبر کوباربار پڑھے ۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ سنتے
رہے اور وہ ان کے چہرے پر درد و کرب کے آثار کونمایاں تر ہوتے دیکھتا رہا ۔ اس صبح
انہوں نے نہ کسی او رخبرکی طرف دھیان دیا او رنہ ہی ناشتہ کیا‘‘ ۔ علامہ اقبال رحمۃ
اللہ علیہ نے اس وقت ایک نظم لکھی او ران کا اضطراب ہلکا ہوا ۔ ’’ احسان لاہور‘‘ میں
یہ نظم چھپی:
عجم ہنوزنداند رموز دیں ورنہ
زدیوبند ، حسین احمد این چہ
بوالعجمی است
سرور برسر منبر کہ ملت از
وطن است
چہ بے خبرزمقام محمد عربی
است
بمصطفیٰ برساں خویش راکہ دیں
ہمہ اوست
اگر اونہ رسیدی تمام بولہبی
است
مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ
اللہ علیہ نے 1940ء میں ’’ متحد ہ قومیت او راسلام‘‘ کے عنوان سے ایک کتابچہ تحریر
کیا ۔ اس کتاب کی بابت پروفیسر فتح محمد ملک نے لکھا ہے ’’ اس کتاب میں انہوں نے متحدہ
ہندوستانی قومیت کی بنیاد پر اکھنڈبھارت کے کانگریسی موقف کے اسلامی جواز پیش کر رکھے
ہیں ۔ مولانا نے یہ ثابت کر نے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کا تصور اور پاکستان کی تحریک
ہر دو اسلام کے منافی ہیں اس لیے اسلامیان ہند کومسلم لیگ کے بجائے انڈین نیشنل کانگریس
میں شامل ہوکر اپنے وطن ہندوستان کو متحد رکھنا چاہئے ۔ ‘‘ حقانی القاسمی ( دارالعلوم
دیوبند،ادبی شناخت نامہ)
اس وقت جب سرحد کے دونوں طرف
انسانی تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام جاری تھا ۔ شیخ الاسلام صبر و رضا کا پیکر بنے ہوئے
ہندوستانی مسلمانوں کی ہمت اور حوصلے سے کام لے کر حملہ آور وں کا مقابلہ کرنے اور
اپنی زمین پر ہر قربانی دے کر ڈٹے رہنے کی تلقین کررہے تھے ۔ آپ کی کوششوں سے ہی مغربی
اتر پردیش سے عامۃ المسلمین نے بہت کم ہجرت کی اور اس خطے میں مسلمانوں کی معتدبہ موجودگی
کے باعث پاکستانی تارکین وطن اس خطے میں جم نہیں سکے وگرنہ جس طرح مشرقی پنجاب اور
دہلی کے بعض حصوں سے مسلمانوں کا استحصال کر کے ان کا سینکڑوں مساجد مقابر اور مدارس
کو برباد کر دیا گیا ۔ اگر پرانی دہلی میں مسلمان نہ رہے ہوتے تو جامع مسجد بھی نہ
بچی ہوتی ۔ جہاں تک سہارنپور ، میرٹھ ، مظفر نگر وغیرہ علاقوں کا سوال ہے ۔ یہ وہ خطہ
ہے جواسلامی تہذیب و روایات کامرکز ہے ۔ یہاں دارالعلوم او رمظاہر علوم سمیت ایسے متعدد
دینی ادارے ہیں جن کی بین الاقوامی حیثیت ہے ۔ یہ دینی مراکز حضرت مولانا حسین مدنی
رحمۃ اللہ علیہ جیسے قوم پرست علماء کی وجہ سے ہی زندہ و تابندہ ہیں ۔ جس وقت ملک سے
مسلمان سر پر پاؤں رکھ کر ترک وطن پر آمادہ تھے ۔ شیخ الاسلام کی وہ نا قابل فراموش
تقریر ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل ہے:
’’ 15اگست کے بعد بڑی حد تک ہم غیر ملکی حکومت کے جوئے سے آزاد ہوچکے
ہیں ۔ مگر انگریزی سیاست اب تک ہمارے اندر کام کررہی ہے ۔ حکومت کی پرانی مشین اسی
طرح موجود ہے ۔ پرانی حکومت کے کارندوں ، راجاؤں ، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی
ریشہ دوانیوں نے ہمارے وطن کو فساد اور قتل و غارت گری کے جہنم میں جھونک دیا ہے ۔
ان سازشوں کے سامنے حکومتیں مفلوج او رملک کے خیرخواہ بے بس ہوگئے ہیں ۔ اب یہ تمہاری
طاقت ہی ان پر فتح پاسکتی ہے اگر تم حالات کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لو اور اللہ پر بھروسہ
کر کے فسادیوں کامقابلہ کرو ۔ آج خوف اور بزدلی کا جو عالم ہے اس کے تصور سے بھی شرم
آتی ہے ۔ گھروں میں بیٹھے ڈرتے ہو، راستہ چلتے ڈرتے ہو ۔ اپنی بستیوں میں رہتے ہوئے
ڈرتے ہو ، کیا تم انہی بزرگوں کے جانشین ہو جو اس ملک میں گنی چنی تعداد میں آئے تھے
۔ آج تم چار کروڑ کی تعداد میں ملک میں موجود ہو، یوپی میں 85لاکھ سے زیادہ ہو اور
خوف کا یہ عالم ہے کہ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ رہے ہو ۔ آخر کہاں جارہے ہو;238; کیا
کوئی ایسی جگہ ڈھونڈلی ہے جہاں خدا کی گرفت سے بچ سکو ، جہاں موت تم کو نہیں پا سکے
گی ۔ ‘‘
زیرنظیر مضمون حضرت مولانا
شیخ الاسلام کی سیرت اور دینی ، علمی، روحانی اور سیاسی شخصیت کا محض اشاریہ ہے آپ
کے مختصر ترین تذکرے کے لیے بھی ایسے بہت صفحات کی ضرورت ہے ۔
ماہ اگست 1957 میں آپ نے
اس جہاں فانی سے پردہ فرمایا ۔ دیوبند کی خاک پاک کوآپ کی دائمی آرام گاہ ہونے کا
شرف حاصل ہے، رحمۃ اللہ علیہ ۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/sheikhul-islam-hazrat-maulana-hussain/d/2455