باب ٹیلر
8 فروری 2015
ایک اور ممتاز مسلم اسکالر نے اسلامی اصلاحات کی حمایت میں اپنی آواز بلند کی ہے اور اس عمل میں انہوں نے مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ پر مسلم اصلاح پسندوں کے پیغام کو بڑے پیمانے پر عام نہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ مڈل ایسٹ میڈیا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے لئے ((MEMRI میں ساؤتھ ایشیاء اسٹڈیز پراجیکٹ (SASP) کے ڈائریکٹر طفیل احمد نے دی نیو انڈین ایکسپریس کے لئے ایک مضمون میں 21ویں صدی میں تجدید و احیاء اور اسلامی اصلاحات کے لیے اسلامی رہنماؤں کے متعدد مطالبات کا حوالہ پیش کیا ہے۔
موصوف لکھتے ہیں: "مسلمان اپنی جانوں کی بازی لگا کر ISIS کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔ چونکہ مرکزی دھارے کی صحافت کا کردار اس معاملے میں بنیادی طور پر منفی ہے اسی لیے ان انسانیت سوز اقدامات سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان ISIS اور دیگر جہادی تنظیموں کے بارے میں خاموش ہیں۔ جبکہ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ "
اس کے بعد موصوف نے ایسے مسلم علماء کی متعدد مثالیں پیش کی ہیں جنہوں نے یا تو تحریری طور پر یا زبانی طور پر ISIS کی بربریت کے خلاف اپنی آوازوں کو بلند کیا ہے۔
مثال کے طور پر شاید موصوف کو افتتاحی پیراگراف میں صرف آئی ایس آئی ایس کی مذمت کرنے کے بجائے اس میں مکمل طور پر اسلام کو ہی شامل کر لینا چاہیے تھا، خیر یہ ایک چھوٹی سی بات ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی جہاد کی یہ بھیانک بربریت پر قدغن لگانے والی داخلی تحریکیں زور پکڑتی جا رہی ہیں۔
موصوف نے اپنے ادارتی مضمون کی شروعات ان الفاظ میں کی ہے "آکسفورڈ ڈکشنری میں تہذیب کے خاتمے سے پیدا ہونے والے معاشرتی حالات کے طور پر' بربریت کی تعریف موجود ہے۔"
2015 کے اوائل میں اسلامی اصلاحات کا مطالبہ کرنے والے ممتاز ترین ترجمانوں میں مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی اور اردن کے شاہ عبداللہ دوم کے نام قابل ذکر ہیں۔ مشرق وسطی کے دونوں رہنماؤں نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں اہم بیداری پیدا کی ہے۔ اپنے اسلامی ورثے کے باوجود دونوں رہنماؤں کا کردار امریکی صدر براک اوباما کے بجائے اسلامی جہاد کے خلاف لہر کا رخ کرنے میں کہیں زیادہ مؤثر رہا ہے۔
اوبامہ کے دفاع میں، تبدیلی کی صدا مسلم کمیونٹی کے اندر سے ضرور بلند ہونی چاہیے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان مسائل کو حل کرنے میں مغرب کا کتنا تعاون ہے۔ تاہم، ایران کے ساتھ مذاکرات کی اوبامہ کی ‘‘پس پردہ’’ اور ناعاقبت اندیش کوششوں سے تنازعات کم حل ہوئے اور ان میں شدت زیادہ پیدا ہوئی۔
موصوف نے استدلال کیا کہ سعودی صحافی جمال خاشوغی کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی میں "جمہوریت کوئی پسند نہیں بلکہ ایک ضرورت ہے"۔ خاشوغی کی بات بر حق ہے، لیکن ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ عرب ممالک کی نظروں میں جمہوریت کبھی جیفرسنیائی "جمہوریت" نہیں ہوگی جسے ہم مغرب میں جانتے ہیں۔
"مصر کے ٹی وی چینل القاهرة والناس نے انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن احمد ہرقان کا ایک انٹرویو نشر کیا جس میں اس نے کہا کہ ISIS وہی کر رہی ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ ہرقان نے کہا کہ اس نے اسلام کو اس لیے چھوڑ دیا کیوں کہ یہ ایک بہت سخت مذہب ہے اور ISIS جو کر رہی ہے وہ اس کاایک 'جسمانی مظہر'؛ اس سلسلے میں قرآنی آیات واضح ہیں۔ قرآن کہتا ہے 'ان کی گردنوں پر حملہ کرو'؛ بوکو حرام بھی خواتین کو بندی بنا کر اسی پر عمل درآمد کر رہے ہیں"۔
موصوف بالکل وہی کہہ رہے ہیں جو اوباما اور مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ کہنے سے کتراتے ہیں کہ "اسلام ایک انتہائی سخت مذہب ہے۔"
موصوف نے جہادیت کی مذمت کرنے والے لبنان کے حشام ملہم کا حوالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘ ISISالقاعدہ کا جواب ہو سکتا ہے لیکن یہ القاعدہ کی ہی طرح جدید سیاسی اسلام کی ناجائز پیداوار ہے جسے ترویج و توسیع حاصل ہوئی اور سازش نظریات کے ذریعہ اسے غذا فراہم کیا جا رہا ہے ’’۔
حقیقی عناصر پر مبنی ایک مزاحیہ تبصرہ میں موصوف نے ایک اسلامی صحافی کا حوالہ پیش کیا ہے جس نے کہا تھا کہ حکومتوں کو ISIS کے خاتمے کے لیے اطالوی مافیا کا سہارا لینا چاہیے۔
"اردنی کالم نگار زید نبلسی نے اسلام کو در پیش مسائلہ کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا اور یہ کہا کہ 'یہ آواز بلند کرنے کا وقت ہے' اور یہ ایک نامکمل جملہ ہے کہ : "اسلام بے قصور ہے"۔
نبلسی نے مزید توضیح پیش کرتے ہوئے کہا کہ سے کم 120 اسلامی علماء کرام نے ISIS رہنما ابوبکر البغدادی کو مبارکبادی میں خطوط لکھے۔ موصوف مزید رقم طراز ہیں "لوگوں کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے وہابیت کا ذکر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مبینہ اقوال پر مشتمل متعدد کتابوں میں موجود ہے۔"
وہابیت اسلام کی انتہائی سخت ترین شکل ہے جس پر سعودی عرب کی بنیاد رکھی گئی تھی، اور مذہب کی وہی شاخ ہے جس پر آئی ایس اپنے نظریات کے لئے انحصار کرتے ہیں۔
اپنے ادارتی مضمون کے اختتام میں موصوف طفیل احمد ISIS کی ایک تاریخی مثال کی طرف اشارہ کیا:
"عراق میں جہاں کہ ISISنے اپنا سر ابھارا ہے ، وہیں خوارج کے نام سے مشہور ایسے ہی متقی مسلمانوں کی ایک جماعت اسلام کے چوتھے خلیفہ حضرت علی کے دور میں ابھر کر سامنے آئی تھی۔ آئی ایس آئی ایس کی ہی طرح خوارج نے بھی ہزاروں مسلمانوں کو مرتد قرار دیکر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اس زمانے میں ماہر اسلامی فقہ امام ابو حنیفہ اسلام میں ارتداد قانون کی ان کی تشریحات پر کوفہ کے عراقی شہر میں خوارج کے کمانڈر زکہّ کو چیلنج پیش کیا تھا۔ آئی ایس آئی ایس سزائیں اسلامی مثالوں کے مطابق ہی طئے کرتے ہیں۔ مسلمان اسلام کی پیروی کریں گے، لیکن اسلامی فوجداری قانون کو کالعدم قرار دیا جانا چاہئے؛ ورنہ جہادیوں کے خلاف مسلم آوازیں غیر موثر ہو جائیں گی۔ "
اس میں حل کا ایک راز بھی پنہاں ہے۔ مسلمانوں کو داخلی سطح پر ہی اس کے خلاف آواز بلند کرنا ضروری ہے اور اس سلسلے میں امریکی صدر کو خامیاں تسلیم کرنا ہوگا تاکہ میڈیا ان کے بارے میں ایک حقیقی بیداری پیدا کرنا شروع کر دے ۔
ماخذ:
http://www.commdiginews.com/world-news/middle-east/muslim-voices-demand-islamic-reform-37495/
URL for English article: https://newageislam.com/islam-terrorism-jihad/muslim-voices-demand-islamic-reform/d/101904
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/muslim-voices-demand-islamic-reform/d/101975