ظفر عبداللہ
17اگست،2023
ہاشم پورہ -ملیانہ قتل
عام کے ساڑھے تین عشروں کے بعد ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لکھوندر سنگھ سود
نے’ملزمان کو مجرم قرار دینے کے لیے ثبوتوںکے فقدان ‘ کا حوالہ دیتے ہوئے سبھی کو
بری کر دیا۔ اب ریاست اترپردیش کی پیتل نگری مرادآباد میں۳؍
اگست ۱۹۸۰ء
کو ہونے والے بھیانک فسادات کے ۴۳
سال بعد الہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس ایم پی سکسینہ کی تشدد اور اس کی وجوہات
سے متعلق رپورٹ کو یوگی حکومت نے اتر پردیش قانون ساز اسمبلی میں پیش کیا ہے۔اگر
یوگی سرکار واقعی ان فسادات سے جڑے مجرموں کوسزا دلا نا چاہتی ہے تو امید کی جانی
چاہئے کہ آئندہ پچاس برسوں میں یعنی۲۰۷۳ءتک
کچھ نہ کچھ ہوہی جائے گا۔
آزادی کے بعد ملک میں
جتنے بھی مسلم کش فساد ہوئے ان کی تفتیش اورانصاف میں برسوں لگ جاتے ہیں اور تیسرا
مرحلہ جس میں متاثرین کی باز آباد کاری ہونی چاہیے ، حکومت وقت سے انہیں کچھ نہیں
ملتا -ہاشم پورہ قتل عام کے متاثرین کی مثال سامنے ہے،جو عدالتوں سے انصاف کے
منتظر ہیں۔ پولیس وہیں مستعد رہتی ہے جب معاملہ مسلمانوں کا ہو یا وہ اپنے حقوق کے
لئے جائز احتجاج و مظاہرہ کررہے ہوں تب ان کی چستی، پھرتی قابل دید ہوتی
ہے۔سب سے پہلے گالی،پھر لاٹھی اس کے بعد بلڈوزر پھر گرفتاری اور آنا فاناً میں
عدالت میں ان کے خلاف چارج شیٹ اور پولیس سے بھی زیادہ سرعت کے ساتھ فاضل جج کا
معاملہ پر فیصلہ۔ تاہم فسادات کے معاملوں میں پولیس کی تفتیش کچھوا چال اور انصاف
اس سے بھی زیادہ سست روی کا شکارہوجاتا ہے۔ گجرات میں۲۰۰۲ء کے فسادات کے دوران
نرودا گاؤں فساد میں ایک خصوصی عدالت نے۶۷ ملزمان کو بری کر دیا۔جج نے اپنے فیصلہ
میں کہا کہ ملزم کو سزا سنانے کے لیے’ کافی شواہد‘ نہیں ہیں۔ فرقہ وارانہ فسادات کے ملزمان کا
بری ہونا ملک میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔مرادآباد،ہاشم پورہ-ملیانہ،بھاگلپور،
گجرات وغیرہ فسادات کے حوالہ سے پولیس کے علاوہ مختلف تفتیشی ایجنسیوں اور حقوق
انسانی کی تنظیموں نے ثبوت و شواہد پیش کئے ۔ لیکن عدالت میں معاملہ پہنچتے ہی یہ
سبھی اوندھے منہ گرجاتے ہیں۔
فرقہ فسادات میں پولیس کی
تفتیش ، عدالتی ٹرائل وغیرہ کیسی رہتی ہے ، ایک کیس کی سماعت میں برسہا برس کیسے
نکل جاتے ہیں، اس کا اندازہ این سی آ ر بی سی کی رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے۔ نیشنل
کرائم رپورٹ بیورو(این سی آر بی) کے اعداد و شمار کے مطابق۲۰۱۷ء سے۲۰۲۱ء تک فرقہ وارانہ فسادات
میں گرفتار ہونے والوں میں سے صرف چھ فیصد مجرم قرار دیئے گئے۔۲۰۲۱ء میں سزا کی یہ شرح صرف
تین فیصد تھی۔ان فسادات کو بھڑکانے والوں یعنی اشتعال انگیز بیانات دینے والوں کی
سزا کی شرح اس سے بھی کم ہے۔ پانچ برسوں میں فسادات بھڑکانے کے الزام میں گرفتار
ہونے والوں میں سے صرف تین فیصدمجرم پائے گئے۔۲۰۰۲ءکے گجرات فسادات کی
یادیں۲۱
؍سال بعد بھی تازہ ہیں۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ۲۰۱۷ء
سے۲۰۲۱ء
کے درمیان کوئی ایک سال بھی ایسا نہیں تھا جب فرقہ وارانہ فسادات کے۳۰۰ ؍سے
کم کیسز درج ہوئے ہوں، یاسولہ سو سے کم لوگ گرفتار ہوئے ہوں۔۲۰۲۱ء میں ملک کی مختلف
عدالتوں میں فرقہ وارانہ فسادات کے ۵ہزار
۶۲۸ مقدمات زیر التوا تھے۔
زیادہ تر مقدمات میں مجرم اس لیے بری ہو گئے کیونکہ عدالت کے سامنے(یاپولیس کی
نااہلی کے سبب) ثبوت پیش نہیں کیے گئے۔ملک
بھر میں ہر سال فرقہ وارانہ فسادات کے کم و بیش۳۰۰ کیسز درج ہوتے ہیں۔۲۰۲۰ء میں صرف دہلی فسادات
میں۵۲۰
کیسز درج ہوئے تھے۔عام خیال یہ ہے کہ۲۰۰۲ء
کے گجرات فسادات کے بعد ملک میں کوئی فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوئے لیکن اعداد و
شمار کچھ اور کہتے ہیں۔۲۰۲۱ء
میں ہی ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کے۳۷۸
کیسز درج ہوئے جبکہ۲۰۲۰ء
میں یہ کیسز ۸۵۷
تھے۔ ان میں دہلی فسادات کے۵۲۰
کیسزشامل ہیں۔ ۲۰۱۷ء
اور۲۰۲۱ء
کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات کے سب سے زیادہ۶۳۳ کیسزبہار میں درج ہوئے
ہیں۔۲۰۲۰ء
اوواقعی۲۰۲۱ءکو
چھوڑ کر بہار میں ہر سال سب سے زیادہ فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں۔۲۰۲۱ءمیںفرقہ وارانہ فسادات
کے سب سے زیادہ کیسزجھارکھنڈ میں درج کیے گئے۔ وہیں۲۰۲۰ء میں دہلی فسادات میں سب
سے زیادہ۵۲۰ء
کیسز درج ہوئے۔
گجرات حکومت کا دعویٰ ہے
کہ۲۰۰۲ء
کے بعد سے ریاست میں کبھی فرقہ وارانہ تشدد نہیں ہوا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ۲۰۱۷ء سے۲۰۲۱ء کے درمیان گجرات میں
بھی فرقہ وارانہ تشدد کے۱۳۴
کیسز درج ہوئے ہیں۔ہر سال پولیس فرقہ وارانہ فسادات میں ہزاروں افراد کو گرفتار
کرتی ہے۔ لیکن پولیس کی تفتیش ایسی ہوتی ہے کہ قصورواروں کو سزا نہیں ملتی۔۲۰۲۱ء میں فرقہ وارانہ فسادات
میں۱۶۹۷
لوگوں کو گرفتار کیاگیا تھا جن میں صرف۵۴ ؍یعنی
محض تین فیصد قصوروار پائے گئے،۲۱۳
؍کو بری کر دیا گیا، جبکہ
بقیہ کیسز کو پولیس کی تفتیش یا عدالتوں کی چکّی میں گھونٹا لگایا جارہاہے۔ ۲۰۱۷ء سے۲۰۲۱ء تک کے پانچ سالہ اعداد
و شمار بتاتے ہیں کہ جن لوگوں پر فسادات بھڑکانے کا الزام ہے ان کی سزا کی شرح
فسادات میں ملوث افراد کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔اگر فساد بھڑکانے، نفرت انگیز
تقریر کرنے والوں کیخلاف پولیس ایمانداری سے بروقت اور مستعدی سے کارروائی کرے تو
دو فرقوں میں مار کاٹ کی نوبت ہی نہ آئے۔پولیس نے۲۰۲۱ء میں ہی ایسے کیسزمیں۱۶۹۵ افراد کو گرفتار کیا
تھا، لیکن صرف۶۷
کو ہی قصوروار پایا گیا بقیہ۱۳۳
کو عدالت دودھ کا دھلا قرار دیا۔ اسی طرح ۲۰۱۷ء میں فسادات بھڑکانے کے الزام میں۱۸۲۶ افراد کو گرفتار کیا گیا
لیکن صرف۲۰
کو ہی قصوروار پایا گیا ،یہ شرح محض ایک
فیصد ہے۔ہر سال ملک کی عدالتوں میں فرقہ وارانہ فسادات کے تقریباً پانچ ہزار سے
زیادہ کیسزکی سماعت ہوتی ہے اور ہر سال کی التوا کیسز کی تعداد بھی اتنی ہی ہے۔۲۰۱۷ء میں ملک کی مختلف
عدالتوں میں فرقہ وارانہ فسادات کے۴۹۳۹
کیسز کی سماعت ہوئی۔ ان میں سے۴۲۹۹
کیسز ایسے تھے جو گزشتہ سال سے زیر التوا تھے، اور کمال یہ کہ صرف۶۵ لوگ قصور وار پائے گئے۔
سال کے اختتام پر زیر التوا مقدمات کی تعداد۴۶۷۵ تھی،یعنی پورے ایک سال
میں عدالت نے صرف۲۶۴
مقدمات پر فیصلے سنائے۔ ۲۰۲۱ء
میں فرقہ وارانہ فسادات کے۵۶۸۱
کیسز عدالتوں میں پہنچے۔ ان میں سے۵۳۳۶
مقدمات گزشتہ سال سے زیر التوا تھے۔ سال کے اختتام پر۵۶۲۸ مقدمات زیر التوا
رہے۔یعنی پورے ایک سال میں عدالت نے صرف۵۳ مقدمات میں فیصلے سنائے جن میں صرف۱۹ مقدمات میں ملزمان کو قصوروار پایا گیا۔
سب سے زیادہ خراب حالت
فرقہ وارانہ فسادات کے ٹرائل کی ہے، جو انتہائی سست روی کا شکار رہتاہے، جن میں ثبوت
ملنا مشکل ہوتاہے اور طویل ٹرائل کے سبب رہے سہے ثبوت بھی ضائع ہو جاتے ہیں۔ اور
یہ سب کیسے ہوتاہے ، سبھی کو معلوم ہے۔ملک کی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی
تعداد پہلے ہی بہت زیادہ ہے۔ اس میں فرقہ وارانہ فسادات کے زیر التوا مقدمات ہی
پانچ ہزار سے زیادہ ہیں۔ پولیس کے تفتیشی عمل کے ماہرین کا کہنا ہے کہ فرقہ وارانہ
فسادات کے معاملات کی تفتیش بہت مشکل ہے۔ فسادات کے دوران افراتفری اور آتشزنی
میں اکثر شواہد کو تباہ کر دیا جاتا ہے۔بیشتر مقدمات میں تفتیش کی بنیاد متاثرین
کی گواہی ہوتی ہے لیکن کبھی کبھی مقدمہ اتنی طوالت اختیار کرلیتا ہے کہ ملزمان کو
ان گواہوں پر اثر انداز ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔ ایسے کیسز کو پولیس چارج شیٹ
فائل کرکے تب ہی عدالت میں لے جاتی ہے جب گواہ منحرف ہوجاتا ہے۔ مرادآباد فسادات
سے متعلق رپورٹ کو عام کیاجانا انتخابی اسٹنٹ کے علاوہ کچھ نہیں، اوراگر کچھ خوش
فہمی ہے تو ۵۰سال
اور انتظار کیجئے !
17 اگست،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism