New Age Islam
Thu May 15 2025, 07:21 PM

Urdu Section ( 25 March 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Blasphemy Conviction In Pakistan پاکستان میں توہین رسالت قتل معاملے میں سزائیں

نیو ایج اسلام۔اسٹاف رائیٹر

25مارچ،2024

پاکستان کی ایک ضلع عدالت نے تین لڑکیوں کو توہین رسالت کے الزام میں ایک مدرسے کی ٹیچر کے قتل کے لئے سزاؤں کا اعلان کیا ہے۔ ان تینوں نے مارچ 2022ء میں اپنی استانی کا مدرسے کے دروازے پر گلا ریت کر قتل کردیا تھا۔ رضیہ حنفی اور عائشہ نعمانی کو عدالت نے سزائے موت سنائی ہے اور عمرہ امان کو سزائے عمر قید دی ہے۔

تینوں لڑکیاں خیبر پختونخوا کے ڈیرہ اسماعیل خان کے مدرسے جامعہ فلاح البنات کی طالبات تھیں اور مقتولہ صفورہ بی بی اسی مدرسے میں استانی تھیں۔ غالباً صفورہ نے کسی مسلکی مسئلے پر اپنے نظریات کا اظہار کیا تھا جو ان طالبات کے نزدیک توہین رسالت کے زمرے میں آتا تھا۔ ورنہ ایک مدرسے کی استانی کو یہ اچھی طرح پتہ ہوگا کہ توہین رسالت قرآن کے نزدیک ایک گناہ ہے۔ اس واقعے کا ایک زیادہ تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ تینوں لڑکیوں نے عدالت کو یہ بتایا کہ ان کی ایک رشتہ دار کو خواب میں یہ بتایا گیا تھا کہ اس ٹیچر نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا ہے اس لئے اس کا قتل کرنے والے کو جنت الفردوس میں مقام ملے گا اسی خواب کی بنیاد پر تینوں نے اس ٹیچر کا قتل کردیا۔

پاکستان میں توہین رسالت اور توہین قرآن کے الزام۔میں مسلمانوں کے ذریعہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کا قتل ایک معمول بن گیا ہے اور ان پڑھ اور عالم ، حافظ قرآن اور مسجد کے امام بھی عوام کے ہاتھوں ہجومی تشدد میں مارے جاتے ہیں یا نامعلوم افراد کے ہاتھوں گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ صفورہ بی بی بھی عالمہ تھی اور لڑکیوں کو دینی تعلیم دیتی تھی لیکن اس کی شاگرداؤں نے اسے توہین رسالت کا مرتکب قرار دیا اور ایسا انہوں نے ایک خواب کی بنیاد پر کیا۔

توہین رسالت اور توہین قرآن یا توہین اسلام پر کارروائی کے لئے پاکستان میں سخت قوانین ہیں اور اس کی سزا موت ہے لیکن پاکستان میں توہین کے زیادہ تر معاملات عدالت میں فیصل نہیں ہوتے ۔ ان پڑھ لوگوں کا ہجوم کسی پر توہین کا الزام لگا کرپیٹ پیٹ کر ہلاک کردیتا ہے اور قانون ان ہجوم میں شامل افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتا۔زیادہ تر توہین کے مقدمات عدالت میں ثبوتوں کی عدم موجودگی میں خارج ہوجاتے ہیں اور ملزم عدالت سے بری ہوجاتے ییں۔ لیکن عدالت سے بے قصور قرار دئے جانے کے بعد انہیں انتہا پسند اسلامی تنظیموں سے وابستہ شوٹر سڑک پر ہلاک کردیتے ہیں ۔ پاکستان میں جس پر ایک بار توہین کا الزام لگ جائے اسے توہین کا مرتکب مان لیا جاتا ہے اور اس کا بچنا ناممکن ہوتا ہے۔ مسلمان توہین کے معاملے میں عدالت اور قانون کی کوئی ضرورت نہیں سمجھتے۔جبکہ دیگر اسلامی ممالک میں توہین مذہب کے معاملات قانونی عمل سے گزرتے ہیں۔ عوام کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہوتی۔ صرف پاکستان ، نائیجیریا اور بنگلہ دیش وہ اسلامی ممالک ہیں جہاں توہین کے ملزم کو ہجوم سزا دے دیتا ہے اور قانون بے بس تماشا دیکھتا ہے۔

گزشتہ فروری میں پاکستان کے لاہور کے اچھرا بازار میں ایک ہجوم نے ایک پڑھی لکھی خاتون کو گھیر لیا اور اس پر توہین قرآن کا الزام لگایا کیونکہ اس کے کرتے پر عربی حروف میں لفظ حلوہ لکھا ہوا تھا۔ ہجوم میں شامل ان پڑھ افراد کا خیال تھا کہ وہ کوئی قرآنی لفظ تھا۔ جبکہ وہ اردو بھی پڑھ سکتے تھے۔ لیکن ہجوم کا اس بات پر اصرار تھا کہ وہ کوئی قرآنی لفظ تھا۔خوش قسمتی سے علاقے کی خاتون اے ایس پی کو اس کی خبر ملی اور اس نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے ہجوم کے ہاتھوں بچا لیا لیکن اس خاتون کو مقامی ملاؤں سے تھانے میں معافی مانگنی پڑی۔

پاکستان۔میں توہین رسالت یا توہین قرآن کے الزام میں اکثر مسلمان ہی مارے جاتے ہیں کیونکہ پاکستان میں کچھ مذہبی اسکالروں نے تویین کے مسئلے پر سخت روئیے کی اشاعت کی ہے اور عام مسلمانوں میں اس نظرئیے کو قبولیت مل گئی ہے کہ توہین کے ملزم کی سزا موت ہے اور اس کے لئے کسی قانونی یا عدالتی چارہ جوئی کی ضرورت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ توہین کے ملزم کو ہجوم عین موقع پر ہی ہلاک کردیتا ہے۔ جبکہ قرآن میں اس طرح کا ہجومی تشدد فساد فی الرض کے تحت آتا ہے اور قرآن میں فساد کی تین سزائیں بیان کی گئی ہیں۔ اول ، شہر بدری ، دوئم مخالف سمت سے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دینا اور سوئم ، قتل کردینا۔

پاکستان میں ہجومی تشدد میں توہین کے الزام میں مارے جانے والے زیادہ تر لوگ بے قصور ہوتے ہیں لیکن انہیں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا۔ صفورہ بی بی کا جرم ثابت یی نہیں ہوا اور اسے اپنی بے گناہی ثابت کرنے یا اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ کسی کو یہ معلوم نہ ہوسکا کہ قتل کی وجہ کیا تھی۔اگر اچھرا بازار واقعے میں خاتون ملزمہ بچا نہ لی جاتی تو اس کا قتل بھی ناحق ہوتا لیکن ہجوم میں شامل افراد کی نشاندیی کرکے ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی ہمت قانون اور ریاست میں نہیں تھی۔ جبکہ قرآن میں جھوٹا الزام لگانے اور جھوٹی گواہی دینے کو بھی گناہ قرار دیا گیا ہے۔

چند سال قبل توہین مذہب کے معاملے میں ہجومی تشدد سے نپٹنے کے لئے عدالت نے نواز شریف حکومت کو یہ تجویز دی تھی کہ جھوٹا الزام لگانے والوں کو بھی قانون کے دائرے میں لایا جائے لیکن ان کی حکومت نے اسلامی تنظیموں کے دباؤ میں اس پر عمل نہیں کیا۔ پھر عمران خان برسر اقتدار آئے اور انہوں نے بھی دباؤ میں اس تجویز کو مسترد کردیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ لوگ توہین کے جھوٹے الزام میں مارے جاتے ییں۔ پنجاب کی وزیر اعلی مریم نواز نے اچھرا بازار واقعے میں خاتون اے ایس پی شہر بانو نقوی کی بہادری کی ستائش ایوان میں کی لیکن اس خاتون کو گھیر کر اس پر جھوٹا الزام لگانے والوں کے خلاف ایک لفظ کہنے کی ہمت نہیں جٹا پائیں۔

توہین مذہب کے معاملات پاکستان میں اتنے زیادہ ہونے لگے ہیں کہ کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ اس کی کس بات کو توہین کی حد میں لاکر یا تو اسے عدالت میں کھینچ لیا جائے گا یا اسے ہجومی تشدد کا نشانہ بنادیا جائے گا۔ ایک حافظ قرآن کو لوگوں نے اس لئے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا کہ اس کے ہاتھ سے قران چولہے پر گرگیا تھا اور اس کے کچھ اوراق جل گئے تھے۔ایک یونیورسٹی کے طالب علم مشعل خان کو طلبہ اور یونیورسٹی کے اسٹاف نے توہین کے الزام میں پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا۔ جنید حفیظ نامی ایک یونیورسٹی پروفیسر پر توہین کا الزام لگاکر جیلل بھیج دیا گیا۔ ان کا کیس لڑ نے کے لئے خوف سے کوئی وکیل تیار نہیں ہوا۔ ایک وکیل اور حقوق انسانی کارکن راشد رحمن ان کا کیس لڑنے کے لئے تیار ہوئے تو انہیں نامعلوم افراد نے گولیوں کانشانہ بنادیا۔ وار برٹن میں ایک ذہنی خلجان کے شکار شخص کو ہجوم نے تھانے سے باہر کھینچ کر ہلاک کردیا۔ اور قانون نے فسادیوں کے خلاف کچھ نہیں کیا۔ ایسے درجنوں معاملات ہیں جن میں ملزم کو بغیر کسی قانونی چارہ جوئی کے ہجوم نے یا نامعلو افراد نے ہلا ک کردیا اور اسلامی تنظیموں اور علماء نے کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 1990ء سے پاکستان۔میں توہین کے الزام میں قتل کئے جانے والے افراد کی تعداد 65 ہے۔ سماجی کارکن کہتے ہیں کہ پاکستان میں توہین کے قوانین کا استعمال ذاتی رنجش کی بنا پر اور اقلیتوں کے خلاف فرقہ وارانہ تعصب کی بنا پر ہوتا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کے علماء اس سنگین مسئلے کے تدارک کے لئے اصلاحی اقدامات کے حق میں آواز نہیں اٹھاتے جبکہ فساد فی الارض اور بہتان تراشی بھی اسلام میں ایک جر م ہے۔

نائیجیریا بھی ان ممالک میں ہے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ وہاں مسلمانوں اور عیسائیوں کی یکساں آبادی ہے۔ وہاں بھی توہین مذہب کے نام پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ ہجومی تشدد کے واقعات ہوتے ییں۔ 1999ء میں عبداللہ عمرو کوتوہین رسالت کے الزا م میں ایک ہجوم نے قتل کردیا۔2007ء میں ایک عیسائی معلمہ کو اس کے اسکول کے مسلم طلبہ نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا۔ اس کا قصور اتنا تھا کہ اس نے ایک تھیلے کو ہاتھ لگا دیا تھا جس میں قرآن رکھا تھا۔طلبہ کے نزدیک اس خاتون نے قرآن کو ہاتھ لگا کر قرآن کی بے حرمتی کی تھی۔2008ء میں ایک مسلم ہجوم نے ایک تھانے کو آگ لگادی اور پھر کئی گرجا گھروں کو آگ لگادی کیونکہ ایک عیسائی عورت نے جس پرقرآن کی بے حرمتی کا الزام تھا اس تھانے میں پناہ۔لی تھی۔ء 2008ء میں نائیجیریا کے کانو ریاست میں ایک مسلم شخص کو تویین رسالت کے الزا م میں ہجوم نے ہلاک کردیا۔۔

بنگلہ دیش میں بھی مبینہ توہین کے مرتکب افراد کو ہجوم کے ہاتھوں ہلا ک کرنے کے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں۔

افغانستان۔میں بھی توہین قرآن اور توہین رسالت کے تحت کئی افراد کو یا تو سزا ہوئی ہے یا پھر ہجومی تشدد کا شکار ہونا پڑا یے۔ 2015ء میں ایک 28سالہ خاتون کو ہجوم کے ہاتھوں ہلاک کردئے جانے کا ایک دلخراش واقعہ سامنے آیا تھا ۔۔ فرخندہ ملک زادہ ایک یونیورسٹی کی طالبہ تھی۔ وہ فرصت کے اوقات میں بچوں کو قرآن کی تعلیم دیا کرتی تھی وہ کابل میں جھاڑ پھونک کرنے والوں کے خلاف مہم چلاریی رھی تھی۔ ایک دن وہ کابل کے نواح میں واقع ایک۔مزار پر چلی گئی اور ایک جھاڑ پھونک کرنے والے شخص سے الجھ گئی۔غصے میں اس نے اس کی تعویڈ گنڈوں کی کتاب ہھاڑ دی۔ اس شخص نے یہ افواہ اڑا دی کہ فرخندہ نے قرآن کو جلا دیا ہے۔یہ افواہ پورے شہر میں پھیل گئی ۔لوگوں نے افواہ کی تحقیق کرنا ضروری نہیں سمجھا اور ایک دن اسے سڑک پر پکڑ کر ہاتھوں اور لاتوں سے اتنا مارا کہ اس کی موت ہوگئی۔اس کے کپڑے بھٹ گئے تھے۔اسی حالت میں ہجوم نے اسے جلا دیا۔کچھ افراد کو پولیس نے گرفتار کیا اور بعد میں معاملہ رفع دفع ہوگیا۔

اسی طرح 2007ء میں غوث زلمئے نام کے ایک عالم نے دری زبان میں قرآن کا ترجمہ کیا ۔اس ترجمے کی بنیاد پر افغانستان کے ملاؤں نے ان پر توہین قرآن کا الزام لگایا اور انہیں بیس سال کی سزا ہوئی۔ پرویز کام بخش نامی ایک صحافی نے اسلامی معاشروں میں عورتوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک پر ایک۔مضمون لکھا تو انہیں عدالت نے تویین مذہب کے لئے بیس سال کی سزا سنائی۔ حامد کرزئی کی مداخلت سے انہیں معافی مل گئی ۔ اس کے بعد انہوں نے افغانستان کو خیرباد کہہ دیا۔

ایران میں توہین کے لئے ہجومی تشدد کی تاریخ تو نہیں ہے لیکن یہاں توہین کے لئے موت کی سزا ہے اور اس میں سیاسی ناقدین کو بھی شامل کرلیا جاتا ہے۔ چونکہ قرآن میں توہین کے لئے سزا کی تجویز نہیں ہے بلکہ ایسے افراد سے درگذر کرنے کو کہا گیا ہے اس لئے ایرانی حکومت توہین اور مذہبی قائدین کی تنقید کو فساد فی الارض کے دائرے میں لاتی ہے جس کے لئے قرآن میں موت کی سزا یے۔2014ء میں ایک ماہر نفسیات محسن عامر اسلانی کو جیل میں پھانسی دے دی گئی کیونکہ ان پر توہین رسالت کا الزام تھا۔مئی 2023ء میں دو افراد کو توہین کے الزام میں پھانسی۔کی سزا دے دی گئی۔2002ء میں ایک پروفیسر کو توہین کے الزام میں 3 سال کی سزا دی گئی تھی۔۔ بعد میں انہیں ضمانت پر رہا کیا گیا تھا۔۔ سعودی عرب ، شام ، ترکی ، انڈونیشیا اور ملائشیا میں توہین کے تعلق سے پاکستان اور نائیجیریا کی طرح ہجومی تشدد کی تاریخ نہیں ہے لیکن ان ممالک میں توہین کے معاملات کو سیاسی مخالفین کو دبانے یا جیل بھیجنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

اسلامی ممالک میں توہین مذہب اور توہین رسالت کے معاملات کے اس سرسری مطالعے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان ممالک میں توہین کا تصور اسلام کی انتہا پسندانہ تفسیر و تشریح کی بنا پر قائم کیا گیا ہے اور عرب اور برصغیر ہندوپاک کے علماء اور مفسرین نے اس سخت گیر روئیے کو فروغ دیا جس کے نتیجے میں تویین کا الزام مسلمانوں کے اندر مسلکی تعصب اور اقلیتوں کے خلاف مذہبی تعصب کے اظہار کا آلہ بن گیا ہے۔مذہبی تنگ نظری کے تحت اور سیاسی مقاصد کے لئے بھی تویین کے قوانین کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کسی عیسائی کے ذریعہ انجانے میں قرآن کو ہاتھ لگا دینا یا کسی زبان میں قرآن کا ترجمہ کرنا بھی تویین قرآن کے تحت ناقابل معافی جرم بن گیا ہے۔

لہذا، توہین مذہب یا تویین رسالت کی بنیاد ہر ہونے والے تشدد اور قتل وفساد کاخاتمہ تب تک ممکن نہیں ہے جب تک توہین کے نام پر ہجومی تشدد یا ٹارگٹ کلنگ کو فساد فی الارض کے تحت جرم قرار نہیں دیاجاتا۔ اور توہین کے متعلق قوانین کی قرآن اور حدیث کی روشنی میں تشکیل نو نہیں کی جاتی۔

----------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/blasphemy-conviction-pakistan/d/131995

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..