New Age Islam
Fri Jan 24 2025, 02:35 PM

Urdu Section ( 19 May 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Why Criticism Of Religion مذہب پر تنقید کیوں؟

  

باسل حجازی، نیو ایج اسلام

19مئی، 2014

مولویانِ اسلام کا کہنا ہے کہ اصلِ مذہب پر تنقید نہیں کی جانی چاہیے کیونکہ یہ نہ صرف وحی ہے بلکہ غیب اور حکمِ الہی بھی ہے، مزید برآں مذہب پر تنقید لوگوں کے ایمان متزلزل کرنے کا باعث بنے گی اور الحاد ولا ادریت کے دروازے کھول دے گی اور ہر چیز جائز ہوجائے گی لہذا تنقید کا دائرہ کار صرف چند مخصوص مذہبی شخصیات تک محدود رہنا چاہیے اور مذہب کو بدعتوں سے پاک کیا جانا چاہیے نا کہ اصل مذہب پر تنقید کی جائے۔

تاہم اس باب میں کچھ نکات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:

1- در حقیقت مولویانِ اسلام نے اصلِ مذہب پر تنقید کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھائے رکھی، بات فقط اتنی ہے کہ یہ تنقید اپنے مذہب پر نہیں بلکہ دوسروں کے مذہب پر تھی، اسلام پسندوں کی کتابیں، رسائل وجرائد حتی کہ ٹی وی چینل بھی عیسائیت اور دیگر غیر مسلموں کے مذاہب پر تنقید سے بھرے پڑے ہیں، مزید یہ کہ اہلِ سنت اہل تشیع کے عقائد پر تنقید کرتے ہیں اور اہلِ تشیع سنیوں کے عقائد پر تنقید کرتے ہیں، ایسے میں سوال یہ ہے کہ آپ کے لیے وہ چیز جائز کیوں ہے جو دوسروں کے لیے جائز نہیں؟

2- تنقید کا مقصد مذہب کو تباہ کرنا نہیں ہوتا جیسا کہ شیوخِ اسلام سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے ذہن میں ابھی تک تنقید کا پرانا تصور جاگزیں ہے یا جیسا کہ وہ دوسرے مذاہب ومسالک کے حوالے سے کرتے ہیں، بلکہ یہاں تنقید سے مراد جدید کانٹی تنقید ہے جس میں مذہب کے کمزور اور طاقتور پہلو اجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ اس میں کیا چیز نقصان دہ ہے اور کیا چیز مفید ہے اور وحی کی حقیقت کیا ہے، اور اللہ انسان سے کیا چاہتا ہے، اور بنیادی طور پر کیا اللہ موجود بھی ہے یا نہیں، اور کیا وہ انسانی صفات کا حامل ہے، اور کیا اس نے کچھ انسانوں سے بات کی اور ان کے ہاتھوں دوسرے انسانوں کے لیے کوئی پیغام بھیجا وغیرہ وغیرہ؟؟ جدیدیت میں تنقید سے یہی مراد ہے، اور کوئی اس طرح کی تنقید سے منع نہیں کرتا اور نا ہی کرنا چاہیے کیونکہ قرآن اور علمائے اسلام نے ماضی میں ایسے مسائل سے بحث کی ہے لہذا یہ کوئی نئی بات نہیں جس سے مولویانِ اسلام کی نیندیں اڑ جائیں اور وہ لوگوں کے خون کے پیاسے ہوجائیں۔

3- جدیدیت کے اس دور میں مذہب پر تنقید نے کئی ابعاد حاصل کر لیے ہیں اور مذہب کے اصل ومنشا کی تفسیر میں کئی افکار ومسالک منظرِ عام پر آگئے ہیں، کچھ کا خیال ہے کہ اصلِ مذہب آسمانی باپ کی تلاش کی جبلت ہے کیونکہ انسان کو اب زمینی باپ کی حفاظت میسر نہیں رہی (فرویڈ)، اور کچھ کا خیال ہے کہ اصلِ مذہب وہ معاشرہ ہے جو اپنے افراد کو غیبی رسی سے باندھ کر ان میں معاشرتی ہم آہنگی پیدا کرنا چاہتا ہے (ڈورکایم)، کچھ کی نظر میں اصلِ مذہب ایک غیبی طاقت پر انسانی صفات کو ساقط کرنا ہے جس نے یہ دنیا بنائی ہے (فوئیرباخ)، جبکہ کچھ دیگر کی نظر میں اصلِ مذہب وہ حاکم طبقہ ہے جو محکوم طبقے کو مذہب کے ذریعے نشے میں مبتلا رکھنا چاہتا ہے تاکہ ان کا استحصال کیا جاسکے اور انہیں انقلابات برپا کرنے سے روکا جاسکے (مارکس) وغیرہ وغیرہ... اور چونکہ آج کی ٹیکنالوجیکل دنیا میں سارا عالم ایک گاؤں بن کر رہ گیا ہے لہذا شیوخ ومولویانِ اسلام کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ایسے مباحث میں پڑنے سے خوف کھاتے ہوئے شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دے کر بیٹھ جائیں کہ یہ شیطان اور استعمار کے پیدا کردہ ہیں۔

4- اس مسئلہ کی وجہ ہم جیسے لوگ نہیں بلکہ مذہبی پیشوا خود ہیں کیونکہ وہ مذہب کو لوگوں پر زبردستی ٹھونسنا چاہتے ہیں چاہے اس کے لیے دہشت گردی کی راہ ہی کیوں نہ اپنانی پڑے، یہی وجہ ہے کہ وہ کفر کے فتوے لگاتے ہیں اور لوگوں کو جدیدیت کے افکار سے ڈراتے ہیں جبکہ ہم جیسے لوگ تو محض اتنا چاہتے ہیں کہ لوگ اپنے اندر چھپی عقل وعقلیت پسندی کو جگائیں ناکہ مذہب ہی کا خاتمہ ہوجائے جیسا کہ مذہبی پیشوا لوگوں میں یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس مختصر سے مقدمہ کے بعد مذہب پر تنقید کے وسائل پر نظر ڈالتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ کیا مذہب میں ایسا کچھ ہے بھی جو تنقید سے ما وراء ہو جیسا کہ مذہب کے ٹھیکہ دار دعوی کرتے ہیں؟ ہر مذہب کے چار حصے یا درجے ہوتے ہیں:

1- قلبی اور جذباتی ایمان جو مذہب کا جوہر ہیں۔

2- عقائد۔

3- مذہبی اخلاقیات۔

4- رسوم۔

آخر سے شروع کرتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہب کا یہ پہلو خود مذہبی پیشواؤوں کے اعتراف سے قابلِ تنقید ہے، اس کی وجہ ایسے رسوم و رواجات کا رواج پانا ہے جو اصل مذہب میں سے نہیں ہیں جیسے کچھ حسینی رسوم جن پر خود علماء نے تنقید کی ہے، ایسے بہت سے قبائلی وعلاقائی رواجات ہیں جو مذہب میں اس طرح سے غلط ملط ہوگئے ہیں کہ لوگوں کو یہ اصلِ دین میں سے لگنے لگے ہیں، جاہلیت میں عربوں کے بہت سارے رسوم و رواج ایسے تھے جنہیں نبی اور مسلمانوں نے بحکمِ عادت ورواج اپنائے رکھا جو بعد میں مذہب میں غلط ملط ہوگئیں۔

جہاں تک مذہبی اخلاقیات کی بات ہے تو ان کی بنیاد ہی تخویف وترہیب یعنی ڈرانے دھمکانے پر ہے لہذا ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حقیقی اخلاقیات نہیں ہیں کیونکہ یہ اخلاقیات دوسروں سے محبت کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتیں بلکہ خود غرضی پر مبنی ہیں، اگر ثواب کا وعدہ نہ کیا گیا ہوتا تو مؤمن یہ اخلاقی فعل کبھی نہ کرتا جیسے صدقہ یا صلہ رحمی اور لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک وغیرہ، یہاں خلل کو دور کرنے کے لیے تنقید کا کردار کھل کر سامنے آتا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ مذہبی اخلاقیات ایک درمیانے مرحلے کے لیے مفید ہیں جہاں سے انسان اخلاقیات کے اعلی مراتب طے کر سکتا ہے جو وجدانی اخلاقیات ہیں، یہاں پہنچ کر انسان اچھائی کو خالصتاً انسانی بنیادوں پر کرتا ہے نا کہ ثوابِ الہی کمانے کی لالچ میں۔

مذہبی عقائد پر بھی عقل ومنطق کے اوزاروں سے تنقید ہونی چاہیے تاکہ درست وغلط کا فیصلہ ہوسکے، اور معقول اور نا معقول الگ کیے جاسکیں، میرا نہیں خیال کہ مولویانِ اسلام کو اس پر کوئی اعتراض ہونا چاہیے کیونکہ علمائے اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ عقائد کو عقل کی بنیاد پر لیا جانا چاہیے ناکہ تقلید کی بنیاد پر، ہماری نظر میں تمام مذہبی عقائد میں عقل کو نہیں ڈالا جاسکتا کیونکہ اس میں جذبات، تخیل وتلقین کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے لہذا انہیں عقل سے ثابت کیا جانا ضروری نہیں بلکہ مفید اور نقصادہ دہ میں تمیز ضروری ہے اور یہیں پر تنقیدی عقل بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔

رہ گئی بات اللہ پر قلبی ایمان کی، تو یہاں بھی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس پر تنقید ہونی چاہیے کہ مؤمن انسان کو ہمیشہ اپنے ایمان کی تجدید کی ضرورت رہتی ہے تاکہ حقیقی ایمان کو جعلی ایمان سے الگ کیا جاسکے، کیونکہ عام طور پر مؤمن یہ ایمان بچپن سے تلقین کے ذریعے یا جہنم سے خوف اور جنت کی لالچ میں حاصل کرتا ہے، یہ وہم بھی ہوسکتا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ دل میں راسخ ایمان کا درجہ حاصل کر لیتا ہے لہذا مؤمن کو چاہیے اپنے ایمان کو تازہ اور پاک رکھنے کے لیے تنقید کے ذریعہ اس کی تجدید کی سعی کرتا رہے۔

آخر میں ڈیسٹوفسکی کی ایک بات دہراتا چلوں، اس نے کہا تھا کہ: اگر خدا موجود نہ ہوتا تو ہر چیز جائز ہوجاتی۔۔۔ یہاں میں کہوں گا کہ اگر خدا نہ ہوتا تو وجدان بہرحال موجود ہوتا، یہ مولوی ومشائخ اسلام وپادری وغیرہ سمجھتے ہیں کہ ملحدوں کا ان کی طرح کوئی وجدان نہیں ہوتا لہذا یہ ملحد ہر رذیلت کا ارتکاب کر سکتے ہیں تاہم حقیقتِ حال یہ ہے کہ کافروں، لادینیوں اور ملحدوں کی بھاری اکثریت کی اخلاقیات مسلمانوں سے ہزاروں گنا بہتر ہے، ان کا وجدان طاقتور ہے لہذا انہیں برائی سے خود کو باز رکھنے اور اچھائی کرنے کے لیے خدا کی کوئی ضرورت نظر نہیں آتی۔

نیو ایج اسلام کے کالم نگار  باسل حجازی کا تعلق پاکستان سے ہے۔ فری لانسر صحافی ہیں، تقابل ادیان اور تاریخ ان کا خاص موضوع ہے، سعودی عرب میں اسلامک اسٹڈیز کی تعلیم حاصل کی، عرب سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں، لبرل اور سیکولر اقدار کے زبردست حامی ہیں، اسلام میں جمود کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اسلام میں لچک موجود ہے جو حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جمود پرست علماء اسلام کے سخت موقف کے باعث دور حاضر میں اسلام ایک مذہب سے زہادہ عالمی تنازعہ بن کر رہ گیا ہے۔  وہ سمجھتے ہیں کہ جدید افکار کو اسلامی سانچے میں ڈھالے بغیر مسلمانوں کی حالت میں تبدیلی ممکن نہیں۔

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/criticism-religion-/d/87075

 

Loading..

Loading..