New Age Islam
Mon Sep 16 2024, 09:04 PM

Urdu Section ( 5 Jan 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Issue of Defining and Preventing Terrorism دہشت گردی کی روک تھام اور اس کی تعریف کا مسئلہ

 باسل حجازی، نیو ایج اسلام 

ایسا شاید ہی کوئی دن گزرتا ہو جب ہمیں عالمی اور مقامی خبروں میں دہشت گرد اور دہشت گردی کی وارداتوں کی خبریں نہ سننے کو ملتی ہوں، سوال یہ ہے کہ سیاستدان اور میڈیا جب اس اصطلاح کا ذکر کرتے ہیں تو ان کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ اور کیا سبھی ایک ہی چیز کی بات کر رہے ہوتے ہیں؟ جدید دور میں میڈیا اور سیاستدانوں نے اسے کس طرح سے پیش کیا؟ اور کیا اس کی روک تھام کے لیے وہ کوئی فعال کردار ادا کر رہے ہیں؟ اور کیا وہ سچ کہہ رہے ہیں؟

دہشت گردی کا موضوع، سیاستدانوں اور محققین کے زاویہ نگاہ سے اس کی تعریف اور اس کی ماہیت کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے، خصوصاً اس صورت میں جبکہ یہ موضوع میڈیا میں اور سیاستدانوں کے مابین تنازعہ کا شکار رہتا ہے اور اسلامی معاشروں میں تنہائی، بے یقینی اور تضاد کے احساسات کو جنم دے رہا ہے، ایسے میں یہ سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ اس اصطلاح کے استعمال سے کیا مراد ہے اور کیوں؟ کیا اسے کوئی جواز حاصل ہے اور کیا یہ اعلی انسانی مقاصد کے حصول کی کوئی کوشش ہے جیسے اقوامِ عالم کے لیے امن وشادکامی یا پھر یہ محض کسی اقلیت کے ایجنڈے کی تکمیل ہے، دوسری طرف بہت سارے ممالک کو دہشت گردی کا سامنا ہے جہاں سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ دہشت گرد یہ طریقہ کار کیوں اختیار کرتے ہیں، کیا وہ حق پر ہیں، مسئلہ کا حل کیا ہے اور کیا ان ممالک کی اور باقی دنیا کی حکومتیں احسن طریقے سے اس کی روک تھام کے لیے اپنا کردار ادا کر رہی ہیں یا نہیں؟

دہشت گردی کی روک تھام کی سائنس ابھی نئی ہے، اس موضوع کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ جاننا انتہائی ضروری ہے کہ دنیا میں دہشت گردانہ کارروائیاں کہاں ہوتی ہیں، دہشت گردی کی تاریخ کیا ہے، "دہشت گردی" کی اصطلاح Terrorism کس طرح استعمال کی جاتی ہے، اس کی ایک متفقہ تعریف کیوں نہیں ہے اور اس کی متفقہ تعریف کیوں ضروری ہے۔

اگر 2011 کے دہشت گردی کے نقشے پر نظر ڈالی جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ دہشت گردی سے متاثرہ ممالک میں سر فہرست افغانستان ہے، پھر عراق، پاکستان، نائجیریا اور پھر روس ہے، دہشت گردی کے سب سے کم شکار ممالک میں سرفہرست لاطینی امریکہ کے ممالک، چین، یورپ اور امریکہ ہیں۔

اگرچہ دنیا کے بہت سارے ممالک دہشت گردی کا شکار نہیں ہیں تاہم اس کی روک تھام ان ممالک کی حکومتوں کے ایجنڈے میں سرِ فہرست ہے، عالمی تنظیمیں جیسے اقوامِ متحدہ اور نیٹو نے بھی اپنے ایجنڈے میں دہشت گردی کی روک تھام کو سرِ فہرست رکھا ہوا ہے۔

ایک پُر تشدد عمل کے طور پر دہشت گردی غیر حکومتی عناصر حکومتی اہداف کے خلاف سرانجام دیتے ہیں جو کوئی نیا عمل نہیں ہے، گیارہویں صدی میں "حشاشین" Assassins نامی گروہ نے محاذ کی تشکیل اور انتقام کی غرض سے سیاستدانوں اور عسکری قائدین کا قتل کیا۔

جدید تاریخ میں ڈیوڈ راپاپورٹ David C. Rapoport نے دہشت گردی کو چار لہروں میں منقسم کیا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں:

1- نِراج پسند یا انارکسٹ Anarchists یہ تحریک یا لہر 1879 میں روس سے شروع ہوتے ہوئے دنیا کے باقی ممالک میں پھیل گئی اور ٹیلیگراف اور اخبارات کی تکنیکوں کو استعمال کیا، اس کے اہم گروہوں میں "قوم کی منشا" Narodnaya Volya نامی گروہ ہے جس کے سر پر قیصرِ روس الیگزینڈر دوم اور امریکی صدر ولیم مکینلی کے علاوہ کئی دوسری اہم شخصیات کا قتل ہے۔

2- 1920 میں شروع ہونے والی ضد استعماری AntiColonial لہر جو برطانوی راج کے خلاف حقِ خود ارادیت Self Determination کی طالب تھی، اس تحریک نے چھاپہ مار تکنیکوں کا استعمال کیا (یعنی مارو اور بھاگ جاؤ) لہذا نظامی فوجوں کے لیے ان کا سامنا مشکل ثابت ہوا، ان لوگوں نے خود کو دہشت گرد کی بجائے "آزادی پسند" قرار دیا، نمایاں گروہوں میں آئرش ریپبلکن آرمی IRA، الجزائر کی نیشنل لبریشن فرنٹ NLF اور فلسطین میں برطانوی استعمار کے خلاف سرگرم یہودی تنظیم ارگن Irgun شامل ہیں۔

3- گزشتہ صدی کی ساٹھ کی دہائی میں شروع ہونے والی دائیں بازو کی نئی لہر New Left Wave جسے ویتنام کی جنگ نے مہمیز دی اور ترقی یافتہ دنیا میں جس میں مغربی یورپ اور شمالی امریکہ شامل ہیں تنظیمیں تشکیل ہونے شروع ہوئیں جن میں امریکہ کی "انڈر گراؤنڈ" Under Ground، مغربی جرمنی کی RAF، اٹلی کی ریڈ برگیڈ Red Brigades، اور جاپان کی ریڈ آرمی Red Army شامل ہیں، ان تنظیموں نے تیسری دنیا کے پسے ہوئے لوگوں کے لیے خود کو ترقی یافتہ دنیا کا نجات دہندہ قرار دیا، یاسر عرفات کی قیادت میں تنظیم آزادی فلسطین PLO بھی انہی میں شامل ہے، ان تنظیموں نے توجہ حاصل کرنے، اپنے مخصوص مقاصد کے حصول اور حکومتوں پر باؤ ڈالنے کے لیے لوگوں کو یرغمال بنانے اور ہوائی جہازوں کو ہائی جیک کرنے جیسی تکنیکوں کا بھرپور استعمال کیا۔

4- 1979 میں شروع ہونے والی مذہبی لہر، 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا، روسی فوجوں نے افغانستان پر قبضہ کر لیا، مسلمانوں کے مقدس شہر مکہ میں حرم شریف پر قبضہ ہوا، اس لہر میں بہت ساری اسلامی، یہودی، سکھ اور مسیحی تنظیمیں تشکیل ہوئیں، مثال کے طور پر ایسی ہی ایک تنظیم نے تل ابیب میں اسرائیلی وزیرِ اعظم اسحاق رابین کا 1995 میں قتل کیا، Aum Shinrikyo نامی جاپانی مسیحی تنظیم جس ٹوکیو کے سب وے میں سیرین نامی زہریلی گیس چھوڑ کر 12 لوگوں کو قتل، 50 کو زخمی اور کوئی 5000 لوگوں کو عارضی طور پر اندھا کر دیا، ان تنظیموں کے طریقہ کار میں قتل، یرغمال بنانا اور خودکش حملے کرنا شامل ہیں، بڑے پیمانے پر خودکش حملوں کے طریقہ کار کو اختیار کرنے والی تنظیموں میں لبنان کی حزب اللہ، سری لنکا کے تامل ٹائگرز اور القاعدہ شامل ہیں۔

راپاپورٹ کے مطابق ہر کچھ صدیوں بعد دہشت گردی کی ایک لہر شروع ہوتی ہے جو کچھ عرصہ جاری رہتی ہے، پھر اس پر توجہ کم ہونا شروع ہوجاتی ہے اور پھر یہ بالکل ہی غائب ہوجاتی ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم پانچویں لہر میں ہیں یا حالیہ لہر چوتھی لہر کا تسلسل ہے؟ کیا ہم 11 ستمبر 2001ء کے بعد کی دنیا میں جی رہے ہیں یا یہ واقعہ ہی سابقہ لہر کا تسلسل تھا؟ اور کیا "عرب بہار" نئی لہر ہے؟

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جسے اب "دہشت گردی" کہا جاتا ہے گزرے زمانوں میں اسے دوسرے ناموں سے پکارا جاتا تھا جیسے امریکی صدر ولیم مکینلی کے ایک انارکسسٹ کے ہاتھوں قتل کو محض قتل یعنی Assassination قرار دیا گیا، اگرچہ آکسفورڈ ڈکشنری لفظ “Terrorism” کی تعریف کچھ اس طرح سے کرتی ہے کہ یہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے تشدد اور خوف کا غیر قانونی استعمال ہے تاہم در حقیقت دنیا بھر کے سکالروں، سیاستدانوں ومحققون کے درمیان اس کی کوئی متفقہ تعریف موجود نہیں، سوال یہ ہے کہ آخر کیوں؟ سویڈش سکالر الیکس شمیڈ Alex P. Schmid ایسے چار بنیادی اسباب بیان کرتے ہیں جو دہشت گردی کی مشترکہ ومقبولِ عام تعریف کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر حائل ہیں:

1- دہشت گردی ایک متنازعہ مفہوم ہے، کیونکہ پہلے نقطہ نظر میں دہشت گرد آزادی کے لیے لڑ رہا ہے جبکہ دوسرے نقطہ نظر میں وہ محض دہشت گرد ہے جیسے یاسر عرفات، عبد اللہ اوجیلان، چی گویرا، اسامہ بن لادن۔

2- بعض افعال اور تنظیموں کو مجرم یا غیر مجرم قرار دینے سے دہشت گردی کی روک تھام کا گہرا تعلق ہے، مثال کے طور پر دہشت گرد افراد اور تنظیموں کی امریکی فہرست اقوامِ متحدہ کی فہرست سے مختلف ہے جو کہ یہ بھی یورپی یونین کی فہرست سے میل نہیں کھاتی۔

3- دہشت گردی کی بہت ساری انواع ہیں جو مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی ہیں، یوروپول Europol نے فکری بنیادوں پر دہشت گرد تنظیموں کو 5 انواع میں منقسم کیا ہے: 1- مذہبی جوہر کی حامل تنظیمیں 2- نسلی بنیادوں پر علیحدگی پسند قوم پرست 3- بائیں بازو اور انارکسسٹ 4- دائیں بازو 5- کسی ایک مقصد کے لیے لڑنے والے گروہ۔

4- اپنے وجود کے گزشتہ 200 سالوں میں یہ اصطلاح بہت ساری تبدیلیوں سے گزری ہے، شروع میں اس کا استعمال انقلابِ فرانس کے بعد 1795 میں میکسمیلن روبیسپیرے (Maximilien Robespierre) کی انجمنِ یعقوبی (Club des Jacobins) کے کارناموں کو بیان کرنے کے لیے کیا جاتا تھا، انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں کہیں جا کر اس کا مفہوم حکومت کے خلاف پُر تشدد کارروائیوں میں بدل گیا۔

اب رہا یہ سوال کہ آخر ہمیں دہشت گردی کی کسی متفقہ علیہ تعریف کی تلاش میں کیوں سرگرداں رہنا چاہیے؟ ایڈون بیکر Edwin Bakker اس کی مندرجہ ذیل وجوہات بیان کرتے ہیں:

1- دہشت گردی کی روک تھام میں بین الاقوامی تعاون، ہم کس سے لڑ رہے ہیں اور کون سی تنظیم دہشت گرد ہے۔

2- عدالتی کارروائیوں میں بہتری۔

3- دہشت گردی کے نام پر بعض حکومتوں کا معاشرے کی مخصوص اکائیوں کے خلاف کارروائیاں جس کے بارے میں ہیومن رائٹس واچ کئی بار متنبہ کر چکا ہے۔

4- دہشت گردی اور اس کی روک تھام کے موضوع پر تحقیق میں بہتری۔

کوفی عنان کی قیادت میں (1997 – 2006) اقوامِ متحدہ نے دہشت گردی کی ماہیت کے بارے میں ایک طرح کے اجماع پر پہنچنے کی کوشش کی اور اس کی تعریف یوں بیان کی کہ یہ عسکری اور سول افراد کا سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے بغیر کسی مڈ بھیڑ کے قتل ہے، دراصل کوفی عنان نے ایک اخلاقی پیغام دینے کی کوشش کی کہ اس تعریف کے تحت دہشت گردی ناقابلِ قبول ہے اور اسے کوئی جواز حاصل نہیں، تاہم یہ تعریف تمام ممبر ممالک کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی، کیونکہ بعض ممالک کا خیال تھا کہ دہشت گردی کی کچھ اقسام کو جواز حاصل ہے جیسے ممالک کی دہشت گردی کے خلاف دہشت گردی اور اجنبی قبضے کے خلاف دہشت گردی، جبکہ بعض دیگر ممالک اس تعریف کے برخلاف تعریف کے قائل تھے۔

ایسے میں ممالک کی دہشت گردی کا کیا کیا جائے؟ بعض محققین اور سیاستدانوں بشمول ایڈون بیکر Edwin Bakker کے خیال ہے کہ بہتر یہی ہوگا کہ دہشت گردی کی تعریف یوں کی جائے کہ یہ غیر حکومتی عناصر کا سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے کی گئی پُر تشدد کارروائیاں ہیں، جبکہ ممالک کی صورت میں اگر ممالک اپنی قوموں یا پڑوسی اقوام کے خلاف دہشت گردی کریں تو ایسے میں بہتر یہی ہوگا کہ ان کے ساتھ عالمی قوانین کی بنیادوں پر نبرد آزما ہوا جائے۔

دہشت گردی کی اکادیمی تعریف کے لیے ایلکس شمڈ Alex Schmid اور البرٹ جانگمین Albert Jongman نے 1988 میں دہشت گردی کے موضوع کے جانے مانے محققین اور سکالروں کو ایک سوالنامہ ارسال کیا اور ان سے دہشت گردی کی تعریف لکھنے کو کہا، پھر الیکس نے 2011 میں یہی کوشش دوبارہ کی اور پایا کہ دہشت گردی کی تعریف 12 مرکبات پر مشتمل ہے جو یہ ہیں:

1- اسے عقیدے اور/یا پُر تشدد عمل کے بارے میں کچھ کہنا چاہیے

2- اسے اُس سیاق کی نشاندہی کرنی چاہیے جس میں دہشت گردی بطور چال، داؤ پیچ یا تدبیر (Tactics) کے طور پر استعمال ہوتی ہو۔

3- اس میں جسمانی تشدد یا اس کی دھمکی شامل ہونی چاہیے۔

4- اس میں دھمکی پر مبنی رابطے کی کارروائیاں شامل ہونی چاہئیں۔

5- اس میں یہ نشاندہی ہونی چاہیے کہ دہشت گردی خوف وہراس یا محض سختی پیدا کرتی ہے۔

6- اسے براہ راست شکار ہونے والوں کے بارے میں کچھ کہنا چاہیے۔

7- اس میں اس حقیقت کی نشاندہی ہونی چاہیے کہ براہ راست شکار دراصل آخری مقصد نہیں ہیں۔

8- اسے عمل کو انجام دینے والوں کے بارے میں کچھ کہنا چاہیے۔

9- اس میں یہ وضاحت  ہونی چاہیے کہ دہشت کردی اپنی غالب یا بیشتر حالت میں سیاسی ہے۔

10- اسے دہشت گردی کی کارروائیوں کا مقصد بیان کرنا چاہیے۔

11- اسے دہشت گردی کرنے کی قوتِ محرکہ کے بارے میں کچھ کہنا چاہیے۔

12- اسے یہ نشاندہی کرنی چاہیے کہ دہشت گردانہ کارروائیاں ایک سخت کمپین کا حصہ ہیں۔

اگرچہ دہشت گردی کی کوئی متفقہ تعریف وجود نہیں رکھتی تاہم یہ اتفاق ضرور ہے کہ یہ وہ اسلوب یا طریقہ ہے جسے مخصوص اہداف یا مقاصد کے حصول کے لیے حکومتی وغیر حکومتی عناصر استعمال کرتے ہیں، اور یہ کہ طاقت کا استعمال تدبیر کا حصہ ہے مگر مقصد نہیں، مزید برآں دہشت گردانہ کارروائی کے لیے خوف کا پھیلانا قتل سے زیادہ اہم ہے، کارروائی کا براہ راست شکار بنیادی مقصد نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو یہ فعل دیکھ رہے ہیں، میڈیا اور سیاستدان مبالغہ آرائی پر مبنی ردِ عمل دے کر خوف کے پھیلاؤ میں دہشت گردوں کے حصہ دار بن جاتے ہیں، دہشت گردی معاشروں اور بین المعاشرتی تعلقات، معیشت اور سیاست پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔

https://newageislam.com/urdu-section/the-issue-defining-preventing-terrorism/d/113816


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..