باسل حجازی، نیو ایج اسلام
گزشتہ کالم میں خاکسار نے دہشت گردی کے پھیلاؤ میں معاشی اور معاشرتی اسباب کا تعلق کمزور قرار دیا تھا، دہشت گردی کو ظلم اور غربت سے جوڑنے کا معاملہ حد درجہ پیچیدگی کا حامل ہے اور اسے بھرپور وضاحت درکار ہے، بعض لوگوں کی نظر میں اس میں اندھے تشدد کا بھرپور جواز موجود ہے، وہ تشدد جو ہرگز قابلِ قبول امر نہیں ہے، یہ توجیہ مجرم کو جرم کے ارتکاب کے لیے جواز فراہم کرتی ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسے چوری اور ڈاکے کو غربت اور معاشرتی بے توقیری سے جوڑ کر جواز فراہم کیا جائے.. یہ توجیہ میری نظر میں ذرا فرسودہ سی ہے کیونکہ جرم بالآخر جرم ہی ہے اور اس کی بہر صورت مذمت ہی کی جانی چاہیے۔
ایک ثقافت ایسی بھی راسخ ہوئی ہے جو نہ صرف دہشت گردی کو قبول کرتی ہے بلکہ اسے مہمیز بھی دیتی ہے، اسے آپ میانہ روی کے داعی غیر اسلامی مفکروں، ادیبوں، سیاستدانوں اور حتی کہ صحافیوں کے بیانات ومقالات میں آسانی سے تلاش کر سکتے ہیں اور جنہیں قبولِ عام کا درجہ حاصل ہے، یہ مسئلہ بھی حل طلب ہے، اگر دہشت گرد قبول نہیں تو ان کے "عذر خواہ" بھی ہرگز قابلِ قبول نہیں ہونے چاہئیں، مگر مقامِ حیرت یہ ہے کہ بجائے ایسے طبقے کو نکیل ڈالی جائے انہیں کھلے عام میڈیا میں آکر سادہ لوح عوام کو "اُلو" بنانے کی بھرپور چھوٹ دے دی گئی ہے۔
اب چاہے بات مطلوبہ معاشرتی انصاف کی ہی کیوں نہ ہو اس غایت کے حصول یا اس کے حصول میں ناکامی کی تمام تر ذمہ داری محض حکومتی پالیسیوں پر نہیں ڈالی جاسکتی کیونکہ ایک مسئلہ "تقدیر" اور "اللہ کی مرضی" کا بھی ہے یعنی صورتِ حال کو "مشیتِ ایزدی" سمجھ کر اسے جوں کا توں ہی قبول کر لینا، لہذا اگر دعوی یوں بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ دہشت گردی ظلم کے خلاف کوئی انقلابی تحریک ہے تو پھر یہ معزم "انقلابی تحریک" عورتوں، بچوں اور بے قصور سول افراد کا خون کیوں بہاتی ہے، انصاف کے حصول کی جد وجہد اور ان بے قصور لوگوں کے قتل میں بھلا کون سا آپسی تعلق ہے؟
ظلم اور غربت گاندھی اور نیلسن مینڈیلا کے طرز کی پر امن سول تحریکوں کو جنم کیوں نہیں دیتی؟ یہ لوگ انصاف وآزادی کے لیے اپنے اہداف کا کھل کر اعلان کیوں نہیں کرتے؟ جو چیز واضح ہے وہ یہ ہے کہ یہ لوگ ان جرائم کا ارتکاب جنت کی لالچ میں کرتے ہیں، ان کی نظر میں انصاف اور آزادی دور کہیں آسمان میں پائی جاتی ہے نا کہ زمین پر (جو کہ اگر دیکھا جائے تو وہ بھی اسی اللہ کی ہی ہے جس کی کہ جنت ہے لہذا ذمہ داری کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اللہ کی اس زمین کو بھی پر امن رکھا جائے نا کہ اس میں فساد فی سبیل اللہ برپا کیا جائے) یعنی آخرت کی دائمی زندگی میں نا کہ اس فانی دنیا میں!
دیسی مثالوں اور شرعی دلائل سے بھرپور اطاعت کی فقہ کا کیا کیا جائے؟ جاپانی قوم کے نصیب میں ترقی وخوشحالی کیوں، اور مسلمانوں کے مقدر میں بھوک، افلاس اور بیماری کیوں؟ جب میں نے یہ بات ایک "عالم فقیہ" کے سامنے کی تو اس نے مجھ پر اللہ کی "قضاء وقدر" پر اعتراض کرنے کا الزام لگا دیا اور خاکسار نے کسی "مشال خانی" انجام کے پیشِ نظر فی الفور اپنے "کفریہ" خیالات سے رجوع کر لیا اور گویا جان کو اماں ملی؟!
مجھے ذاتی طور پر فقط اس بات کا ڈر رہتا ہے کہ کہیں معاشرتی انصاف کے حصول کو جرم وتشدد کے لیے جواز نہ بنا لیا جائے، یا یہ سمجھ لیا جائے کہ جو تشدد ہو رہا ہے اس کا مقصد دراصل انصاف، مساوات اور ترقی کا حصول ہے اور یہ ظلم، غربت اور کرپشن کے خلاف انسانی احتجاج ہے، مگر خوش قسمتی سے کسی بھی تشدد پسند یا انتہاء پسند تنظیم نے کبھی معاشرتی انصاف اور ترقی کو اپنا مقصد نہیں بتایا اور نا ہی اسے ان جرائم کے جواز کے طور پر پیش کیا ہے جو عراق، مصر، ترکی، برطانیہ اور دیگر بہت سارے ممالک میں وقوع پذیر ہو رہے ہیں، دراصل یہاں مسئلہ بڑا ہی سادہ ہے اور وہ یہ کہ ظلم وفساد جرم وتشدد کے لیے مناسب ماحول کی فراہمی میں انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں، یہ تصور تاریخ وجغرافیائی طور پر حد درجہ راسخ ہے اور بہت حد تک بیماری اور اس کے خلاف قوتِ مدافعت کے تصور سے مشابہت رکھتا ہے۔
بیماریوں کے خلاف مدافعت کا تمام تر انحصار بیماری کے خلاف جسم میں قوتِ مدافعت کے نظام کی موجودگی پر ہے، جب یہ قوتِ مدافعت کام کرنا چھوڑ دیتی ہے یا کمزور ہوجاتی ہے تو جسم طرح طرح کی بیماروں کا آسانی سے شکار بن جاتا ہے، یہاں بڑا ہی سادہ سا منطقی سوال اٹھتا ہے کہ اس صورت میں کیا ہمیں ہزاروں نوعیت کے بیکٹیریا، وائرس اور بیماری پیدا کرنے والے دیگر ہزاروں لاکھوں اسباب کے خلاف لڑنا چاہیے یا صرف قوتِ مدافعت کے نظام کو ٹھیک کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے؟ یقیناً منطقیت ومعقولیت اسی میں ہے کہ بجائے اس کے کہ بیماریوں کے ہزاروں اسباب سے الگ الگ جنگ چھیڑ کر خود ہلکان کیا جائے کیوں نہ صرف جسم کے قوتِ مدافع کے نظام کو ہی ٹھیک کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے جو اگر ٹھیک ہوگیا تو ساری بیماریاں خود بخود دور ہوجائیں گی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی ہمیں اسی مثال کو نمونہ کے طور پر سمجھنا چاہیے، ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی، تشدد اور انتہاء پسندی کے کلچر کے خلاف ضروری قوتِ مدافعت پیدا کی جائے جو صرف انصاف اور علم کی فراہمی سے ہی انجام دی جاسکتی ہے، یہ وہ بلند ومشترکہ انسانی اقدار ہیں جن پر تمام مذاہب، تہذیبیں اور تمام تر انسانی تجربات متفق ہیں۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism