New Age Islam
Sun Feb 16 2025, 02:24 PM

Urdu Section ( 8 Apr 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Relationship of Religion and Ethics مذہب اور اخلاق کا تعلق

  

باسل حجازی،   نیو ایج اسلام

8اپریلانہوں نے کہا اور ہم نے بھی کہا کہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إنما بعثت لأتمم مکارم الأخلاق" "میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں"۔

بات اگر اخلاق اور مذہب کے آپسی تعلق کی کی جائے کہ آیا اس تعلق میں تضاد ہے یا ہم آہنگی ہے اور کون اصل اور کون شاخ ہے؟ تو اس ضمن میں کئی مسالک ہیں موجود ہیں جن میں خاص الخاص کا ذکر کچھ یوں ہے:

1- ہم آہنگی مگر اصل اخلاق ہیں: یہ بات مندرجہ بالا حدیث سے بھی اخذ ہوتی ہے جہاں حدیث یہ حقیقت بیان کرتی نظر آتی ہے کہ مذہب اخلاق کی تقویت اور ان کی تکمیل کے لیے آیا ہے، یہ مسلک زیادہ تر لبرلز کا ہے، وہ اس حقیقت پر زور دیتے نظر آتے ہیں کہ دراصل اخلاق ہی اصل ہیں اور ہم پر یہ لازم ہے کہ ہم اچھے انسان بنیں اور اس ضمن میں ہمارے مذہب کو کوئی اہمیت حاصل نہیں کہ بالآخر تمام مذاہب کا مقصد انسان کو ایک اچھا انسان بنانا ہی ہے۔

2- ہم آہنگی مگر اصل مذہب ہے: یہ بات بھی کچھ مذہبی تحریروں اور علمائے دین کے اقوال سے اخذ کی جاسکتی ہے جیسا کہ آیت وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون، یہاں ایمان پر زیادہ زور دیا جاتا ہے کہ نیک عمل ایمان کو تقویت بخشتا ہے اور ایک حدیث کے مطابق جو اسلام سے ہٹ کر کوئی دین چاہے گا تو اس سے قبول نہیں کیا جائے گا یعنی کہ بندہ کتنا ہی نیک اور اخلاقیات سے لبریز کیوں نہ ہو جب تک وہ مسلمان نہیں ہوگا اس سے کچھ بھی قبول نہیں کیا جائے گا جس کا مطلب ہے کہ ایمان کے راستے میں مذہب کو اخلاقیات کی ضرورت ہے یعنی اخلاق اس غرض کی تکمیل کا ایک ذریعہ ہیں بذاتِ خود کوئی مقصد نہیں ہیں۔

3- تضاد: یہ مسلک نٹشے اور ان کے ہمنواؤں کا ہے کہ مذہب اخلاقیات کو ہائی جیک کرتا ہے اور انسان میں ذات سے اجنبیت کی حالت کو پروان چڑھاتا اور اسے سست بناتا ہے وغیرہ۔۔ اور چونکہ اخلاقیات کی موجودگی انسانی زندگی اور معاشرے کے لیے ضروری ہے جبکہ مذہب ضروری نہیں ہے چنانچہ مغرب کے زیادہ تر مفکرین نے اخلاقیات کو سیکولرائز کرتے ہوئے انہیں بھی مذہب سے الگ کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ ان کی حفاظت کی جاسکے اور ایک ایسے اخلاقی نظام کی تشکیل کی جاسکے جو مذہب اور غیب پر انحصار نہ کرے بلکہ انسانیت اور انسانی ضمیر اس کی بنیادیں ہوں۔

4- برابری: یہ بارٹلے اور ان کے ہمنواؤں کا مسلک ہے کہ مذہب اور اخلاقیات انسانی زندگی اور ثقافت میں دو الگ الگ چیزیں ہیں، اگرچہ دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں تاہم بالآخر یہ آپس میں نہیں ملتے، یعنی مذہب اور اخلاق دونوں انسانی زندگی میں خاص مسائل سے بحث کرتے ہیں اور ہر ایک کا اپنا ایک الگ موضوع ہے، مذہب غیبی مسائل سے بحث کرتا ہے جیسے خدا کا وجود اور بعد از مرگ زندگی وغیرہ یعنی نظریاتی بنیادیں رکھتا ہے جبکہ اخلاق کا تعلق عمل سے ہے، یہ اس سے بحث کرتا ہے کہ حقیقی زندگی میں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے، لہذا مذہب انسان کو معرفت دیتا ہے اور اخلاق اسے قدریں دیتا ہے اور دونوں انسانی زندگی کے لیے ضروری ہیں۔

تاہم میرا خیال ہے کہ مذہب اور اخلاقیات میں ہم آہنگی بھی ہے اور تضاد بھی، یعنی کبھی مذہب اخلاق سے متحد ہوجاتا ہے اور کبھی دونوں میں تضاد پیدا ہوجاتا ہے، اگر ہم مذہب کو اس زاویہ نظر سے دیکھیں کہ یہ اللہ سے محب اور قلبی ایمان ہے اور بندے اور خدا کے آپسی تعلق کو بہتر کرنے کی کوشش ہے تو اس طرح مؤمن نہ صرف انا کی قید سے آزاد ہوجاتا ہے بلکہ خود پسندی اور ذاتی منفعت کی خواہش جاتی رہتی ہے، مذہب کا یہ مفہوم عین اخلاقی ہے، ظاہر ہے کہ اخلاق کا دائرہ کار ہمارے دوسروں کے ساتھ تعلق کے گرد ہی نہیں گھومتا بلکہ خدا کے گرد بھی گھومتا ہے، چنانچہ اگر انسان خدا کے ساتھ اپنا تعلق تشکر کے طور پر استوار کرتا ہے ناکہ جہنم کے ڈر اور جنت کی لالچ میں تو ایسا ایمان وجدانی اخلاق پر مبنی ہوتا ہے جو اخلاقیات کا ایک بنیادی قاعدہ ہے اور اس کے حصول کے لیے لازم ہے کہ انسان دوسروں سے محبت کرے اور رذیلت کے راستے سے اجتناب برتتے ہوئے فضیلت کی راہ اپنائے کیونکہ مطلق خیر جو خدا ہے سے محبت کے لیے فضیلت کی راہ ضروری ہے۔

تاہم اگر ہم مذہب کو عقیدے اور شرعی احکامات کے نقطہ ہائے نظر سے دیکھیں تو حالت یکسر الٹ جائے گی اور مذہب ایک خود غرضی، منافقت اور نفرت کا ایک اوزار بن جائے گا، ایسا انسان خود کو افضل سمجھنے لگتا ہے اور دوسروں کو کمتر، اس کی نظر تنگ ہوتی چلی جاتے اور وہ دوسروں سے نفرت کرنے لگتا ہے، جس قدر انسان زیادہ مذہبی ہوتا چلا جاتا ہے اس میں یہ غیر اخلاقی حالتیں پختہ ہوتی چلی جاتی ہیں، اس طرح وہ انسانی روح اور اخلاقی قدروں سے دور ہوتا چلا جاتا ہے جس کا مشاہدہ اسلامی معاشروں میں کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اسلامی شریعت اور مذہبی تحریروں میں اخلاقیات اور انسانی حقوق سے متصادم احکامات کی بھرمار ہے، جیسے غلامی کی اجازت، حق فرقہ، مرتد کا قتل، کفار سے برائت، دنیا کی دار الحرب اور دار السلام میں تقسیم اور دیگر جن کی فہرست کافی طویل ہے اور جو مذہبی لوگوں کی سلوکیات سے ظاہر بھی ہوتا ہے، مزید برآں انسان کے مادی اور جسمانی وسائل فضول چیزوں میں ضائع ہوتے ہیں جیسے حج وعمرہ، دیگر مقدس مقامات کا سفر جیسے مزار وغیرہ، ورد کرنے اور تفسیروں اور حدیث کی کتابوں کی تصنیف میں وقت برباد کرنا جس سے انسان کے پاس اخلاقیات کی راہ پر چلنے کی توانائی ہی باقی نہیں بچتی۔

مندرجہ بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہب انسان کو انسانیت اور اخلاق کے ارفع مقام پر پہنچا سکتا ہے اور بیک وقت اسے رذیلت اور انحطاط کی اتاہ گہرائیوں میں بھی اتار سکتا ہے، مذہب کے ان دو راستوں میں سے آپ کون سا راستے چنتے ہیں اس کا فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔

نیو ایج اسلام کے کالم نگار  باسل حجازی کا تعلق پاکستان سے ہے۔ فری لانسر صحافی ہیں، تقابل ادیان اور تاریخ ان کا خاص موضوع ہے، سعودی عرب میں اسلامک اسٹڈیز کی تعلیم حاصل کی، عرب سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں، لبرل اور سیکولر اقدار کے زبردست حامی ہیں، اسلام میں جمود کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اسلام میں لچک موجود ہے جو حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جمود پرست علماء اسلام کے سخت موقف کے باعث دور حاضر میں اسلام ایک مذہب سے زہادہ عالمی تنازعہ بن کر رہ گیا ہے۔  وہ سمجھتے ہیں کہ جدید افکار کو اسلامی سانچے میں ڈھالے بغیر مسلمانوں کی حالت میں تبدیلی ممکن نہیں۔

URL:


 https://newageislam.com/urdu-section/relationship-religion-ethics-/d/66445


Loading..

Loading..