باسل حجازی، نیو ایج اسلام
اس بحث سے قطعِ نظر کہ قرآن اللہ کا کلام ہے یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا لیکن اس پر کوئی دو رائے نہیں کہ قرآن نہ صرف عرب تاریخ کی سب سے پہلی اور اہم دستاویز رہی ہے بلکہ آئندہ بھی نامعلوم وقت تک بطور ایک اہم دستاویز کے اس کی اہمیت برقرار رہے گی، اس سے قبل عربوں نے نا تو کوئی کتاب دیکھی اور نا ہی کسی کتاب کو اتنی اہمیت دی، ان کی زندگی پر اس کتاب کے اثرات پہلے روز سے اب تک قائم ہیں، خاکسار کی ذاتی رائے میں قرآن پوری انسانی تاریخ کی سب سے با اثر کتاب رہی ہے بشرطیکہ مائکل ہارٹ کے معیارات کو مدِ نظر رکھا جائے۔
اس کتاب نے آمد کے ساتھ ہی فیصلہ کن انداز میں دنیا کی شکل ہی بدل کر رکھ دی اور ایسے گہرے تغیرات کا موجب بنی جنہیں ہر سطح پر محسوس کیا جاسکتا ہے، اس ضمن میں توریت بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی حالانکہ وہ اس سے کئی سو سال سینئر ہے (یہاں توریت کی تصغیر قطعی مقصود نہیں، اس کی اپنی اہمیت اور اثرات ہیں جو بہرحال یہاں زیرِ بحث نہیں)، ایسے میں اگر اس کتاب پر تنقید کی جاتی ہے یا اسے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے تو یہ امر کوئی باعثِ حیرت وتعجب نہیں بلکہ ایک طرح سے اس کی مقبولیت کی ہی دلیل ہے اور مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ہر نقد وشک کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کریں کیونکہ اب اس کی حیثیت مقامی نہیں رہی بلکہ عالمگیر شکل اختیار کر چکی ہے۔
اس عالمگیر اہمیت کے پیشِ نظر یہ ضروری ہے کہ ہر طبقہ فکر کے لوگ اس پر خصوصی توجہ دیں، وہ لوگ بھی جو اسے انسانی کلام قرار دیتے ہیں، ان سب مکاتبِ فکر کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کتاب کی حقیقت کو جاننے کے لیے اور عالم پر اس کے حقائق منکشف کرنے کے لیے بغیر کسی پیشگی ثقافتی وفکری جانبداری کے کام کریں، اس لیے نہیں کہ یہ کتاب مسلمانوں کی ہے بلکہ اس لیے کہ اپنے ظہور سے اب تک اس نے دنیا کے خد وخال متعین کرنے میں بڑا ہی اہم کردار ادا کیا ہے، اور جہاں تک خاکسار کا خیال ہے قرآن کے امن وجنگ کے نظریے پر مکمل غیر جانبداری کے ساتھ از سرِ نو غور وفکر کی ضرورت ہے کیونکہ یہ مسئلہ نہ صرف بڑی اہمیت کا حامل ہے بلکہ اس بابت غلط فہمی کا پھیلاؤ بہت ہی زیادہ ہے جو مسلم دنیا سمیت غیر مسلم دنیا کو بھی شدید نقصان پہنچانے کا باعث بن رہا ہے۔
اور جیسا کہ مسلمانوں کی صفوں میں قرآن کے حقوق، آزادیوں اور امن وجنگ جیسے حساس مسائل کے متعلق منفی تصویر کشی کرنے والوں کی کمی نہیں، ایسے غیر مسلموں کی بھی کمی نہیں جو جان بوجھ کر اس منفی تصویر کشی کو قبول کرتے ہیں، یہ ہمیں اس لیے بھی معلوم ہے کیونکہ یہ غیر مسلم جب اپنی مقدس کتاب کے حوالے سے کوئی بحث کرتا ہے تو شدید تر احتیاط سے کام لیتا ہے لیکن جب بات قرآن کی آتی ہے تو پھر تساہل عارفانہ اس کا وطیر ہوتا ہے، اور اگر ایسے میں جھوٹ نہ بولے تو یہ اس کی مہربانی سمجھیے۔
اس تساہلِ عارفانہ کی سادہ مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ یہ حضرات یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ قرآن مخالفین کے خلاف تشدد کے استعمال کی اجازت دیتا ہے، دلیل کے طور پر ایسی آیات پیش کی جاتی ہیں جنہیں در حقیقت علمی سیاق سے ہٹا کر کوٹ کیا جاتا ہے جیسے "قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ" (جو لوگ اہل کتاب میں سے اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ روز آخر پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اسکے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دینے لگیں۔) التوبہ 29، اور یوں یہ دعوی کر دیا جاتا ہے کہ تمام مخالفین جن پر آیت میں مذکور خصوصیات منطبق ہوتی ہیں انہیں مارنے کی قرآن کھلی اجازت دیتا ہے چاہے زمان ومکان کتنے ہی بدل کیوں نہ جائیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا تاویل پر مسلم انتہاء پسند اور قرآن کے حریف دونوں متفق ہیں!؟ یقیناً یہ تاویل نا معقولیت کی حد تک ظالمانہ ہے جو جہلاء کو تو شاید زیب دے تاہم اصحابِ خرد ودانش کو یہ تاویل قطعی زیب نہیں دیتی کیونکہ کوئی بھی خرد مند اتنا تو ضرور سمجھتا ہے کہ الفاظ وعبارات کو ان کے سیاق وسباق سے نکال کر نہیں سمجھا جاسکتا چاہے آپ کوئی سادہ سی عام سی کتاب ہی کیوں نہ پڑھ رہے ہوں اور یہ تو پھر قرآن ہے جو شاید واحد مقدس کتاب ہے جو اسے پڑھنے کی شرائط خود متعین کرتی ہے، اور اگر کوئی یہ شرائط پوری کرنے پر تیار نہیں ہے تو ہماری اس سے درخواست ہے کہ وہ یہ کتاب نہ پڑھے۔
مندرجہ بالا آیت سے یہ واضح ہے کہ یہ آیت ایک مخصوص تاریخی حالت کی بات کر رہی ہے جس کا تعلق اہلِ کتاب سے ہے جن کی مڈ بھیڑ ایک نئی اسلامی جماعت کے ساتھ ہوئی اور انہوں نے اس جماعت کے ساتھ جنگ چھیڑ دی، تاویلیوں کو چاہیے کہ وہ بس یہیں رک جائیں کیونکہ آیت میں تعمیم یعنی جنرلائیزیشن نہیں ہے، مطلب یہ کہ چاہے یہ اوصاف کسی میں پائے بھی جائیں تو بھی وہ اس زمان ومکان سے خارج ہے، یہ بات دیگر قرآنی آیات کے مطالعے سے آسانی کے ساتھ سمجھی جاسکتی ہے جن میں اہلِ کتاب کے ساتھ اس قدر اچھے سلوک اور گھل مل جانے کی بات کی گئی ہے جو رشتہ داری کی حد تک جاسکتی ہے۔
مزید برآں صریح قرآنی آیات موجود ہیں جو مذہبی جبر سے منع کرتی ہیں چاہے اس کی صورت کوئی بھی ہو، اور اگر جزیہ اسلام میں داخل کرنے کے لیے دباؤ کا کوئی حربہ ہوتا تو بھی یہ اکراہ کی ایک شکل ہی قرار پاتی جو "لا اکراہ فی الدین" یعنی دین میں کوئی جبر نہیں کی آیت سے تعارض رکھتی جو ممکن نہیں، پھر بھی جانے کیوں ایک طبقہ مصر ہے کہ سابقہ آیت ہر زمان ومکان میں مخالفین کے قتل پر اکساتی ہے؟!
مندرجہ بالا وضاحت پر مسلم انتہاء پسندوں کا موقف ہے کہ مندرجہ بالا آیت مخالفین کے ساتھ یگانگت وبھائی چارے کی تمام سابقہ آیات کو منسوخ کرتی ہے جبکہ کارہانِ قرآن کا موقف ہے کہ یہ محمدی موقع پرستی کی ایک مثال ہے کہ جب وہ کمزور تھے تو بھائی چارے کی بات کیا کرتے تھے اور جب انہوں نے طاقت پکڑ لی تو مخالفین کے خاتمے کی باتیں کرنے لگے، الغرض کہ فریقین نے اپنے اپنے مزاج سے قریب ترین تاویل کا انتخاب کیا ہے اور علمی وتحقیقی منطق کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔
اگر یہ حضرات علمی منطق کو بروئے کار لاتے ہوئے سوچتے تو انہیں پہلی حجت ہی نا معقول لگتی کہ آخر آپ کو کیسے پتہ چلا کہ یہ آیت باقی آیات کو منسوخ کرتی ہے؟ جبکہ منسوخی کا معاملہ تو محض اجتہاد پر مبنی ہے نا کہ اخبار پر اور نا ہی اس ضمن میں کوئی اجماع پایا جاتا ہے، اور اگر خبر پر ہی ہے تو آپ کے پاس کون سی ایسی متواتر خبر ہے جو یہ کہتی ہے کہ یہ آیت باقی آیات کے بعد نازل ہوئی، کسی آیت کو منسوخ قرار دینے کے لیے یہ جاننا از حد ضروری ہے کہ ناسخ آیات منسوخ آیات کے بعد نازل ہوئی ہیں جو اس معاملے نہیں ہے۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism