باسل حجازی، نیوایج اسلام
یہ دور دہشت گردی کا دور ہے، اور دہشت گردی ہنوز جاری ہے، تاہم جو سوال شدت سے کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ مذہب بالخصوص اسلام کا اس خطرناک مظہر کے حوالے سے کیا موقف ہے جس نے بڑے پیمانے پر لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے، دہشت گردی کی وجہ سے قوموں کے تعلقات متاثر ہوئے ہیں، دنیا کے کئی محاذوں پر جاری جنگوں کے پیچھے دہشت گردی ہے، اور اگر اس مظہر کی روک تھام کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو اندیشہ ہے کہ دنیا میں ایسے کئی مزید محاذ کھل سکتے ہیں۔
عالمی ذرائع ابلاغ نے دہشت گردی کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کے ساتھ ساتھ اسے ایک مخصوص خطے سے منسوب کرنے کی بھی کوشش کی یہ فرض کرتے ہوئے کہ اس مخصوص خطے کے لوگ اسلام کے پیروکار ہیں، حالانکہ دہشت گردی ایک ایسا فعل ہے جو اس کے فاعل یعنی انسان سے سرزرد ہوتا ہے اس سے قطع نظر کہ اس کا رنگ یا عقیدہ کیا ہے، یہ فعل بد نیتی اور فرسودہ انتخاب کا شاخسانہ ہے اور یہ صفات انسانی ہیں اور بطور انسان سب میں پائی جاتی ہیں چاہے اس انسان کا تعلق کسی بھی نسلی گروہ، مذہب، جماعت یا فرقے سے ہو۔
ایسی کوششوں سے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے جن کا مقصد دہشت گردی کو اسلام اور عیسائیت کے ما بین جنگ کے تناظر میں دیکھنا ہے یا اسے مسلکی چادر اوڑھا کر کبھی سنی دہشت گردی کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے اور کبھی شیعہ دہشت گردی کا۔
ہم ایسی تمام اصطلاحات کو مسترد کرتے ہیں جن سے قوموں اور مذاہب کے ما بین عداوتیں پیدا ہونے کا اندیشہ ہو، وسطی افریقہ میں بے گناہ لوگوں کا قتل عام مسلمانوں کے خلاف عیسائی دہشت گردی نہیں ہے کیونکہ عیسائیوں کی مرکزی روحانی مقتدرہ اس عمل کو جائز قرار نہیں دیتی اور اسے پوری قوت کے ساتھ مسترد کرتی ہے اور ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والون کی مذمت کرتی ہے، علی ہذا القیاس عراق میں عیسائیوں اور ایزدیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم عیسائیوں کے خلاف اسلامی دہشت گردی نہیں ہے کیونکہ ازہر کی صورت میں مسلمانوں کی مذہبی مقتدرہ ایسے تمام جرائم کی مذمت کرتی ہے جو کسی بھی ❞انسان❝ کو نقصان پہنچائے یا کسی بھی مذہب کی توہین کرے، اسی طرح ہم یہ نہیں کہتے کہ جس طرح کی زیادتیاں برما میں مسلمانوں کے خلاف جاری ہیں وہ بودھ دہشت گردی ہے کیونکہ دہشت گردی کے حامی گروہ مذاہب کی نمائندگی نہیں کرتے، یہ بس اپنی اور اپنے ایجنڈوں کی نمائندگی کرتے ہیں، دہشت گردی ایک مجرمانہ عمل ہے جو نا تو عیسائی ہے اور نا ہی مسلمان، دہشت گردی ایک جن ہے جو نا تو شیعہ ہے اور نا ہی سنی ہے۔
ہمارے خیال میں کسی مذہب یا خطے پر دہشت گردی کا الزام لگانے سے دہشت گردی کی روک تھام کی کوششوں کو نقصان پہنچتا ہے اور اس کی روک تھام کے مقاصد تعطل کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ ایک تو اس خطے اور مذہب کے لوگ دفاعی پوزیشن میں آجاتے ہیں یا انہیں اس پوزیشن پر آںے پر مجبور کر دیا جاتا ہے اور یوں جو کاوشیں دہشت گردی کے قلع قمع پر صرف ہونی چاہئیں تھیں وہ دفاعی پوزیشن پر صرف ہوتی ہیں اور عالمی قوتیں اس خطے اور مذہب کے ماننے والوں کا اعتماد کھو دیتی ہیں اور احساس تنہائی دہشت گردوں کی افرادی قوت میں اضافے کا سبب بنتا ہے، دہشت گردی کی روک تھام ایک اجتماعی ذمہ داری ہے، اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ عالمی برادری کے پاس دستیاب صلاحیتوں کو اکٹھا کر کے اس شر کے خلاف وقف کر دیا جائے۔
بہرصورت دہشت گردی کے حوالے سے اسلام کے موقف کا انحصار خود فعل کی قباحت پر منحصر ہے، یہ فاعل کے تبدیل ہوجانے سے تبدیل نہیں ہوتا، نا ہی یہ موقف ❞مفعول بہ❝ کے بدل جانے سے بدلتا ہے، اسلام کی نظر میں بے گناہوں کا قتل ایک قبیح فعل ہے چاہے یہ بے گناہ مسلمان ہوں یا نہ ہوں، اسی طرح دہشت گردی بھی ایک قبیح فعل ہے چاہے فاعل مسلمان ہوں یا نہ ہوں، یہ عمل ظلم پر مبنی ہے جو اپنا آپ میں قبیح ہے، ظلم کو قبح وبدصورتی سے ہٹ کر کوئی عنوان نہیں دیا جاسکتا جبکہ فاعل مذمت وملامت کا حقدار ہے۔
بعض روایات اور فقہی حوالوں میں جنگجو کی تعریف کچھ یوں ہے کہ ❞جس نے لوگوں کو ڈرانے کے لیے ہتھیار نکالا وہ جنگجو ہے چاہے وہ اسلامی ریاست میں ہو یا غیر اسلامی ریاست میں❝، یہ تشریح واضح کرتی ہے کہ اسلام میں جو شخص لوگوں کے امن اور آزادی کو خطرے میں ڈالتا ہے چاہے اس کا مقصد محض ڈرانے تک ہی محدود ہو وہ جنگجو ہے جسے روکنا اور سزا دینا ضروری ہے، جنگجو کی یہ تشریح جو وفقہاء کے ہاں موجود ہے وہ اپنا آپ میں لفظ دہشت گرد سے زیادہ بڑا مفہوم رکھتی ہے۔
بہر صورت دہشت گردی کی روک تھام کی آڑ میں امن پسند لوگوں کا امن بھنگ نہیں کرنا چاہیے، یعنی بد تر کو روکنے کے لیے بد ترین کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کسی دہشت گرد کو سزا دینے کے لیے جس تک پہنچنے میں دراصل ہم ناکام رہے پوری قوم کو وطن بدر کردیا جائے اور ان کے گھر ان کے سروں پر مسمار کر دیے جائیں، مقصد چاہے درست ہو مگر اس سے بے گناہوں کو رکیدنے کا جواز نہیں مل جاتا، اگر ایسا کیا گیا تو یہ اس دہشت گردی سے بھی زیادہ خطرناک دہشت گردی میں بدل جائے گی جس سے ہم لڑ رہے ہیں، کیا عالمی برادری کو لگتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو لوگ نا حق مارے گئے یا وطن بدر ہوئے وہ امن کی فاختائیں اڑائیں گے؟!
URL: