باسل حجازی، نیو ایج اسلام
21 مئی 2014
قرآن کہتا ہے: قُلْ هَلْ مِن شُرَكَائِكُم مَّن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ ۚ قُلِ اللَّهُ يَهْدِي لِلْحَقِّ أَفَمَن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لَّا يَهِدِّي إِلَّا أَن يُهْدَىٰ ۖ فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ (سورہ یونس آیت 35) - پوچھو کہ بھلا تمہارے شریکوں میں کون ایسا ہے کہ حق کا رستہ دکھائے۔ کہہ دو کہ خدا ہی حق کا رستہ دکھاتا ہے۔ بھلا جو حق کا رستہ دکھائے وہ اس قابل ہے کہ اُس کی پیروی کی جائے یا وہ کہ جب تک کوئی اسے رستہ نہ بتائے رستہ نہ پائے۔ تو تم کو کیا ہوا ہے کیسا انصاف کرتے ہو؟
حق کا لفظ قرآن میں دسیوں بار آیا ہے اور ہر بار اس میں انسان کو حق کے اتباع کی تلقین کی گئی ہے کہ حق کے مقابل فریق باطل پر ہے اور ظاہر ہے کہ حق کے بعد صرف باطل ہی رہ جاتا ہے، قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ لوگ دو طرح کے ہیں، یا تو وہ مؤمن ہیں یا کافر، ان کے درمیان کوئی تیسرا یعنی درمیانہ مقام نہیں ہے، درحقیقت ماضی میں یہی کلچر رائج تھا چاہے وہ علماء تھے یا فلسفی، حق تک رسائی انسان کا عظیم ترین مقصد تھا بلکہ انسان کی زندگی کا مقصد ہی حق اور حقیقت کی تلاش سمجھا جاتا تھا، یہ تصور اتنا پختہ تھا کہ حق کے بغیر انسان کی کوئی قدر وقیمت نہیں سمجھی جاتی تھی، مثال کے طور پر شیعہ حضرات حضرت امام حسین پر روتے پیٹتے نظر آتے ہیں کیونکہ وہ حق پر تھے اور یزید باطل پر تھا، اہلِ سنت کو بھی صحابہ بہر صورت حق پر نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے صحابہ کو تقدس کا درجہ حاصل ہوگیا ہے، مسلمانوں کے ذہنوں میں حق وباطل کا یہ معنی اس قدر پختہ ہوچکا ہے کہ انہیں یہ نظر ہی نہیں آتا کہ حضرت امام حسین محض اس لیے قتل ہوئے کیونکہ انہوں نے یزید کی بیعت سے انکار کردیا تھا اور وجہ محض اتنی تھی کہ وہ اپنی پوری انسانیت اور آزادی کے ساتھ جینا چاہتے تھے یعنی مسئلہ یہ نہیں تھا کہ امام حسین دینِ حق پر اور یزید دینِ باطل پر تھا بلکہ مسئلہ یہ تھا کہ پہلا فریق اپنی پوری عزت وآبرو کے ساتھ جینا چاہتا تھا جبکہ فریقِ ثانی امام حسین اور ان کے حامیوں کی یہ عزت وآبرو اور انسانیت چھین لینا چاہتا تھا، تاہم عام شیعہ یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت امام حسین اسلام اور دینِ حق کی خاطر قتل ہوئے، اور یہی قدیم ثقافت میں انسان کی مرکزیت کے مقابلے میں حق کی مرکزیت کا مفہوم ہے، انسان اگرچہ پسا ہوا تھا پھر بھی اس کی قدر ومنزلت کا انحصار اس امر پر تھا کہ وہ حق کے کس قدر قریب ہے، حالانکہ انسان کو حق کا محور ہونا چاہیے تھا جیسا کہ سید الشہداء حلاج نے کہا تھا کہ: انا الحق۔
تاہم جدیدیت نے حق کے مرکزیت کے تمام تر قدیم مفہوم بدل کر رکھ ڈالے اور انسان اور اس کی عزت وآبرو کو اصل بنا ڈالا، اب حق وہاں جاتا ہے جہاں انسان جاتا ہے، اب انسان حق کے فلک میں نہیں گھومتا۔۔ یعنی کہ حقِ محض بغیر انسان کے ایک وہم ہے جس سے بے وقوف ہی دھوکہ کھا سکتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ قدروں اور نظریات میں یہ انقلاب کیسے آیا کہ انسان جو پہلے تابع تھا اب متبوع ہوگیا؟ یہ کیا ہوا کہ جو پہلے غلام تھا اب مالک ہوگیا؟ اس میں بہت سارے عوامل کار فرما ہیں:
1- ہوا یہ ہے کہ علمی ترقی اور جدید دریافتوں کی وجہ سے مذہب کے منظوم معرفتی ڈھانچے کو ایک بہت بڑے زلزلے کا سامنا کرنا پڑ گیا کیونکہ اس ضمن میں علمی دریافتیں مذہب کے مقولات سے ٹکرا گئیں، چنانچہ انسان کی سوچ سے تقدس کے وہمی بادل چھٹنے لگے اور وہ آزادی سے سوچنے لگا اور جب اس نے سوچنا شروع کیا تو اس نے دیکھا کہ جب مذہب علمی، حقوقی اور اخلاقی میدانوں میں فاش غلطیاں کر سکتا ہے تو غیبی میدان میں غلطیاں کیوں نہیں کر سکتا؟ جیسے خدا، فرشتے، جن، جنت، جہنم وغیرہ کے بارے میں مذہب غلط کیوں نہیں ہوسکتا جب وہ دیگر تمام معاملات میں غلط ہے؟ ایسے میں وہ کیوں بوسیدہ عقائد کے پیچھے ہلکان ہو اور اپنی یہ اکلوتی زندگی بھی توہمات وخرافات کی نذر کر کے ضائع کردے؟ یہاں سے انسان کی مرکزیت کی سوچ نمو پانے لگی جس کے ساتھ انسان کی آزادی، اس کی عزت وآبرو اور حقوق بھی نمودار ہوگئے جو مذہب میں اسے میسر نہیں تھے اور جس میں انسان کی بجائے حق کو مرکزیت حاصل تھی۔
2- دوسرا اور اہم عنصر دینِ حق کی طرف سے دینِ حق کے نام پر روا رکھی جانے والی دہشت گردی اور بے گناہوں کا قتل ہے، تمام تر اسلامی فتوحات، صلیبی جنگیں، مسلکی اور گروہی فسادات جو دنیا بھر میں ہوئے اور ہو رہے ہیں اس کی وجہ وہ وہم ہے جسے ❞حق❝ کہتے ہیں، ہر فریق کا یہ دعوی ہے کہ وہ حق پر اور باقی سب باطل پر ہیں چنانچہ باطل اور اہلِ باطل کو مار دینا چاہیے، خلاصہ کلام یہ ہے کہ انسانیت نے اس ❞حق❝ سے سوائے جنگوں، تباہ کاریوں اور خون کی ندیوں کے سوا کچھ حاصل نہیں کیا جس سے حق کے مقابلے میں انسان کی مرکزیت کے پہلو کو مزید تقویت ملتی ہے۔
3- تیسرا پہلو وہ حقائق ہیں جو کانٹ کے زمانے سے علمِ نفس اور جدید فلسفے میں درجہ اثبات کو پہنچ چکے ہیں کہ انسان اپنی ذات کے بغیر حقیقت کا ادراک نہیں کر سکتا چاہے وہ علمی ہو، مذہبی ہو یا اخلاقی، ماضی میں فلاسفہ کا خیال تھا کہ انسان کا ذہن ایک آئینہ کی مانند ہے جس پر انسان کی ذات اور اس کی عقل کی مداخلت کے بغیر باہر موجود ہر چیز منعکس ہوتی ہے، تاہم کانٹ کے بعد سے یہ سمجھا جانے لگا کہ ہر انسان دنیا کو ایک ایسی عینک سے دیکھتا ہے جس کے شیشے Untitled 1انسانی ذہن میں پہلے سے موجود عقائد وتصورات سے رنگے ہوتے ہیں جس میں زمان ومکان بھی شامل ہیں، یوں ہر چیز میں تعددیت کے دروازے کھل جاتے ہیں جس میں دین ومذہب بھی شامل ہے، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حق کی مرکزیت ایک وہمِ محض تھی اور اصل مرکزیت دراصل انسان کو ہی حاصل ہے۔
اس ساری تفصیل کے بعد کیا حق کے وہم میں مبتلا رہنا درست ہے؟ کیا ہمیں اپنی زندگی، انسانیت اور خوشی کی قمیت پر اپنی ساری توانائیاں اور زندگی دینِ حق کی تلاش میں برباد کر دینی چاہیے؟؟
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/illusion-truth-/d/87123