New Age Islam
Sun Oct 06 2024, 12:20 AM

Urdu Section ( 2 Oct 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Need of Revival of Sufism in the Present Age عہد حاضر میں تحریک احیا ءِ تصوف کی ضرورت

 

بشارت حسین ثقافی

24 ستمبر، 2013

جب ہم تصوف اور صوفیہ کی بات کرتے ہیں تو تصوف سے ہماری مراد وہ نظام ہوتا ہے جسے حدیث پاک نے ‘‘ احسان’’ کے نام سے بغیر کیا ہے اور صوفیہ سے ہم وہ جماعت مرا دلیتے ہیں جو کسی مرشد کا مل کی نگرانی میں اپنے نفوس کا تزکیہ کر کے ایسے منصف و مرتبہ پر فائز ہوتی ہے کہ اب وہ دوسروں  کی قلوب کو  منور و مجلیٰ کرسکے اور بندوں کے تعلق اس کے مالک و مولیٰ سے بہتر بنانے میں اپنی خدمات پیش کرسکے ۔ صوفیہ کرام کی یہ مقدس جماعت ہر دور میں موجود رہی ہے اور نظام احسان و تصوف کے ذریعہ ہمیشہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو سوئے حرم لے جانے کا فریضہ انجام دیا۔

تصوف جو زمانہ نبوت اور عہد خلفائے راشدین میں احسان و سلوک اور تزکیہ نفس سے جانا جاتا تھا اس کی ضرورت و اہمیت  ہر دور اور ہر زمانے میں مسلم رہی ہے ۔جب تک انسان نفس کی بندگی کا شکار رہیں گے ،اپنی ہی ذات کے گرد طواف کرتے رہیں گے ، حرص و ہوس کو اپنی زندگی کا مقصود بنائے رہیں گے ،نفاق و عناد معاشرہ کی شناخت بنی رہے گی تب تک انسان اپنے مقصدِ تخلیق  میں ہر گز کامیاب نہیں ہو پائے گالہٰذا انسانی معاشرے سے ان سب مذمومات کے خاتمے  اور ان کے رد و اصلاح کے لئے تصوف اسلامی کی ضرورت ہمیشہ باقی رہے گی جو کہ سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی رضی اللہ عنہ کے بقول ایثارِ ابراہیم ، اطاعت اسماعیل ، صوفِ موسیٰ ، اشارہ ٔ زکریا ، صبرِ ایوب، قناعتِ عیسیٰ ، غربت یحییٰ اور فقرِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تشکیل پایا ہے۔

جو شخص جسم کی اصلاح و صفائی اور اس کے لئے غذائی فراہمی کا کام کرتا ہے اس کو معاشرے میں عزت  کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ، سماج میں اس کو ایک خاص مقام  حاصل ہوتا ہے۔ وہ جماعت جو پیاسی  روح کی پیاس بجھاتی ہو، روح  کی اصلاح اور اس کے تزکیہ کا کام انجام دیتی ہو اور اس کےلئے  مناسب غذا فراہم  کرتی ہو اس کا معاشرہ پر کیوں کر اثر نہیں  ہوگا۔

ہمارے سماج کے اصلاح کے تئیں  صوفیہ کی خدمات کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ وہ لوگوں کے نفوس کی تطہیر  کا سامان فراہم کرتے ہیں جب کہ دوسری جانب صوفیہ  کی خدمات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بظاہر  تو صوفیہ کا ایک نکاتی  پروگرام ہوتا ہے  اور وہ یہ کہ بچھڑ ے ہوئے بندوں  کو ان کے مالک و مولیٰ سےملادیا جائے،  بھاگے ہوئے غلاموں کو ان کے آقا تک پہنچا  دیا جائے اور اس  طرح وہ ایک خالص روحانی جماعت  نظر آتی ہے اور اس کا نظام تصوف و احسان  ایک خالص  روحانی تحریک ۔ لیکن  اگر صوفیہ  کی زندگی  کا بغور مطالعہ  کیا جائے تو صوفیہ کے اس یک نکاتی  پروگرام میں سماج اور معاشرے کی خدمت  کے کئی اور ایسے  پہلو نظر  آتے ہیں  جو دنیاوی لحاظ سے خصوصاً زیادہ اہم ہیں اور جن کی وجہ سے یہ تحریک روحانی ہونے کے ساتھ  ہی معاشرتی  بھی نظر آتی ہے مثلاً:

(1)  صوفیہ نظام مساوات او رکرامت انسانی کے علم بردار ہیں۔ چنانچہ ان کے یہاں ذات پات مذہب و عقیدہ کی تفریق  کے بغیر  سب کے لئے دروازے کھلے رہے اور انہوں نے انسانی اقدار کا ہمیشہ لحاظ  رکھا بلکہ اقدار کی پاسداری  کے انمٹ نقوش چھوڑے ۔

(2) صوفیہ سماجی خدمات  میں پہل کرنے والے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی خانقاہوں میں لنگر قائم کیا تاکہ بلا  تفریق لوگ ان کے دستر خوان پر بیٹھ کر کھا سکیں جس سے انسانی بھائی چارے کو زیادہ سے زیادہ فروغ ملے۔

(3)  صوفیہ عورتوں کے حقوق کے علم بردار ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عورتو ں کے لئے بھی ان کے دروازے مردوں کی طرح کھلے رہے اور شرعی حدود میں رہ کر انہوں نے ان کی بھی اصلاح اور ان کو مکمل انسان بنانے کی کوشش کی او رکبھی بھی ان کے ساتھ چھوت چھات والا سلوک نہیں کیا۔

(4)  صوفیہ کی جماعت معاشرتی برائیوں مثلاً چوری ، زنا کاری، ناانصافی ، جھوٹ ، غیبت ،قطع رحمی کے خاتمے اور دوسری تمام عمدہ انسانی معاشرتی  خوبیوں سے آراستہ کرنے کےلئے جہد مسلسل کرنے والی جماعت ہے۔

موجودہ دور کی خرابیوں  کو پیش نظر رکھ کر یہ بات ہم پورے و ثوق سے کہہ سکتے ہیں  کہ صوفیہ کرام نے الہٰ واحد کی جانب سے دعوت کے ذریعہ  ایسی انسانی ، سماجی اور معاشرتی  خدمات انجام دی ہیں کہ موجودہ دور بڑی بڑی تنظیمیں  اور این جی اوز (N.G.Os) اجتماعی طور پر بھی کسی ایک صوفی کی خدمت کے برابر انسانی، معاشرتی اور سماجی خدمات  انجام نہیں دی سکتیں ۔ انہیں خصوصیات  کی بنا پر نظامِ تصوف اور صوفیہ کا ماضی میں بڑا گہرا اثر انسانی سماج پر رہا۔

موجودہ عہد میں مرشد اور خانقاہ کی ضرورت کے حوالے سے  گفتگو کی جائے تو یہ بات واضح  ہے کہ آج کے دور میں مرشد اور خانقاہ کی ضرورت پچھلی صدیوں  سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ آج خانقاہی نظام کا احیا ہوجائے تو اس کی اثر اندازی کا دائرہ  بھی پچھلی صدیوں  کی بہ نسبت بے حد وسیع ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کی دنیا میں دو ظاہر ے عام ہیں:

(1)  دنیا  جنگ و جدال و غربت گری سے پریشان، امن و آشتی اور انسانی کرامت کی پاسداری کی طلب گار ہے۔

(2)  دنیا روحانیت کی پیاسی ہے اور اسے کسی  ایسے نظام کی ضرورت ہے جس سے اس کی روحانی پیاس  بجھ سکے۔

(3)  انسان نفسیاتی طور پر الجھنوں  کا شکار ہے اور مادی  ترقی کی دوڑ میں وہ اتنا دور ہوچکا ہے کہ اب اسے خواہش کے باوجود واپسی  کی کوئی راہ نظر نہیں آتی۔

ایسی صورت حال میں تمام مذاہب میں صرف اسلام ہی انسانیت کے درد کا مداوا بن سکتا ہے اور اسلام میں صرف نظام تصورف ہی ایک  ایسا منہج  و نظام ہے جس کے ذریعے  امن و آشتی کی فضا  قائم کی جاسکتی ہے ، او رپھر اس کے ضمن  میں وہ ساری سماجی معاشرتی خدمات انجام دی جاسکتی ہیں  جو ماضی میں صوفیہ  نے دعوتِ توحید  کے ضمن میں انجام دی ہیں۔ خصوصیت  کے ساتھ  موجودہ عہد میں  انسان جو نفسیاتی مسائل کا شکا رہے  اس کو صوفیہ کرام کی خانقاہوں  میں بھیج کر اور کسی مرشد کا مل کا پتا بتا کر اس کے نفسیاتی مسائل کا علاج بھی کروایا جاسکتا ہے۔گویا موجودہ عہد میں خصوصیت کے ساتھ صوفیہ کرام کی خانقاہیں روحانی و نفسیاتی مسائل  کے شفا  خانے اور صوفیہ کرام نفسیاتی طبیب کے طور پر صوفیہ کرام کو جو وصف سب سے زیادہ ممتاز کرتا ہے وہ یہ ہے کہ صوفیہ اپنی خانقاہ میں حاضر ہونے  والے مریضوں کے لئے خواہ وہ کسی بھی قسم کا مریض ہو ہمدر د اور ا س کی شفا کے حریص ہوتے ہیں۔ان کے پاس ہر مریض کے لئے الگ نسخۂ شفا ہوتا ہے ، وہ مشیر  ہوتے ہیں آمر و جابر نہیں ہوتے، انکے یہاں محبت  و شفقت اور تواضع و انکساری ہوتی ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ موجودہ دور میں عالمی سطح  پر ایک طرف توحید کے دعویدار کچھ نام نہاد مسلمان تصوف جیسے پاکیزہ  نظام کو شریعت  مخالف اور فرسودہ نظام قرار دے کر صوفیہ و صوفی ازم کے خلاف زہر افشانی کررہے ہیں، صوفیہ کرام کی مقدس ترین جماعت کےذریعہ وضع  کردہ طریقوں کو بدعات و خرافات کے نام سے تعبیر  کرکے بے حقیقت فتووں کی بوچھاڑ کررہے ہیں تاکہ مسلمان اپنے اسلاف کے مقدس راستے سے بھٹک جائیں اور ان  کے استعماری  عزائم کی تکمیل ہوسکے، نظام تصوف کو اسلام میں ایک نئی ایجاد قرار دے کر اسلام او رمسلمانوں کی گھیرا بندی کی جارہی ہے اور یوں نیا فتنہ پیدا کیا جارہا ہے کہ اسلام کی دو تقسیم ہیں ایک صوفی اسلام اور ایک غیر صوفی اسلام، تصوف  و صوفیہ سے متعلق من گھڑت باتیں ایجاد کر کے موجودہ نئی نسل کو صوفیہ کرام کے مقدس راستے سے دور کرنے کی سعی مذموم بڑے منظّم ڈھنگ سے کی جارہی ہے جو اسلام  اور مسلمانوں  کے خلاف ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی اور خطرناک سازش ہے۔ جب کہ دوسری جانب تصوف کے نام پر ستم ظریفی  یہ ہے کہ تصوف و صوفیہ کی جانب لوگوں کے رجحان و میلان  کا فائدہ اٹھاکر کچھ صوفی نما لوگ تصوف کا سائن بورڈ لگا کر لوگوں کا استحصال  کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اسلامی تصوف کے چشمۂ صافی  کو اپنے فاسقانہ عمل سے تعفن کا شکار بنانے کے درپے ہیں ۔ ان کے نام نہاد مراکز خانقاہیں نہیں  بلکہ دکانیں ہیں جہاں  پر رشد و ہدایت کی متاع  گراں  مایہ نہیں ملتی بلکہ مکر  وفریب سے کام چلایا جاتا ہے ۔ یہاں  پر دنوں تپش اور راتوں کا گداز اور آہ سحر گاہی  مفقود ہوتی ہے اور اس کے بجائے انسانی نفس  لہو و لعب اور تعیش  پسندی کے ذریعے معصیت میں مبتلا کردیا جاتا ہے ۔ مختصر یہ کہ موجودہ عہد میں تصوف کے نام پر ایک  طرف فکری بے اعتدالی ہے تو دوسری طرف عملی بے اعتدالی جب کہ ضرورت ہے کہ بے اعتدالی کے راستے کو ترک کرے اور اعتدال کی راہ  پر گامزن ہواجائے ۔

تصوف کے نام پر فکری و عملی  بے اعتدالی سے اپنے آپ  کو محفوظ رکھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کو سلطان المشائخ محبوب الہٰی  حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ  کی اس نصیحت  کاپابند بنائیں جس  میں آپ  فرماتے ہیں کہ :

‘‘ اس شخص کو اپنا پیر ،شیخ یامرشد بناؤ جس میں تین اوصاف یکجا پاؤ ۔ ایک علم دوسرا عقل اور تیسرا عشق ۔ جب علم ہوگا تو وہ تمہیں  جہالت کا سبق نہیں پڑھائے گا ، عقل ہوگی تو بد عقلی کا حکم نہیں دےگا  اور جب صاحب عشق ہوگا تو اللہ  و رسول  کے ہر حکم  کا خود بھی تابع  ہوگا  اور تمہیں  بھی اسی راہ پر چلائے گا’’۔

24 ستمبر ، 2013  بشکریہ : روز نامہ اُڑان، جموں

URL:

 https://newageislam.com/urdu-section/need-revival-sufism-present-age/d/13797

 

Loading..

Loading..