بدر کاظمی
1 جولائی، 2013
گزشتہ سال اگست میں راقم کا ایک مضمو ن ‘‘ فرقے نہیں مکاتب فکر! ایک فریب مسلسل ’’ کے عنوان سے اخبارات میں شائع ہوا تھا، جس میں یہ بتانے اور سمجھانے کی کو شش کی گئی تھی کہ قرآن کریم نے فرقہ بندی کو شرک اور کفر سے تعبیر کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صریح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ ‘‘ جو لوگ دین میں فرقے پیدا کرلیں ان سے تیرا کوئی واسطہ نہیں ’’۔ مزید یہ کہ قرآن کریم میں سابقہ اقوام کے تاریخی بیان میں مذہبی اجارہ داری کے جنون کا پس منظر پیش کرتے ہوئے بتایا گیاکہ ‘‘ لوگوں میں مذہبی اختلاف کی وجہ کتب سماویہ کے من چاہے معانی اور تفاسیر میں اختلاف اور ان کے متن میں تحریف کی وجہ سے ہوئی ۔’’ پہلے تو سب لوگ ایک ہی امت تھے ، لیکن وہ آپس میں اختلاف کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف بشارت دینے والے اور ڈر سنانے والے پیغمبر بھیجے اور ا ن پر سچائی پر مبنی کتابیں نازل کیں تاکہ جن امور میں لوگ اختلاف کرتے تھے ان میں ان کا فیصلہ کردے۔’’البقرہ :213) اور اسی کے ساتھ یہ وعید بھی سنائی گئی کہ ‘‘ ان کے اس ظلم (فرقہ بندی ) کے سبب ان کے حق میں واضح عذاب پورا ہو کررہے گا اور وہ بول بھی نہ سکیں گے۔’’(النمل :85) اور یہ دین میں فرقہ بندی کرنے والے گونگوں ،بہرو ں اور اندھوں کے مانند ہیں اور یہ کہ فرقہ بندی اللہ کا عذاب ہے۔
‘‘ کہہ دو کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر سے یا نیچے سے عذاب بھیجے یا تمہیں فرقہ فرقہ کر کے ایک دوسرے سے لڑا کر آپس کی لڑائی کا مزہ چکھا ئے۔ دیکھو ہم اپنی آیتوں کو کس طرح (واضح اور صریح طور پر) بیان کرتے ہیں تاکہ لوگ سمجھیں ۔’’ ( انعام :65) اس مضمون میں فرقہ بندی کے تعلق سے پیشتر قرآنی آیات و ہدایات کو پیش کرتے ہوئے علمائے کرام اور اہل علم و دانش سے یہ سوال کیا تھا کہ کیا وہ قرآن کریم کی مذکورہ زیر بحث آیات و ہدایات کی روشنی میں اپنا محاسبہ کرنے او راپنی تاریخ و روایات کے اس گھنے جنگل کو جس میں قدم قدم پر خار دار جھاڑیاں اگ آئی ہیں صاف کرنے کو تیار ہیں؟ او ریہ کہ جب تک راست طور پر قرآن سے رہنمائی کی بجائے فقہی قیل و قال پر ہمارا انحصار باقی رہے گا دنیا کی کوئی طاقت ہمارے جاری زوال پر روک نہیں لگا سکے گی۔
اس مضمون کے شائع ہونے پر بہت سے محسنین کے فون آئے جس میں پذیر ائی کے ساتھ ساتھ تنبیہ بھی شامل تھی کہ کس وادی میں جا نکلے ہو؟ کیا ارادہ ہے؟ ملّی سیاست کرنے والوں کو مذہبی بالخصوص اختلافی موضوع پر احتیاط برتنی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ میرا ایک ہی جواب تھا کہ ملّی سیاست بھی دین کا ایک حصہ ہے اور یہ موضوع دینی اور قرآنی فکر پر مبنی ہے۔ قرآن کریم کے نزول کا مقصد ہی بنی نوع انسان کے اختلاف کو ختم کرنا ہے۔ پھر اسی موضوع پر قرآن کریم کو دین کی بنیاد قرار دیتے ہوئے پروفیسر عارف الاسلام، جناب منصور آغا اور عبدا لحمید نعمانی وغیرہ جیسے اہل علم و دانش کے مضامین آئے جس سے ایک راحت ملی۔ دو روز قبل اخبارات میں حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی ، مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند کے سنبھل کے قیام کے موقع پر ان کی مجلس کے احوال پڑھ کر انتہائی مسرت ہوئی ۔ جس میں مولانا موصوف نے اختلاف امت کی وجوہات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ‘‘ اسلام میں تین چیزیں ہیں: جس میں اول نمبر پر دین ہے ، دوسرے پر مذہب اور تیسرے پر مسلک ہے۔
دین وہ ہے جو قرآن و حدیث میں واضح طور پر مذکور ہے اور جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور مذہب وہ قوانین ہیں جن کو علماء نے اپنے علم و عقل کی روشنی میں نہایت غور و خوض سے اخذ کیا ہے جنہیں ہم اسلامی قو انین کہتے ہیں جس میں علما ء کا اختلاف ہے ۔ مسلک مذہب کی وہ باتیں ہیں جن کو کوئی بھی شخص اپنے میلان ِ طبعی کی وجہ سے اختیار کرتا ہے لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ دین کی دعوت دیتے تھے، مذہب و مسلک کی نہیں او رہم نے ایمان کی کمزوری او رعلمی انحطاط کی وجہ سے دین کی دعوت چھوڑ کر مسلک و مذہب کی دعوت دینی شروع کردی، جس کی وجہ سے امت فرقوں میں تقسیم ہوگئی۔ اس لئے امت کے افتراق کا واحد علاج یہی ہے کہ مذہب ومسلک کی لڑائی چھوڑ کر صرف دین ہی کو دعوت کا محور بنایا جائے۔’’ اللہ مولانا کو تادیر سلامت رکھے او رعمر دراز فرمائے ، آمین۔
مولانا محمد سالم صاحب قاسمی نے جس خوبصورت علمی پیرائے میں مسلمانوں کے انتشار و افتراق پر اپنی درد منادی کے اظہار کے ساتھ اپنی نجی مجلس میں علماء کو دین کے تعلق سے متوجہ کی ہے وہ ان کی بلندی فکر اور جلالت علمی کامظہر ہے ۔ دین کی بنیاد قرآن ہے اور حقیقت ہم سے کہیں زیادہ مولانا موصوف پر آشکار ا ہوگی کہ جہاں قرآن وسعتِ قلب و نظر کا داعی ہے وہیں فقہی او رمسلکی طرز فکر مسلم معاشرہ کا خانہ جنگی میں مبتلا کردیتا ہے، جس میں ہر گروہ اپنے فرقہ کا اسلام قائم کرنا چاہتا ہے۔ قرآن کریم کی موجودگی کے باوجود غیر قرآنی مآخذ پر غیر معمولی انحصار او رکتاب ہدایت کی بجائے کتب فقہ پرمشتمل آراء الرجال کو مقصد حیات قرار دینے کے سبب آج امت دین آبائی کی اسیر ہوکر رہ گئی ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنی عمر عزیز کو علوم دین کے نام وقف کر رکھا ہے ، وہ بھی اب کتاب ہدایت سے راست اکتساب کا حوصلہ نہیں رکھتے اور وقت کے چیلنج کو قبول کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔
ایسے میں مولانا موصوف کے اس علانِ حق اور تجزیہ کے بعد کیا ہمارے علماء کرام بالعموم اور وابستگان دیوبند بالخصوص حضرت مولانا محمد سالم صاحب کی زندگی بھر کے وسیع تر مطالعے ، عالمی اسفار کے مشاہدے اور تجر بات سے کچھ سبق حاصل کریں گے؟ ایسا لگتا نہیں ہے۔ اس لئے کہ ان کی روزی روٹی کا مدار درسگاہیں جنہیں دین کے قلعوں کا نام دیا جاتاہے، دین اسلام کی بنیادوں پر شب خون مارنے کی کمین گاہوں میں تبدیل ہوچکے ہیں ۔ ہر مسجد کے ممبر اور مدرسہ کی مسندِ ارشاد سے بس ایک ہی دعوت دی جارہی ہے آؤ ہمارے فرقے میں شامل ہوجاؤ۔ دین خالص کے علمبردار تو ہم ہی ہیں۔ انہیں اس بات کا قطعی شعو رنہیں کہ دین کے نام پر وہ کس بد ترین فرقہ پرستی کو فروغ دے رہے ہیں ۔ جب کہ قرآن کریم میں واضح الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ ‘‘ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو واضح آیات آجانے کے بعد بھی فرقہ بندی اور اختلاف کا شکار ہوگئے ۔ ایسے لوگوں کے لئے بڑا عذاب ہے۔’’ ( آلِ عمران :150) آج امت مسلمہ جس درد ناک عذاب میں گرفتار ہے وہ تفرقہ اور اختلافات کالازمی نتیجہ ہے۔
پیغام الہٰی کی حامل قوموں نے جب بھی دین کی تعبیر کے نام پر گروہ بندی کو جائز قرار دیا تووہ دین کے نام پر مذہبی بے جان، جامد، رسوم و عبادات میں مبتلا ہوگئیں ۔ خود قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ تمام انبیاء پر ایک ہی دین بھیجا گیا اور انہیں تاکید کردی گئی کہ ‘‘ وہ اسے قائم رکھیں اور اس میں پھوٹ نہ ڈالیں ’’ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ‘‘ لوگو! خدا تمہیں اس کتاب کے ذریعے سر بلند کرے گا، یہی وہ احکام و ہدایات او ر بشارت ہے جس کی روشنی میں حضرت مولانا محمد سالم صاحب نے مذہب و مسلک کی دعوت کو ایمان کی کمزوری اور علمی انحطاط کا نیتجہ قرار دیا ہے۔ اس لئے مولانا موصوف سے بجا طور پر یہ توقع کی جانی چاہیے کہ وہ اپنی پیرانہ سالی کے باوجود جس طرح دینی دعوت کے لئے سر گرم عمل ہیں مسلمانوں کو اس اندھی گلی سے نکالنے میں قائدانہ رول ادا کریں گے اور اپنے اس فکر و خیال کو ایک تحریک کی شکل دے کر دارالعلوم وقف دیوبند کو قرآنی دائرہ فکر میں مبنی تعلیم و تدریس کا مرکز بنائیں گے۔
یہ تحریک وحی ربانی کے جلو میں امت مسلمہ کے لئے سمت سفر کے تعین کےلئے ایک لازمی اور ناگزیر ضرورت ہے۔ ایک زمانہ قبل شیخ الہند مولانا محمود الحسن رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ مسلمانوں کے انتشار و افتراق کے سلسلے میں اسی نتیجہ پر پہنچے تھے جس پر انہوں نے اظہار پشیمانی و ندامت بھی کیا۔ مگر علماء کرام اور مدارس کے ذمہ داران نے ان کی فکر مندی و درد مندی اور تجربات کو قابل اعتناء نہیں سمجھا ۔ علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کے تعلق سےمفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک عبرت خیز واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ‘‘ ایک صبح نمازِ فجر کے وقت اندھیرے میں حاضر ہوا تو دیکھا حضرت ( علامہ کشمیر رحمۃ اللہ علیہ ) سر پکڑ ے انتہائی مغموم بیٹھے ہیں، میں نے پوچھا حضرت مزاج کیسا ہے؟ کہا : ہاں ٹھیک ہی ہے۔ مزاج کی پوچھتے ہو؟ عمر ضائع ہوگئی تو پھر کس کی عمر کام میں لگی؟ ’’ فرمایا : ‘‘ میں تمہیں صحیح کہتاہوں کہ عمر ضائع ہوگئی ’’۔ میں نے عرض کیا : حضرت بات کیا ہے؟ فرمایا :ہماری عمر کا، ہماری تقریر وں کا، ہماری ساری کدو کاوش کا خلاصہ یہ رہا کہ دوسرے مسلکوں پر حنفیت کی ترجیح قائم کریں۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مسائل کے دلائل تلاش کریں اور دوسرے ائمہ کے مسلک پر آپ کی ترجیح ثابت کریں ۔
یہ رہا ہے محور ہماری کوششوں کا، تقریروں ، عملی زندگی کا۔ اب دیکھتا ہوں کہ کس چیز میں عمر برباد کی؟ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ...... ہمارے محتاج نہیں اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، مالک رحمۃ اللہ علیہ ، احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے مسالک کے فقہا ء جن کے مقابلے میں ہم یہ ترجیح قائم کرتے آئے ہیں کہ کیا حاصل ہے ا س کا؟ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم زیادہ سے زیادہ اپنے مسلک کو درست ( جس میں غلطی کا احتمال موجود ہے) ثابت کریں اور دوسرے مسلک کو غلط ( جس کے حق ہونے کا احتمال موجود ہے) قرار دیں۔ اس سے آگے کہیں اور کوئی نیتجہ نہیں ۔ ان تمام بحثوں ، تدقیقات اور تحقیقات کا جن میں ہم مصروف ہیں ۔ پھر فرمایا ‘‘ اے میاں! اس کا تو حشر میں بھی راز نہیں کھلے گا کہ کون سا مسلک صواب تھا اورکون سا خطا ...... اور دنیا میں بھی اس کا فیصلہ نہیں ہوسکتا اور قبر میں بھی منکر نکیر نہیں پوچھیں گے کہ رفع یدین حق تھا یا ترک رفع یدین حق تھا؟ آمین بالجہر حق یا بالسر حق تھی؟ برزخ میں بھی اس کے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا اور قبر میں بھی یہ سوال نہیں ہوگا.... اور نہیں اللہ تعالیٰ میدانِ حشر میں ہمیں کھڑا کر کے یہ معلوم کرے گا کہ ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے صحیح کہا تھا یاشافعی رحمۃ اللہ علیہ نے غلط کہا تھا یا اس کے بر عکس ؟ یہ نہیں ہوگا۔ تو جس چیز کو نہ دنیا میں نکھر نا ہے، نہ برزخ میں ، نہ محشر میں ، اسی کے پیچھے پڑ کر ہی ہم نے تمام عمر ضائع کردی۔
اپنی قوت صرف کردی اور جو اسلام کی صحیح دعوت تھی اور دین کی جو ضروریات سبھی کے نزدیک اہم او رمسلمہ تھیں، جن کی دعوت انبیاء کرام لے کر آئے تھے اور جن کی دعوت کو عام کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا تھا وہ منکرات جس کے مٹانے کی کوشش ہم پر فرض کی گئی تھی، آج یہ دعوت تو نہیں دی جارہی ہے۔ ضروریات دین تو لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہورہی ہے اور اپنے واغیار دین کے چہرے کو مسخ کررہے ہیں۔منکرات کو فروغ ہورہا ہے، گمراہی پھیل رہی ہے، الحاد آرہا ہے، شرک و بت پرستی کا دور دورہ ہے، حلال و حرام کا امتیاز اٹھ چکا ہے لیکن ہم لگے ہوئے ہیں، ان فرعی اور فروعی بحثوں میں ، یوں غمگین بیٹھا ہوں اور محسوس کررہا ہوں کہ ساری عمر ضائع کردی۔ شاہ صاحب کا یہ تاثر در حقیقت ایک طرف تو قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کی عبرت آموز تفسیر ہے جس میں اسلاف کے ساتھ ہمارے رشتے اور تعلق کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ ‘‘ یہ لوگ اپنے اپنے کام سر انجام دےکر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انہوں نے جو اچھے کام کئے اس کا اجر انہیں ملے گا اور ان کی غلطیوں کا ان سےمواخذہ ہوگا ، تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ انہوں نے کیا کیا تھا؟ ‘‘ تم سے یہی پوچھا جائے گا کہ تم نے کیا کیا تھا؟’’ (البقرہ :141) دوسری طرف ان کا یہ تاثر ہے کہ قال اللہ وقال الرسول کا وظیفہ پڑھنے پڑھانے والی یہ درسگاہیں اپنے بارےمیں خواہ کتنے ہی بلند خیال رکھتی ہوں، واقعہ یہ ہے کہ یہ اپنی معنویت کھو چکی ہیں، ان کا وجود بے محل ہوکر رہ گیا ہے۔
اب دنیا کا انحصار ان پر نہیں ، ان کا انحصار دنیا پر ہے ۔ اسی طرح شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے تعلق کے مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں جو انتہائی غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ‘‘ میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی و دنیا وی ہر حیثیت سےکیوں تباہ ہورہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے ۔ ایک ان کا قرآن کو چھوڑ دینا اور دوسرے آپسی اختلافات اور خانہ جنگی ، اس لئے اس میں وہاں سے یہ عزم لےکر آیاں ہو ں کہ قرآن کریم کو لفظاً او رمعناً عام کیا جائے۔بچوں کے لئے لفظی تعلیم کے مکاتب ہر بستی میں قائم کئے جائیں ، بڑوں کو عوامی درس کی صورت میں قرآن کےمعانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کےلئے انہیں آمادہ اور تیار کیا جائے اور مسلمانوں کے باہمی جنگ وجدل کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے ۔’’ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے جو یہ فرمایا کہ مسلمانوں کی تباہی کے دو سبب معلوم ہوئے، ایک ان کا قرآن کو چھوڑ دینا اور دوسرا آپسی اختلافات تو یہ دوسرا سبب دراصل پہلے سبب کا فطری نتیجہ ہے۔
قرآن کریم اپنے نزول کا مقصد جو بیان کرتا ہے وہ نوع انسان کے باہمی اختلاف کو ختم کرنا اور انہیں ہدایت و رہنمائی کے ذریعے صراطِ مستقیم پرگامزن کرنا ہے۔ لہٰذا قرآن کریم کو چھوڑ دینے کافطری نتیجہ باہمی اختلافات ہیں اور ان کو مٹانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہر اختلافی مسئلہ میں قرآن کریم کو اتھارٹی تسلیم کیا جائے اور ساری سعی و جہد کا محور دین اسلام ہو، نہ کہ مذہب و مسلک جو آبا ء پرستی اور اسلاف کی پرستی کی ترغیب دیتا اور انتشار و افتراق پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔جب اللہ تعالیٰ خود توحید کے بنیادی اعتقادات کو ہمیں عقلی استدلال کے ذریعے باور کرتا ہے اور قرآن اپنے ماننے والوں سے اس بات کا طالب ہے کہ وہ تحقیق و تجزیہ کے ذریعے ہر شئے کی ماہیت تک پہنچنے کی کوشش کریں تو پھر عام انسانوں کو یہ حق کیسے دیا جاسکتا ہے کہ وہ اجماع یا اکثریت کے حوالے سے ‘ ‘ یا ہم نے اپنے بزرگوں کو یہی کرتے دیکھا ہے۔’’( الشعراء :74) کے سہارے ہمیں کسی مسئلہ کو طے شدہ اور اس پر زباں بندی کا فیصلہ سنائیں ۔ یہ رویہّ قرآن کے انقلاب آفریں پیغام کے خلاف ہے اور مذہب و مسلک کی بنیاد ہی ا س رویہّ پر ہے۔
1 جولائی، 2013 بشکریہ : روز نامہ جدید خبر ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/schism-community-/d/12542