عظیم ایم میاں
27 مئی ، 2015
مسلم دنیا کی موجودہ تشویشناک صورتحال اور قوموں کے عروج و زوال کو سمجھنا ہے تو اسپین کے شہر قرطبہ اور غرناطہ کی تاریخ کا تجزیہ اور مشاہدہ ضروری ہے۔ دہشت گردی، داخلی انتشار، شیعہ سنی اختلافات و تقسیم، عرب اور مسلمانوں کی تقسیم اور زوال کے دیگر اسباب وہاں بھی نظر آئیں گے۔ جی ہاں! وہی قرطبہ جہاں مسلمانوں نے 750 سال سے زائد حکمرانی کے دور میں وسیع و عریض مسجد قرطبہ اور الحمراء باغات بھی تعمیرکئے اور قابل رشک ورثہ بھی چھوڑا۔ اگر اسپین پر مسلم حکمرانی کے آغاز اور زوال کے مراحل کے 100 سال نظر انداز بھی کردیں تب بھی 650 سال سے زائد عرصہ تک حکمرانی رہی۔ جولین نامی ہسپانوی چیف نے اپنے ہی عیسائی بادشاہ کے مظالم سے تنگ آکر مسلمان حکمران موسٰی بن نصیر سے اندلس کے عیسائی عوام کو نجات دلانے کے لئے فریاد کی تھی جس پر موسٰی بن نصیر نے جنرل طارق بن زیاد کو 12 ہزار سپاہیوں کے لشکر کے ساتھ روانہ کیا اور ہسپانیہ کے عیسائی عوام نے مسلمانوں کی فتح ہسپانیہ پر اطمینان کا سانس لیا تھا لیکن سات صدی تک حکومت کرنے والے حکمران طبقہ کی ایک دوسرے کے خلاف سازشوں عوام سے لاتعلقی غیروں کی سازشوں اور یورشوں نے پھر وہ حالات پیدا کئے کہ انتہا پسند عیسائی گروہوں اور مقامی حکمرانوں نے مسلح جدوجہد کرکے نہ صرف مسلمانوں کی حکمرانی ختم کی بلکہ اسپین میں لاکھوں مسلمانوں کا تاریخی اور سب سے بڑا قتل عام کیا۔ مسجد قرطبہ میں جگہ جگہ چرچ بنا کر اُسے کتھیڈرل کا نام دیا گیا۔
مسلمانوں اور یہودیوں پر ایک طویل مدت تک اسپین جانے پر پابندی لگی رہی۔ 500 سال تک قرطبہ ہی نہیں پورے اسپین میں اذان تک دینے پر پابندی رہی۔ نظم مسجد قرطبہ اور ہسپانیہ کی عظمت رفتہ اور حالت زار بیان کرنے والے ہمارے مفکر و دانشور علامہ اقبال کو بھی قرطبہ جانے کے لئے حکومت برطانیہ سے خصوصی اجازت لینا پڑی تھی۔ علامہ اقبال نے مسجد قرطبہ کے محراب میں جا کر جو نماز پڑھی وہ بھی اسپین کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پڑھی تھی۔ آج بھی مسجد قرطبہ میں بنائے گئے چرچوں میں سیاحوں اور زائرین کو عیسائی عبادات کی کھلی اجازت ہے مگر کسی مسلمان کو وہاں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے جواز یہ ہے کہ یہ کتھیڈرل اور ثقافتی آثار قدیمہ ہے لہٰذا محراب کے حصہ میں مسلم عبادت کی اجازت نہیں۔ مجھے گزشتہ بارہ سال میں کئی بار قرطبہ و غرناطہ جانے کا موقع ملا۔رواداری جمہوریت اورسیکولرازم کے اس دور میں بھی مسجد قرطبہ بدستور کتھیڈرل ہے اور مسلمانوں کے لئے نماز کی ممانعت کے ساتھ اب تو محراب کا حصہ بھی بند کردیا گیا ہے۔ قرطبہ و غرناطہ کی شاندار تہذیب اور سات صدی تک مسلمانوں کی حکمرانی کے بعد المناک زوال کی داستان کے اسباب ایک بار پھر موجودہ مسلم دنیا میں پیدا ہوگئے ہیں عوام سے لاتعلق مسلمان حکمران ان ہی کاموں میں مصروف ہیں جنہوں نے اسپین کے مسلمان حکمرانوں اور سلطنت کو تباہی کے غار میں دھکیلا تھا۔ اسپین کی تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمان حکمرانوں کا وہ دور ترقی ، استحکام اور شان و شوکت کا دور تھا جب مسلمان حکمرانوں کو یہودیوں اور عیسائی دانشوروں کی مشاورت اور تعاون حاصل تھا۔ یماندیس مشہور طبیب اور مشیر یہودی تھا اس کا مجسمہ آج بھی قرطبہ کی ایک تاریخی اور چھوٹی سی گلی میں نصب ہے جبکہ نیویارک میں یماندیس اسپتال اور اس کی راسخ العقیدہ روایات کا تناظر بھی مجھے قرطبہ سے واپسی پرسمجھ میں آیا۔
اسپین میں مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین تعاون اور خیر سگالی اور دیگر مذاہب کے ساتھ رواداری کے تاریخی تناظر میں نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے قریب مسجد کی تعمیر کے عالمی شہرت یافتہ تنازع کے اہم کردار امام فیصل نے مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے درمیان ڈائیلاگ اور افہام و تفہیم کے لئے ’’قرطبہ انی شیٹو‘‘ (Corduba initiative) کے نام سے ایک تنظیم قائم کر رکھی ہے جس کا مقصد مسلمانوں اور مغربی ممالک کے مختلف مذاہب کے درمیان ڈائیلاگ اور تعلقات کو بہتر بنانا ہے گوکہ اس سے قبل بھی بین المذاہب ڈائیلاگ اور پروگرام منعقد ہوئے لیکن اس مرتبہ ایک یہودی سینی گاگ (یہودی عبادتگاہ) میں مسلمان پاکستانی قوال ایاز فرید اور ابومحمد کے گروپ کا پروگرام منعقد کرنے کا اعلان دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی۔ نیویارک میں40 سالہ زندگی کے دوران میرے لئے یہودی عبادت گاہ میں مسلم مذہبی موسیقی کا پروگرام پہلا دلچسپ اور قدرے حیران کن واقعہ تھا۔ جب ہم سینی گاگ پہنچے تو بڑی تعداد میں مخصوص مذہبی علامت والی ٹوپیاں پہنے ہر عمر کے یہودی ،چندسکھ اور ہندو اور ایک بڑی تعداد پاکستانی مسلمانوں کی نظر آئی۔ ہمارے ایک نوجوان کالم نگار معین نوازش بھی نظر آئے جونیویارک میں تعلیم مکمل کر کے پاکستان واپسی کی تیاری کر رہے ہیں۔
پروگرام کے آغاز میں امام فیصل اور عبرانی (یہودی) میوزک کی نامور سنگر باسیہ (Basya Schechter) کے درمیان مسلم میوزک اور یہودی میوزک کی مشترکہ باتوں، روایات اور طریقوں پر گفتگو ہوئی۔ مسلم یہودی تعاون کی تاریخ، و حدانیت کا مشترکہ فلسفہ اور مشترکہ تعلیمات پر دونوں کی گفتگو سننے کو ملی پھرباسیہ نے اپنی مختصر ٹیم کے ساتھ عبرانی گیت اور جو میوزک پیش کیا زبان نہ سمجھنے کے باوجود وہ انتہائی دل نشیں صوفی میوزک تھا۔ دوسرے مرحلے میں پاکستانی قوال ایاز فرید اور ابومحمد اوران کے ساتھیوں نے جب حمد و نعت سے آغاز کیا تو یہودی خاتون سنگر باسیہ نے بھی لاالہ اور اللہ ہو بھی ا سٹیج پر ان قوالوں کے ساتھ گایا بلکہ عبرانی میں خدا کی وحدانیت کے متعدد مصرعے بھی شامل قوالی کر کے حاضرین کو چونکا دیا اور بین المذاہب ڈائیلاگ کی ایک نئی روایت قائم کی جب کہ باسیہ نے بھی لاالہ الا اللہ کی قوالی میں شامل ہو کر اسے خوب توجہ سے پیش کیا اپنی رواداری کا ثبوت دیا بعد میں مجھ سے گفتگو کے دوران باسیہ نے بتایا کہ وہ نصرت فتح علی خاں کی موسیقی کی دیوانی ہیں اور ان سے امریکہ میں ملاقاتوں میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ ایک اچھی بات یہ بھی تھی کہ پاکستانی ڈاکٹر عاصمہ جمیل صادق نے شستہ انداز سے انگریزی میں صوفی میوزک اور قوالی کے بارے میں سامعین کو آگاہ کیا جب کہ یہودی میزبانوں نے قوالی کے انتظام و احترام کو بڑے مستعد انداز میں قائم رکھا۔ ہمارے قوال حضرات بھی بڑی شائستگی سے وقفہ وقفہ سے انگریزی میں تشریح بھی کرتے رہے اور زبان کی سمجھ سے قاصر وہاں سامعین نے خوب لطف اٹھایا بلکہ دھمال بھی ڈالی۔
یہودی عبادت گاہ کے مذہبی رہنما بھی قوالی سے محظوظ ہوتے رہے۔ مسلم میوزک اور یہودی میوزک کے اشتراک کا یہودی عبادتگاہ میں ہونے والا یہ پروگرام میرے لئے بھی منفرد تجربہ تھا۔ امام فیصل کا کہنا ہے کہ ڈائیلاگ اور باہمی تعاون سے بہت سی غلط فہمیوں، بدگمانیوں اور فاصلوں کو دور کرنے میں مدد ملے گی۔ ماضی میں قرطبہ میں مسلمانوں یہودیوں اور دیگر مذاہب کے انسانوں کے درمیان تعاون و اشتراک نے دنیا کو علمی، سائنسی، ثقافتی اور معاشی میدان میں شاندار ترقی دی۔ قرطبہ کے تاریخی تناظر میں اسلام اور دیگر مذاہب کے درمیان ڈائیلاگ و اشتراک ہمیں امن اور ترقی و استحکام دے سکتا ہے۔ امام فیصل کی بات درست ہے اس وقت مسلم دنیا ابتری اور زوال کا شکار ہے۔ اپنی بقاء کے لئے بھی مسلم دنیا کو ڈائیلاگ کی شدید ضرورت ہے ۔
27 مئی ، 2015 بشکریہ: روز نامہ جنگ ، کراچی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/muslim-qawwali-synagogue-/d/103199