عائشہ
17 اپریل، 2006
گزشتہ چند دنوں پہلے میں نے مولانا مودودی پر اپنى تحقیق کرده تفویضی پیپر کو مكمل کیا ۔ میں اپنی تحقیقى معلومات سے حیرت زدہ تھی لہٰذا میں نے چاہا کہ ان میں سے کچھ کو یہاں شائع کیا جائے ۔
مودودی کا ایک مختصر تعارف : وہ دور جدید کے انتہائی بااثر اسلامی مفکرین میں سے ایک رہے ہیں اور پوری مسلم دنیا میں بڑے پیمانے پر انہیں پڑھا جاتاہے ۔ وہ جماعت اسلامی اور اس کی نظریاتی تحریک کے بانی بھی ہیں ۔
مودودی کی فكر انتہائی دساس تھی اسى وجه سے حالیہ دنوں میں جماعت اسلامی تشدد، غیر معقول بنیاد پرستی اور گندی سیاست کا مترادف بن گئی ہے۔ علاوہ ازیں اپنى سیاسی فكر کی وجہ سے مودودی ایک " مذہبی و جمہوری " اسلامی ریاست کے قائل تھے ۔ روایتی اسلامی سیاسی فلسفہ میں ایک جمہوری ریاست کو ریاستوں کے تنظیمی ڈھانچے میں سب سے زياده لاعلم رياست سمجھا جاتا ہے۔ اس نظریہ کی بنیاد الفارابی نے رکھی تھی جو بنیادی طور پر افلاطون کے فلسفہ پر مبنی تھی اور اسے بڑے پیمانے پر روایتی اور یہاں تک کہ قرون وسطی کے اسلامی سیاسی فلسفیوں کے ذریعہ قبول کیا گیا تھا ۔ لہٰذا مودودی کا معاملہ انتہائی دلچسپ ہے اس لئے کہ وہ بھی روایتی فلسفیوں کے بنیادی نظریات کے قائل ہیں لیکن وہ اس كے علاوه ریاست کے مذہبی و جمہوری ماڈل کو ترجیح دیتے ہیں ۔
اصل موضوع کے بجائے ادھر ادھ کی باتیں بہت ہو گئیں ۔
حصہ1
مودودی کی فکر کا مذہبی پہلو
مولانا مودودی اسلامى زندگی کے مکمل ضابطہ حيات كى وکالت کرنے کے لئے جانے جاتے ہیں ۔ ان کی یہ بات بہت مشہور ہے کہ انسانی زندگی کا ایسا کوئی پہلو نہیں ہے جو اسلامی نظام کے دائرے میں نہیں آتا ہو ۔ یہ اصول ان کے ذریعہ تشکیل دئے گئے تمام نظریات کی بنیاد ہے۔ مودودی اس تمہید سے شروع کرتے ہیں کہ مذہب اسلام " غیر متعلقہ خیالات اور خلط ملط طرز عمل کا نام نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک ایسا نظام ہے جو اچھی طرح منظم ہے اور جو واضح اور معین اصول پر قائم و دائم ہے ۔ اسی لئے یہ ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ خدا کی اطاعت میں پوری زندگی گزارے جو کہ اس مکمل ضابطہ کا فراہم کنندہ ہے ۔
اس کا مطلب ہے کہ یہ مولانا موددی پر واجب ہے کہ اپنے ذاتی اور سماجی حلقوں میں اللہ تعالیٰ کے قوانین کے مطابق حکم دیں نہ کہ انسانی ہدیات کے مطابق ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ایک مسلمان کی زندگی میں نا قابل تبدیل ہے ( مودودی، 49) ۔ اگر صرف خدا کائنات کا قانون ساز ہے، تو ایک مسلمان کے پاس صرف خدا کی حاکمیت پر یقین کرنے کے سوا اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
صرف خدا کی حاکمیت پر ایمان رکھنے کا مطلب درجہ ذیل کے مطابق ہے ( مودودی ، 49 - 57):
1۔ " حکمرانی کرنے کا حق " صرف اور صرف خدا کو ہے۔ وہی تمام جہانوں کا مالک ہے اور کائنات کے تمام کام کاج کا تعین کرنے کا حق صرف اسے ہی ہونا چاہئے۔ مودودی کا کہنا ہے کہ خدا کی "صحیح حکومت " کو زمین پر قائم کرنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ " خلیفہ " کے ذریعے ہے جو کہ یہاں زمین پر خدا کا نائب ہوگا ۔ اس بات پر زور دیا جانا چاہئے کہ " خلیفہ " محض ایک ایسا ذریعہ ہے جس کے ذریعہ خدا اپنی مرضی کو نافذ کرتا ہے اور کوئی سیاسی طاقت اپنے لئے استعمال نہیں کرتا ۔
2۔ مندرجہ بالا دلیل کی بنیاد پر قانون سازی کا حق انسانوں سے چھین لیا گیا ہے اور صرف خدا کے لئے مخصوص ہے ۔ اس کے علاوہ، انسانوں کو باہمی مشاورت اور اجتہاد کے ذریعے قرآن مجید میں پیش کردہ خیالات کی تشریح کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ شرط یہ ہے کہ ایسا اسلامی قانون کے دائرے کے تحت کیا جانا چاہئے ۔ یہاں ضروری نقطہ یہ ہے کہ اگر انسان خدا کی خود مختاری میں یقین رکھتا ہے تو اسے خدا کے ذریعہ مقرر کردہ قوانین پر کسی اور قانون کو فوقیت دینے کی اجازت نہیں ہے۔
3۔ حقیقی انصاف اور مساوات کو معاشرے صرف اس وقت قائم کیا جا سکتا ہے جب اسے خدا کے قوانین کے مطابق قائم کیا جائے جو کہ اس کے منتخب بندوں کے ذریعے پیش کیا گیا ہے ۔
4۔ مودودی کا یہ کہنا ہے کہ خدا کا قانون قانونی طور پر قانوں کا حصہ نہیں ہے ۔ یہ ایک حقیقی وجود ہے اور اس پر مکمل طور پر عمل کیا جانا چاہیے۔ جو بھی حکومت اوپر بیان کردہ معیار پر عمل نہیں کرتی اور اپنے نظریات کی تعمیر خود کرتی ہے اسے منحرف اور اسلامی اصولوں کا باغی قرار دیا جا ئے گا ۔
مودودی کا یہ کہنا ہے کہ قرآن کا مقصد صرف انسانیت کو اس کے احکامات کی اطاعت کا پابند بنانا نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد ایک منصفانہ اور مساوات پر مبنی معاشرے کی تشکیل کرنا ہے ۔
سیاسی مملکت میں پھیلایا گیاخودمختاری کا تصور
مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں یہ ظاہر ہے کہ صحیح معنوں میں خدا کی حاکمیت قائم کرنے کے لئے انسان کو سیاسی طاقت پر غلبہ حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مودودی کے لئے مسلمانوں کو یہ سیاسی طاقت صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتی ہے جب انہیں ریاست پر کنٹرول حاصل ہو ۔ ایک ایسی ریاست جو قرآنی احکامات کے مطابق سماجی نظام کی تخلیق کرے ، جوکہ صرف " جابرانہ طاقت " کے ذریعہ ہی حاصل کی جا سکتی ہے ( مودودی ، 67) ۔
مودودی نے کہا کہ تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ ایک مخصوص طرز زندگی صرف ایک جابر ڈھانچے کے ذریعہ ہی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ لہٰذا الہی قوانین کے مطابق ایک ریاست کو مکمل نظم و ضبط کے ساتھ منظم کرنے کی ذمہ داری ریاست پر ہے ۔ اس مقصد کے حصول کے ذریعے، ریاست معاشرے سے ہر قسم کی برائی اور اختلاف کو ختم کرنے کے قابل ہو جائے گی ۔
یہاں نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ اس نقطہ نظر کے تحت تشکیل دی گئی ریاست، ریاست کے مروجہ تصور سے واضح طور پر منفرد ہوگا ۔ یہ ریاست صرف ایسے ا فراد کا ایک مجموعہ نہیں ہوگی جو قانون سازی کریں گے اور عوام پر قوانین کو نافذ کرنے والے ہوں گے ۔ اس کے برعکس، ریاست ایسے افراد کی ایک جماعت ہوگی جو " خدا کی مرضی اور مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے خدا کے بندوں کے طور پر مل کر کام کرے گی " ۔
نوٹ: یہاں نقل کئے گئے تمام حوالہ جات اور اقتباسات جو مودودی سے براہ راست منسوب ہیں وہ مصنف کے ذریعہ کئے گئے ان کے نظریات کا ترجمہ ہیں جو کہ کتاب " اسلامی ریاست " میں واضح کئے گئے ہیں۔
(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الهدى، نیو ایج اسلام)
ماخذ: http://ayesha.wordpress.com/2006/04/17/maududi-the-islamic-state-and-jamaat-i-islami-part-i/
URL for English article:
https://newageislam.com/islam-politics/maududi,-islamic-state-jamaat-e-part-1/d/13254
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/maududi,-islamic-state-jamaat-e-part-1/d/13373