عائشہ فخر
اسلامی دنیا کی قیادت کی خواہشات، تیل کی برآمدگی کی پالیسی، امریکہ اور مغرب کے ساتھ تعلقات اور اسلام کی تشریحات جیسے مختلف جغرافیائی و سیاسی مسائل کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب کی حکومت کے درمیان باہمی تعلقات کشیدگی کا شکار ہے۔ اگرچہ سعودی عرب اور ایران دونوں مسلم اکثریتی ممالک ہیں اور ان دونوں ملکوں کا نظام حکوت شریعت اسلامیہ پر مبنی ہے، ان کے آپسی تعلقات ایسے سیاسی ایجنڈے میں اختلافات کی وجہ سے دشمنی، کشیدگی اور محاذ آرائی کی نذر ہو چکے ہیں جنہیں ان کے عقائد میں اختلافات کی وجہ سے تقویت ملتی ہے۔
مشرق وسطی کے ان دو ممالک کے درمیان تنازعہ کی گہری مذہبی تاریخی اور سیاسی بنیادیں ہیں۔ یہ دونوں ممالک اسلام کے دو اہم مخالف اطراف- سنی اور شیعہ کے درمیان- اختلافات کا شکار ہیں۔ شیعہ سنی دشمنی کے علاوہ اس تنازعہ کو مشرق وسطی میں حصول اقتدار کی جدوجہد قرار دیا جا سکتا ہے اور جو مختلف جہتوں سے شامی خانہ جنگی کی وجہ بن چکی ہے، اور جس نے مشرق وسطی کا نقشہ تبدیل کر دیا ہے۔ یہ عداوت چند روز قبل اس وقت بڑھ گئی جب سعودی عرب نے داخلی دہشت گردی کا حصہ تصور کر کے اور انہیں اپنی حکومت کے لئے خطرہ مان کر کل 47 افراد کو پھانسی پر لٹکا دیا۔ ایک ممتاز شیعہ عالم دین کی پھانسی کی وجہ سے ایران میں دشمنی کی ایک آگ بھڑک اٹھی اور تب سے ان دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات معطل ہو چکے ہیں ، دونوں ملکوں کی جانب سے غم و غصے کا اظہار کیا جا چکا ہے اور تہران میں سعودی سفارت خانے کے باہر احتجاج بھی کیا جا چکا ہے۔
یہ امر بالکل واضح ہے کہ سنی سعودی عرب اور شیعہ ایران نے اپنے عزائم کو پایہ ٔتکمیل تک پہونچانے کے لیے اس فرقہ وارانہ تقسیم کو استعمال کیا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ: خطے کے مستقبل اور سنی اور شیعہ کے درمیان سیاسی توازن پیدا کرنے کےلیے اس دشمنی کا خاتمہ کس طرح کیا جائے؟ سنی اور شیعہ مسلمان صدیوں سے پر امن طریقے سے زندگی گزار رہے ہیں اور ایک دوسرے کے تئیں روادار رہے ہیں۔ مکالمے اور تشدد مخالف اقدام کے ذریعے کشیدگی کم کرنے کے لئے بہت سے شیعہ اور سنی علماء کی کوششوں کے باوجود، اسلام کی تقسیم کے خطرے سے تشدد میں اضافہ ہوگا، اور اس سے نہ صرف ان دونوں ممالک کے امن اور سلامتی کو نقصان پہونچے گا ، بلکہ دوسرے ممالک بھی اس سے متاثر ہوں گے۔
شیعہ سنی کشیدگی سے مسلم ممالک اور خاص طور پر مشرق وسطی میں دشمنی کی آگ کو ہوا ملی ہے، جس کے بعد کبھی کبھی بین الاقوامی امن و سلامتی کو بھی خطرہ لاحق ہوا ہے۔ 2013 کے بعد سے فرقہ وارانہ تشدد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، اور خاص طور پر شام، لبنان، مصر میں دونوں فریق انتہاپسندوں کو فرقہ وارانہ ترغیب و تحریص کے ذریعہ بھڑکا رہے ہیں، اور یہ وہ نام ہیں جو دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف عالمی سطح پر غم و غصہ کی وجہ ہیں۔ شام میں جاری خانہ جنگی فرقہ وارانہ تشدد کی ایک سخت ترین شکل ہے، جن نے شیعہ اور سنی دونوں فرقوں سے تعلق رکھنے والے ان لاکھوں مسلمانوں کو بے گھر کر دیا ہے جو اب مہاجرین بن چکے ہیں اور دنیا بھر میں پناہ کی تلاش میں سرگرداں ہیں ۔ اس فرقہ وارانہ تنازعہ نے ایک بڑے پیمانے پر بین الاقوامی انسانی بحران کو جنم دیا ہے۔
سعودی عرب اور ایران نے خاص طور پر حالیہ دنوں میں شام میں پراکسی جنگ میں کافی وسائل کا استعمال کیا ہے، جو مشرق وسطی میں رہنے والے مسلمانوں میں نفسیاتی طور پر خوف، تکلیف، مایوسی اور انتشار کی وجہ ہے اور یہ نفسیاتی طور پر ان کی پوری زندگی کے لیے پریشان کن رہے گی۔ فرقہ واریت کسی بھی معاشرے کے لئے ایک لعنت ہے۔ اگرچہ (عیسائیت سمیت) اکثر مذاہب کئی فرقوں میں تقسیم ہو چکے ہیں، اس نے مسلمانوں کو منفی طور پر متاثر کیا ہے۔ یہ درار اور تقسیم پہلے ہی کئی مشکلات پیدا کر چکی ہے اور اس نے بہت سے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ انہیں خود اس بات کا احساس ہونا چاہئے ان کی یہ جاری رسہ کشی بالآخر خود انہیں ہی کمزور کر دے گی۔ اور آج نہیں تو کل انہیں بھی ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا ہوگا۔ وقت کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ اس مسئلہ کی شدت اور حساسیت کا ادراک کیا جائے، اور اگر مناسب بات چیت اور مکالمے کے ذریعے اسے کنٹرول نہیں کیا گیا تو یہ دونوں ممالک بھی شام کی ہی طرح تباہ و برباد ہو جائیں گے اور پھر پوری امت مسلم تباہی کا شکار ہو جائے گی۔
ریاست پاکستان کو بھی اپنی دائمی خوشحالی کے لئے مضبوط اقدامات کرنا ضروری ہے۔ ریاست کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ اس کے تمام باشندوں کو فرقے اور نسل سے قطع نظر مساوی حقوق اور ذمہ داریاں حاصل ہوں گی۔ ہمارے ملک کی عوام کو پرامن اور پرسکون رہنا اور ایک غیر جانبدار موقف اختیار کرنا چاہئے اس لیے کہ یہ مذہبی تقسیم یقینا ہمارے ملک کے جغرافیہ کو بھی اسی طرح تباہ و برباد کر دیگا جس طرح اس نے شام کے جغرافیہ کو تباہ کر دیا ہے۔
ماخذ:
pakistantoday.com.pk
URL for English article: https://newageislam.com/islam-sectarianism/religious-division/d/105926
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/religious-division-/d/105998