عائشہ چودھری
27 مارچ 2014
مسلمانوں کو گھریلو تشدد کے ساتھ پریشانی ہے۔ پہلے میں اس معاملے کو خوب واضح کر دوں کہ اکثر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ ایک خوفناک بات ہے۔ لیکن پریشان کن حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے یہ ثابت کرنا ایک مشکل امر ہے کہ ہر قسم کے گھریلو تشدد دین اسلام میں ممنوع ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری مقدس کتاب میں ایک آیت ایسی ہے کہ اس کی تشریح اس انداز میں کی جا سکتی ہےجس سے اس بات کا جواز ثابت ہو کہ شوہر اپنی بیویوں کی پیٹائی کر سکتے ہیں۔
یہ آیت سورۃ 4 کی 34 نمبر کی آیت ہے جسے تاریخی طور پر ایسی آیت مانا گیا ہے کہ اس سے اس بات کا جواز ثابت ہوتا ہے کہ شوہر اپنی نافرمان بیویوں کی سرزنش کر سکتے ہیں، ان سے خلوت گزینی ترک کر سکتے ہیں اور انہیں جسمانی طور پر زد و کوب بھی کر سکتے ہیں۔ یہ آیت ان جدت پسند مسلمانوں کے لئے ایک معما اور ابہام کا سبب ہے جو صنفی مساوات پر یقین رکھتے ہیں اور اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ زد و کوب کی تو بات ہی چھوڑ دیں شوہر کو اس بات کا بھی کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی کو تاکید و تنبیہ کرے۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ متقی مسلمان گھریلو تشدد کے خلاف بات کریں اور اس آیت کے تئیں وفادار رہیں جو بیویوں کو مارنے کی اجازت دیتا ہے؟
حاصل نتیجہ یہ کہ اس مسئلے کا حل نہ صرف یہ کہ خود قرآن میں ہے-بلکہ اس کا حل اسی آیت میں ہیں۔
بہت سے اسلامی علماء سالوں سے آیت 4:34 کی غیرمتشدد اور غیر دقیانوسی تشریحات پیش کر رہے ہیں۔ اس آیت کے گہرے مطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اگر زوجین کو ازدواجی زندگی میں مشکلات کا سامنا ہو تو سب سے پہلے انہیں معقول انداز میں اس مسئلہ پر گفتگو کرنی چاہیے۔ اور اگر اس سے مسئلہ کا کوئی حل نہیں نکلتا ہے تو زوجین کو ایک تجربہ کے لیے کچھ دنوں تک علیحدہ رہنا چاہیے۔ اگر یہ بھی ناکام ہو جاتا ہے تو زوجین کو ہمیشہ کے لیے علیحدہ ہو جانا چاہئے، لیکن اگر اس میں کامیابی ملتی ہے تو انہیں دوبارہ خلوت نشینی کر لینی چاہئے۔ یہ متبادل تشریح قرآن کی اصل عبارت کے ساتھ موزوں ہے جو کہ اس آیت کا گہرائی کے ساتھ اچھے طریقے سے مطالعہ کرنے پر سمجھ میں آتی ہے۔
لیکن اگر اس کی نئی تشریحات پیش کرنا اتنا زیادہ آسان ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس غیر متشدد تشریح کو زیادہ وسیع پیمانے پر قبولیت حاصل کیوں نہیں ہوئی؟
جواب اس ایک اہم حقیقت میں مخفی ہے: مذہبی نصوص کا مطلب وہ ہوتا ہے جو ان کے متبعین کہتے ہیں۔ نصوص کی اپنی کوئی آواز نہیں ہوتی۔ ان کی ترجمانی ان کے ماننے والوں کے ذریعہ ہوتی ہے۔ 1.3 بلین کی آبادی پر مشتمل 1400 سو سال پرانی اس کمیونٹی کے ساتھ اسلامی مذہبی نصوص کی بہت ساری تشریحات بہت سے ایسےکمیونٹیز کی مختلف تاریخ اور تجربات کی عکاسی کرنے کے لیے ہوئی ہیں جو خود کو مسلم کہتی ہیں۔
در حقیقت آیت 4:34 کو قانونی طور پر ہےدونوں طریقوں سے یعنی تشدد اور عدم تشدد یا بیوں کے خلاف تشدد کو روا رکھنے کے طور پر یا ازدواجی تنازعہ کو حل کرنے کے لئے ایک غیر متشددطریقہ پیش کرنے والی آیت کے طور پر بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ مسلمان جس تشریح کا بھی انتخاب کریں اس پر عمل کر سکتے ہیں اور ایک ناگزیر حقیقت یہ ہے کہ منتخب تشریح سے آیت سے زیادہ مسلمانوں کی ذہنیت کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔ ایک بھاری ذمہ داری کے ساتھ اس حیرت انگیز معرفت کا ظہور ہوتا ہے: اس کے معنیٰ کے لیے آیت 4:34 کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے ان کی تشریحات کے لئے خود مسلمانوں کو اس کا ذمہ دار سمجھنا چاہیے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ مسئلہ صرف اسلام کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے۔ بلکہ ہر اس مذہبی روایت پر عقیدہ رکھنے والوں کے لیے جس کی جڑیں پدرانہ نصوص میں سرایت کی ہوئی ہیں صنفی مساوات اور انصاف کے ابھرتے ہوئے تصور کے ساتھ ان مذہبی روایات کی مصالحت کرنے کے طریقوں کو تلاش کرنا ضروری ہے جن کی تشریح صنفی امتیاز، سماجی عدم مساوات اور مذہبی عدم رواداری کی اجازت دینے کے لیے کی گئی ہے۔
دین کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اسے اس دور جدید کے ساتھ ہم آہنگ بنایا جائے اور ساتھ ہی ساتھ اس کے تار ماضی سے بھی جڑے ہوں، تاہم یہی وہ خصوصیت ہے جس کی وجہ سے مومنوں کے اندر یہ احساس بیدار ہوتا ہے کہ ان کا تعلق ایک ایسی ‘‘روایت’’ سے ہے جو خود ان سے زیادہ طویل اور مستقل ہے۔ لہٰذا مذہبی عقائد کو انصاف کے اس ابھرتے ہوئےتصور کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ہر کوشش میں مومنوں کو ان روایت کے ساتھ اپنے تعلقات پر دوبارہ گفت و شنید کرنے کی ضروت ہے جو ان اقدار کے حامل نہیں ہیں۔
دوبارہ تشریح کے اس عمل میں ایک ناگزیر قدم مذہبی روایت کی ایک شفاف اور غیر متزلزل جانچ ہے۔ مومنوں کو اپنی تاریخ کے تئیں معذرت خواہ ہونے یا اس پر شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن یقینی طور پر انہیں اپنی مذہبی روایت کے ان پہلوؤں کو برقرار رکھنے اور اس کا دفاع کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو جابرانہ اور ظالمانہ ہیں۔
مذہبی روایات خود اپنے سماجی اور تاریخی سیاق و سباق کے ذریعہ تشکیل پاتے ہیں اور یہ فطری بات ہے کہ انصاف اور صنفی مساوات کے ابھرتے ہوئے تصور کے پیش نظر جدت پسند مسلمان جنسی تشدد کے خلاف خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے قرآن کا سہارا لیں گے۔ انہوں نے ایسا کرنا شروع کر دیا ہےاور باقی ہم تمام لوگوں کو خواہ وہ مسلم ہوں یا کوئی اور ان تشریحات کو وہ اختیار دینے کے لیے جن کے وہ مستحق ہیں اپنی پوری توانائی صرف کرنی چاہئے۔
عائشہ ایس چودھری ایک نئی کتاب (Domestic Violence and the Islamic Tradition) ‘‘گھریلو تشدد اور اسلامی روایت’’ کی مصنفہ ہیں۔ اور وہ یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا میں انسٹی ٹیوٹ فار جینڈر، ریس، سیکشوائلٹی اینڈ سوشل جسٹس اور ایسٹرن اینڈ رلیجیس اسٹڈیز کے قریب ڈپارٹمنٹ آف کلاسیکل میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔
(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
ماخذ: http://www.theglobeandmail.com/globe-debate/its-muslims-who-give-voice-to-verse/article17684163/
URL for English article:
https://newageislam.com/islam-women-feminism/quran-allow-wife-beating-if/d/66350
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/quran-allow-wife-beating-if/d/66390