New Age Islam
Tue Feb 11 2025, 01:21 AM

Urdu Section ( 3 Sept 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Dance of Madness and We دیوانگی کا رقص ہے اورہم ہیں دوستو

ایاز امیر

1 ستمبر، 2012

آسمان گواہ ہے کہ خود اذیت پہنچا نے کی ہماری صلاحیت کا اس کرّہِ ارض پر کوئی حریف نہیں ہے۔ ہمیں را،سی آئی اے یا موساد کی سازشوں کی محتاجی نہیں ہے۔ یہ بے چاری ایجنسیاں تو اس خرابی کا عشر عشیر بھی نہیں سوچ سکتیں جو ہم اپنے لیے خود برضا و رغبت پیدا کرتے رہتے ہیں۔ ابھی توہین کے قوانین  کی بحث ختم نہیں ہوئی تھی کہ ایک او رکیس نے سر اٹھالیا۔ترس آتا ہے ان غیر ملکیوں پر جو ہماری معمولی سی شر انگیزی پر چراغ پا ہو جانے کی بیماری کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر وہ اصحاب نو عمر عیسائی لڑکی کےکیس کا جائزہ لیں  تو یہ حقیقت ان پر منکشف ہوگی کہ ہماری یہ بیماری نا قابل  علاج ہی نہیں ناقابل فہم بھی ہے۔

یہ کیس ہے کیا؟ ا س کا جواب تلاش کرنے کے لیے میں اسلام آباد کے ایک نواحی علاقے مہرہ جعفر ، جہا ں یہ واقعہ پیش آیا، کی بل کھاتی ہوئی گلیوں میں گیا اور وہاں میری ملاقات احمد ، جو کہ اس کیس میں مدعی ہے، سے ہوئی۔ میں اپنے ذہن میں یہ تصور لیے ہوئے تھا کہ میری ملاقات کسی مذہبی  جنونی سے ہوگی مگر مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ احمد نہایت دوستانہ انداز میں ملا، بلکہ وہ اتنی توجہ ملنے پر کچھ گھبرایا ہوا بھی تھا۔میں نے اس کی تعلیم پوچھی تو اس نے کہا وہ پانچویں جماعت تک پڑھا ہے ۔وہ کچھ پڑھ سکتا تھا مگر لکھنا نہیں جانتا تھا۔ وہ G-11مارکیٹ میں سی این جی فٹنگ کی ورکشاپ چلاتا ہے۔ اس کی بالائی  منزل کے ایک کمرے میں وہ میرے ساتھ بیٹھا ۔ وہاں کچھ اور موٹر مکینک بھی تھے۔ میں نے اُس سے کچھ سوالات پوچھے ۔ احمد نے کہا کہ اُس نے دیکھا کہ رمشا نے کچھ جلے ہوئے کاغذات ایک پلاسٹک بیگ میں اٹھا ئے ہوئے تھے۔ دیکھنے پر پتا چلا کہ وہ ‘‘نورانی قاعدے’’ کے اوراق ہیں ۔ اور تمام مسلمان جانتے ہیں کہ یہ کلامِ الہی نہیں بلکہ عربی کے حروف تہجی  اور ان کا تلفّظ سکھانے والا ایک بنیادی قاعدہ ہے مگر ایک نیم خواندہ شخص اسے مقدس کتاب سمجھ بیٹھا۔

میں نے احمد سے پوچھا کہ ایک لمحے کے لیے اسے بھول جائیں کہ اُس نے کیا جلایا تھا ، کیا اُس چھوٹی سی لڑکی کا اسلام سے کوئی جھگڑا ہے؟ اُس نے کہا کہ ایسا نہیں ہے اور  وہاں موجود دیگر افراد نے بھی اس کی تصدیق کی۔ میں نے پوچھا کہ چند اوراق نذرِ آتش ہونے سے اسلام کی  عظمت کو کیا خطرہ ہے تو اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ کیا رمشا کسی کے مذہبی جذبات مجروح کرنا چاہتی تھی؟ اس پر وہ پھر خاموش رہے۔ احمد سمجھدار نظر آتا تھا مگر ان  سوالات کا اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔

رمشا کا چھوٹا سا گھر، جواب مقفل ہے، احمد کے ہمسائے میں ہے اور یہ ایک گندا سا علاقہ ہے جہاں گٹر کا سیاہ پانی پھیلا ہوا تھا او رگلی میں جس اونچی جگہ پر گندا پانی نہیں جاسکتا تھا، وہاں گندی گھاس اُگی ہوئی تھی، کوڑا کرکٹ اور پلاسٹک بیگ بکھرے ہوئے تھے.... اسلام آباد کی روشنیاں اور خوبصورتی یہاں سے ‘‘سات سمندر پار’’ ہیں۔ اس گلی کے دونوں طرف ایک ایک کمرے پر مشتمل  چھوٹے چھوٹے گھر ہیں۔ اس سے کچھ آگے محلّہ بوویل کی مسجد ہے۔ میں نے چند ایک گھروں پر دستک دی تو  پتا چلا کہ یہاں ٹوبہ ٹیک سنگھ ،فیصل آباد اور سرگودھا کے مزدور پیشہ  افراد رہتے ہیں۔ارد گرد پھیلی ہوئی غلاظت ، گندگی  اور بدبو سے میرا دماغ پھٹا جارہا تھا ... او ریہ تھی وہ جگہ جہاں سے توہین کے اس کیس نے سر اٹھا یا تھا۔ وہاں ایک نوعمر لڑکی مہرین نور نے بتایا کہ وہ جلے ہوئے کاغذات لے کر امام مسجد کے پاس گئی تھی۔ جب مہرین نے میرے چہرے پر استفہامیہ تاثرات دیکھے تو اس نے کہا .... ‘‘جب میں نے وہ جلے ہوئے کاغذات دیکھے تو میرا کلیجہ پھٹ گیا اور میں سکتے میں آگئی ’’۔ اس لڑکی کی عمر دس یا گیارہ سال ہے۔

اس کے بعد امام صاحب نے ہنگامی بنیادوں پر اہل علاقہ کی میٹنگ بلائی او ر رمشا کے خاندان کو ایک گھنٹے کے اندر اندر علاقہ چھوڑنے کا حکم دیا۔ اس واقعہ کی  پولیس  کو بھی اطلاح دی گئی۔ خوش قسمتی  سے مسجد کے لاؤڈاسپیکر سے  کوئی اعلانات نہ کئے گئے مگر یہ معاملہ اس وقت  بگڑ گیا جب یہ خبر نزدیکی بازار میں پہنچی ۔ اس سے ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا اوراس میں پیش پیش کراچی سے آئے ہوئے ایک اردو بولنے والے صاحب تھے ، جو اس بازار میں ایک جنرل اسٹور چلاتے ہیں۔ مقامی مسجد سے اعلانات کے بعد ایک ہجوم جمع ہوگیا اور سڑک بلاک کردی گئی۔ ا سکے بعد یہ ہجوم رمنا پولیس اسٹیشن پہنچا اور احمد کی مدعیت میں رمشا کے خلاف توہین کی رپٹ لکھوائی اور  اس لڑکی کو گرفتار کرلیا گیا۔ کسی پولیس افسر نے یہ معلوم کرنے کی زحمت نہ کی اصل واقعہ کیا پیش آیا تھا اور کیا اتنی چھوٹی لڑکی کسی طرح کے توہین کے کیس میں ملوث ہوسکتی ہے یا نہیں۔پولیس نے مشتعل ہجوم کو ٹھنڈا کرنے کی بجائے رپورٹ درج کرلی۔ اب اس کیس میں رمشا کی عمر کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس کے ساتھ رعایت برتنے کا مطالبہ سامنے آرہا ہے او ریہ حماقت ہے کیونکہ  اس کیس  میں عمر کا کوئی  ایشو نہیں ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا نورانی قاعدہ الہامی کتاب ہے اور اگر کوئی شخص ، چاہے وہ چھوٹی عمر کا ہو ، بڑی کا، لاعلمی میں اس کے اوراق تلف کرے تو کیا یہ توہین کے زمرے میں آتا ہے ؟ شیخو پورہ کی آسیہ کا بھی کم و بیش ایسا ہی کیس تھا۔ وہ ابھی  تک جیل میں ہے۔ بہاولپور میں ایک ملنگ  پر مقدس اوراق  نذر آتش کرنے کا الزمام تھا، چنانچہ مشتعل ہجوم نے اسے  پولیس حراست سے چھینا اور قتل کردیا۔ ستم ظریفی  یہ ہے کہ ایسے واقعات  غریب علاقوں میں پیش آتے ہیں۔ ان واقعات کی شروعات چاہے کتنے ہی معمولی کیوں نہ ہو انجام شدید ہوتا ہے۔

رمشا کے علاقے کے بازار میں  میں نے لوگوں کے ایک گروہ سے کہا کہ میرے گھر میں روزانہ چھ یا سات اخبارات آتے ہیں۔ اردو اخبارات میں مذہبی  ضمیمے ہوتے ہیں، مقدس مقامات کی تصاویر ہوتی ہیں مگر جب یہ اخبارات پرانے ہوجاتے ہیں تو ان کو تلف کردیا جاتا ہے یاردی میں فروخت کردیا جاتا ہے تو کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ میں یا میرے گھر والے توہین کے مرتکب ہوتے ہیں؟ ان افراد کا کہنا تھا کہ یہ توہین نہیں ہے کیونکہ تمام اخبار بین ایسا ہی کرتے ہیں۔ پھر رمشا نے کیسی توہین کی۔

 اسلام آباد پولیس نے پہلے دن ہی اپنی ذمہ داری سے انحراف کیا اور اب بھی یہ تمام بوجھ عدلیہ کے کندھوں پر ڈال رہی ہے، حالانکہ تفتیش کرنا اس کا کام ہے۔ اسے چاہئے تھا کہ حوصلے سے کام لیتے ہوئے اس واقعے کی تحقیق کرتی اور یہ واضح کردیتی کہ اس چھوٹی لڑکی سے کوئی توہین سرزد ہوئی ہے یا نہیں ۔ چلیں اگر پولیس  روایتی  غفلت کا مظاہرہ کررہی ہے تو جج صاحبان کو تو کم از کم اس نو عمر لڑکی کی داد رسی کرنا چاہئے تھی ۔ ایک اور بات ، پاکستان کا نام پوری دنیا  میں بدنام کرنے  پر کیا ‘‘توہین پاکستان’’ کا کوئی کیس نہیں بننا چاہئے ؟

1 ستمبر ، 2012   بشکریہ : جنگ ، پاکستان

URL for English article: http://www.newageislam.com/current-affairs/ayaz-amir/mindlessness-on-the-march/d/8545

URL: https://newageislam.com/urdu-section/dance-madness-/d/8547

Loading..

Loading..