ایاز ا میر
8 اپریل، 2015
منافقت سے لبریز بناوٹی جملوں کا استعمال دیگر اقوام بھی کرتی ہوں گی لیکن جس تواتر،تسلسل اور مہارت کےساتھ ہم کرتے ہیں وہ ہمارا ہی خاصہ ہے، کسی دوسرے کو یہاں دم مارنے کی بھی اجازت نہیں۔ آج کل ہم بے تکان بولے چلے جارہے ہیں کہ مقامات ِ مقدسہ کا تحفظ ہر مسلمان کا مذہبی فریضہ ہے۔ بالکل درست، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مقامات کو خطرہ کس سے ہے؟یقینا یمن کے حوثی قبائل، جن پر عرب اتحادی افواج کے طیارے بمباری کررہے ہیں، کی طرف سے ان مساجد پر حملے کی کوئی دھمکی موجود نہیں۔ درحقیقت یہ حوثی قبائل ، نہ کہ ہمارے سعودی دوست، ہیں جو جارحیت کا نشانہ ہیں۔ تاہم بعض واضح وجوہات کی بنا پر ہم ایسا کہنے سے قاصر ہیں۔ مقامات ِ مقدسہ کے تحفظ کی للکار کے بعد نعرہ نمبر دو یہ ہے کہ سعودی سرزمین کا پوری طاقت سے دفاع کیا جائے گا۔ یہاں بھی وہی سوال، کہ سعودی سرزمین کو کس کے خلاف تحفظ کی ضرورت ہے؟ اس سرزمین پر کون حملے کی پلاننگ کررہا ہے؟
دنیا کی واحد ، اصل اور کھری اسلامی رپبلک، پاکستان، جوجذباتی رو میں بہتے بہتے خود کو اسلام کا قلعہ بھی قرار دے ڈالتی ہے، ایک مخمصے کا شکارہے۔ اس کا جذباتی فشار ایک طرف، تو ذہن،جو کسی نایاب ساعت میں ہی فعال ہوتا ہے،کے تقاضے دوسری طرف۔ پاکستان جانتا ہے کہ خلیجی ملکوں کی طرف سے شروع کی جانے والی غیر یقینی جنگ میں فوجی دستے بھجوانے میں کیا خطرہ لاحق ہے، چنانچہ یہ بے دھڑک ہاں نہیں کررہا، لیکن سعودی دوستوں کی ناراضی کے ڈر سے دوٹوک انداز میں انکار بھی نہیں کرپارہا۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں یمن خلیجی ملکوں کےلئے ایک ڈرائونا خواب بن جائے لیکن یہ پاکستان، خاص طور پر اس کی فوج ، کےلئے آج بھی ایک تشویش ناک مسئلہ بن چکا کیونکہ اس کے سامنے دونوں آپشنز آسان نہیں۔’ نہ پائے ماندن، نہ جائے رفتن‘ کی سی صورت ِحال درپیش ہے۔
تیسرا افسانہ اس جنگ کو شیعہ سنی جنگ قرار دینا ہے، حالانکہ ایسا نہیں۔ حوثی قبائل زیدی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں تاہم اُن کے اتحادی دستے، جو سابق رہنماعلی عبداﷲ صالح کے حامی ہیں،سنی مسلک کے پیروکار ہیں۔ اس طرح اس جنگ میں فرقہ واریت کا کوئی عنصر شامل نہیں، یہ خالصتاً سیاسی کشمکش ہے۔ بہت سے نازک مزاج افراد کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکنے والے بے باک جارج گیلوے تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں(یوٹیوب پر دیکھا جاسکتا ہے)کہ غزہ کے باشندے سنی ہیں لیکن جب گزشتہ سال اسرائیل نے اُن کا وحشیانہ انداز میں خون بہایا تو ان خلیجی ملکوں کی طرف سے اسرائیلی جارحیت کے خلاف اقدام تو کجا ایک انگلی تک نہ ہلائی گئی۔
جہاں تک یمن کے معروضی حالات بتاتے ہیں تو یہ سیاسی اختیار کا معاملہ ہے۔ سعودی عرب کی مرضی ہے کہ وہ اپنے غربت زدہ اور فسادات کے شکار ہمسائے کو اپنی مرضی سے کنٹرول کرے۔ حوثی قبائل ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کی کوشش میں ہیں، چنانچہ وہ سعودی عرب کی پلاننگ میں روڑے اٹکاتے محسوس ہوتے ہیں کیونکہ ان کی شورش سعودی عرب میں موجود شیعہ آبادی، جس کا بدقسمتی سے ارتکاز تیل پیدا کرنے والے خطوں میں ہے، کے لئے ایک بری مثال ثابت ہوسکتا ہے۔ بحرین میں شیعہ گروہوں کی طرف سے احتجاجی تحریک پر سعودی عرب کو اسی وجہ سے خدشات لاحق ہوگئے تھے ، چنانچہ اُنھوں نے بحرین میں فوجی دستے بھیج کر اُس بغاوت کو کچل دیا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کے سیکورٹی اداروں سے ریٹائرڈ ہونے والے افراد بحرین کی دفاعی فورسز کا اہم حصہ ہیں ، چنانچہ تاثر یہی ہے کہ اب وہ پاکستان سے یہی چاہتے ہیں ۔ وہ مقامات ِ مقدسہ کےلئے محافظ دستے نہیں بلکہ یمن کی سرزمین پر حوثی جنگجوئوں کے خلاف لڑنے کےلئے فوج مانگ رہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ دنیا میں دفاع پر امریکہ، چین اور روس کے بعد سب سے زیادہ خرچ کرنے والا ملک، سعودی عرب یمن میں موجود کچھ قبائل کے مقابلے پر اپنا دفاع خود کرنے سے قاصر ہے۔ قہر یہ کہ جنگ اُس پر کسی نے مسلط نہیں کی بلکہ ہمسایہ ملک پر فضائی حملے کرتے ہوئے اس نے خود جارحیت کا ارتکاب کیا ہے۔ اب خود جنگ کرنے سے قاصر، چنانچہ پاکستان کو اس غیر یقینی جنگ میں جھونکنے پر تلاہوا ہے۔ چیک بک ڈپلومیسی کی شہرت رکھنے والےاس عرب ملک کوسب سے پہلے مصر کے فیلڈ مارشل جنرل سیسی سے فوجی دستوں کےلئے کہنا چاہئےتھا۔ اُنھوں نے جنرل سیسی کو پاکستان کے مقابلے میں بھاری رقوم دی ہیں،صدر مرسی کو تخت سے اتارنے کے وقت پانچ بلین ڈالر اور حال ہی میں ہیں بارہ بلین ڈالر کا پیکیج، جس میں دیگر خلیجی ریاستوں کی طرف سے ڈالا گیا حصہ بھی شامل، تاہم فیلڈ مارشل نے صرف چارجنگی بحری جہاز بھیجنے کا وعدہ کیا۔ یقینا جنرل سیسی ذی فہم سپاہی ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کو1.5بلین ڈالر بطور ایڈوانس ملے اور ضرورت مند حکومت نے بسم اﷲ کہہ کر ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ اور اب ہمیں کہا جارہا ہے کہ ہم مسلح دستے اور اپنی اسپیشل فورسز کو میدان میں لڑنے کے لئے بھیجیں۔ کوئی اور ملک ایسا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگا، اور شاید کوئی اور ملک اُس راہ پر آنکھ بند کرکے چلنے کے لئے تیار نہ ہو جہاں فرشتے بھی قدم رکھتے ہوئے ڈریں۔
پاکستان سے درحقیقت وہی کچھ کرنے کے لئے کہا جارہا ہے جو ایران عراق میں کررہا ہے۔ ایران کی ایلیٹ القدس فورس کے کمانڈر ،جنرل قاسم سلیمانی، عراق میں داعش کے خلاف جنگ کی قیادت کررہے ہیں۔ اُنھوں نے داعش کی بغداد کی طرف پیش قدمی کو روک دیا اور انہی کی کمانڈ میں عراقی فورسز نے تکریت کا کنٹرول حاصل کیا۔ شام میں اسد حکومت کو بچانے کے لئے ہونے والی جنگ میں بھی ان کی حکمت ِ عملی کارفرما ہے۔ جب پاکستانی افسران مقامات ِ مقدسہ کی حفاظت یا سعودی سرزمین کے تحفظ کی بات کرتے ہیں تو وہ کس کو بے وقوف بنارہے ہوتے ہیں؟سعودی عرب کو کسی پاکستانی ’’جنرل قاسم سلیمانی ‘‘ کی ضرورت ہے جو ان کےلئے یمن میں جنگ کرے ، بالکل جس طرح بریگیڈیر ضیا الحق(وہی ضیا الحق جو بعد میں امیر المومنین کے مرتبے پر فائزہوئے) نے 1970میں اردن میں فلسطینیوں کو کچل دیا تھا(اس خونی واقعے کو بلیک ستمبر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے)۔ تاہم ایران کے عراق میں گہرے مفادات ہیں، لیکن ہمارے یمن میں کون سے مفادات وابستہ ہیں؟کوئی نہیں کہہ سکتا ہے کہ بغداد کے دفاع یا تکریت کو داعش کے قبضے سے چھڑوانے میں ایران کا مالی مفاد وابستہ تھا، لیکن اگر ہماری سول اور ملٹری قیادت نے یمن میں دستے بھیجنے کا فیصلہ کیا تو ہمارے اس اقدام کومحض مالی مفاد کا حصول ہی مانا جائے گا۔
یہ تو وقت ہی بتائے گاکہ سعودی عرب کو یمن پر حملہ کرنے سے کچھ حاصل ہوا یا اس نے بیٹھے بٹھائے خود کو ایک دلدل میں اتارلیا، لیکن ہمیں اُنہیں سادہ لوح نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہ ہمارے مقامات ِ مقدسہ کی حفاظت کے لئے جان نچھاور کرنے کی نعرہ زنی سے وجد میں آجائیں گے۔وہ ہم سے کسی ٹھوس اقدام کی توقع کررہے ہیں اور یہ ٹھوس اقدام اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہم ان کے لئے اپنے دستے میدان میں بھیجیں، ان کے سیاسی مقاصد کی خاطر لڑیں اور اگر ضرورت پڑے تو اپنی جان بھی دیں۔ اس صورتِ حال میں یہ جواز کہ ہمارے ہاں اپنے مسائل ہی بہت زیادہ ہیں اور ضرب ِ عضب کی وجہ سے ہماری فوج اور فضائیہ مصروف ہے،کوئی جواز نہیں بلکہ بنیادی سوال یہ کہ ہم اس جنگ میں کرائے کے سپاہی کا کردار کیوں ادا کریں جس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ جہاں تک سعودی عرب کے ساتھ ہمارے دوستانہ رشتے کا تعلق ہے تو کسی مصیبت کے موقع پر اس کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے لیکن اس کی خاطر کسی اور ملک میں ہونے والی جنگ میں جا کودنا کہاں کی دانائی ہے؟مشکل یہ ہے کہ اس وقت چونکہ ہمارا دوست ملک خود کو اس دلدل میں اتارچکا، اس لئے وہ ہماری منطق تسلیم نہیں کرے گا۔ ان کا بہت کچھ دائو پر لگ چکا ۔
اگر وہ یہ جنگ شروع کرنے کے بعد اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوا تو اس کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچے گا۔ اور کون جانتا ہے کہ اس ہزیمت کی وجہ سے کچھ داخلی مسائل بھی سراٹھانا شروع ہوجائیں۔ آسٹریا کے ہپس برگز (Hapsburgs)سے شروع ہونے والے واقعات کی وجہ سے پہلی جنگ ِ عظیم چھڑگئی۔ جنگ کے اختتام تک آسٹریا کی سلطنت ختم ہوکر تاریخ کا حصہ بن چکی تھی۔ عرب بادشاہت کی بنیادیں اگر ریت پر نہیں تو بھی بہت زیادہ مضبوط نہیں۔ اُنہیں مداخلت کےلئے سفارتی ذرائع اور اپنے سب سے موثر ہتھیار، بھاری جیب، پر ہی تکیہ کرنا چاہئے تھا۔ اگر وہ جنگ شروع ہوتے ہی فوجی معاونت کےلئے ادھر اُدھر دیکھنا شروع ہوگئے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اُنھوں نے بلا سوچے سمجھے ہی جنگ چھیڑ دی۔
یہ درست ہے کہ ہم نے ماضی میں اپنا بارہا سودا کیا، ہم نے غیر ملکی طاقتوں کے مفادات کےلئے ان کے آلہ ِکار بنے اور ایسا کرتے ہوئے اپنےلئے بے اندازہ مشکلات کو دعوت دی، لیکن امید کی جانی چاہئے کہ ہم نے ان مصائب سے سبق سیکھ لیا ہوگا۔ حتیٰ کہ فوج نے بھی ان نظریات پر سوال اٹھانا شروع کردیئے ہیں جو ماضی میں سچے عقائد سمجھے جاتے تھے۔ کیا ہم نے دل کی گہرائیوں سے سبق سیکھا ہے یا نہیں، یمن کی صورت ِحال اس کےلئے ایک لٹمس ٹیسٹ کی طرح ہے۔ اپنی حدود میں رہتے ہوئے سعودی عرب کی مدد کرنا ایک بات لیکن آل ِ سعود کے دفاعی اور سیاسی مفاد کی خاطر اپنا نقصان کرنا دوسری بات ہے۔ آپ کو یہ بات سمجھنے کے لئے بہت دانا ہونے کی ضرورت نہیں۔
8 اپریل 2015 بشکریہ : روز نامہ جنگ، پاکستان
URL: https://newageislam.com/urdu-section/avoid-creating-stories-/d/102365