اورنگ زیب یوسف زئی
اور،،،، آخر میں یہ آنکھیں کھول دینے والی حقیقت کہ ،،،، وہ ذات پاک بار بار اپنی کتاب میں اس امر پر زور دیتا ہے کہ وہ اسے پہلے ہی سے مکمل طور پر، باریک ترین تفصیل کے ساتھ، بغیر کچھ بھی نظر انداز کئے، کھول کر بیان کرچکا ہے!!!۔۔۔ تو پھر انسانی زبان و بیان میں اس کا مزید بیان۔۔۔ چہ معنی دارد؟؟؟ ۔۔۔۔ تحقیق کرنے پر آپ کو اس در اندازی کے حق میں ذرہ برابر بھی توجیہ یا جواز سبب نہ مل پائے گا!
لہٰذا ، ہم یہ بات بآسانی کہہ سکتے ہیں کہ اس ذات پاک کی غیر متزلزل اور ثقہ ترین شہادت کے مطابق ،کسی بھی مزید تفسیر کی نہ ضرورت تھی، او رنہ قرآن کی تشریح و تفسیر کے لئے کسی بھی انسانی مداخلت کی اجازت تھی، او رنہ کسی انسان میں اس کی اہلیت ۔
جرم کے اسباب اور پس منظر
انتہائی قرین عقل امکان یہی ہے کہ تفسیر نویسی کا عمل دراصل قرآن میں ملاوٹ کرنے اور الہامی صحیفے کے سچے معانی تبدیل کر دینے کا ایجنڈا رکھتا تھا۔ اس لئے کہ ۔۔۔ تفسیر لکھنا صرف ایک ہی مذموم مقصد رکھ سکتا تھا ۔۔۔ کہ ۔۔۔ اس دین حق پر مبنی کتاب کو انسانی خیالات سے آلودہ کرکے اس حلیہ بگاڑ دیا جائے تاکہ ایک دو نمبر کا بناوٹی اسلام ایجاد کرتے ہوئے، اپنی من مرضی کے مذہب کی آڑ یا آسرا لے کر ، اپنے ناجائز سیاسی غلبہ کو جائز قرار دیا جائے اور اپنے مذموم استحصالی مقاصد کو بروئے کارلایا جاسکے۔
اسی مذموم مقصد کے تحت تفاسیر کی اصل و بنیاد ہی تفسیری روایتوں اور شان نزول کے طول طویل مفروضات اور دیو مالائی افسانوں پر رکھی گئی ۔
یہ بدعت کب شروع کی گئی؟
نہایت قابل غور امر یہ ہے کہ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں، اور خلافت راشدہ کے لگ بھگ 28سالہ دورانیے میں کسی تفسیر و تشریح کا وجود ہی ثابت نہیں ۔ اس اولین دور کے ذمہ داران اور وقت کے اولی الباب اپنی فصیح و بلیغ زبان خوب سمجھتے تھے۔ حتیٰ کہ ایک عام عرب بھی، بلکہ ایک بدّو بھی ، دیگر اہل زبان سے بالکل جدا، اپنی زبان دانی اور فصاحت و بلاغت کی خصوصیت کے لیے ، بقول ہمارے مختلف بزرگ اسکالر ز ، ایک خاص او رمسلمہ شناخت رکھتا تھا۔ حضرت عمر فاروق ، خلیفہ راشد دوم، کے لئے تواریخ شہادت دیتی ہیں کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں قرآن کریم کے کئی لاکھ نسخے نقل کروا کر مملکت اسلامیہ کے کونے کونے میں ارسال کروادیے تھے۔ قرآن اولیٰ ، یا قرون مشہود لہا بالخیر کے اس با برکت دور میں ایسا کیوں نہ ہوا کہ قرآن کی تفہیم کیلئے اس کی نقول کی بجائے تفسیریں تیار کروائی جاتیں اور انہیں پوری مملکت میں پھیلا یا جاتا؟
قرین قیاس یہی ہے کہ دور خلافت راشدہ میں ایسا کوئی فتنہ ابھی نمودار نہیں ہوا تھا جو قرآن کے سچے معانی تبدیل کر دینے کا ایجنڈا رکھتا ہو۔ نہ ہی اس وقت تک تفسیر ی روایتوں کی ایجاد اور شان نزول کی کہانیوں کی اختراع پیدا کی گئی۔ فلہٰذا کسی نوع کی تفسیر کی ضرورت ہی در پیش نہ تھی۔ قرآن اپنی خود تصریحی اور خود مکتفی حیثیت میں قائم و دائم تھا ۔ او راپنے عطا کردہ نظریے کے معاشرے پر عملی اطلاق کے دور سے گذر رہا تھا۔
مسلم تہذیب میں اوّلین تفسیر لکھنے کا کام جس شخصیت نے انجام دیا ، یا جس کو شاہی دربار نے اس مہم پر مامور کیا ،اس کا تاریخ وفات 146سن ہجری ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کام دوسری صدی ہجری میں اموی دور کے اواخر (132ہجری) سے کافی قبل ہی شروع کروا دیا گیا تھا ۔یہ کام اسی دور میں اور بعدزاں عباسی دورمیں جاری رکھا گیا ۔ یہ وہی دور تھا جب انقلاب معکوس برپا کر کے خلافتِ راشدہ کا خاتمہ کیا جاچکا تھا۔ اور حقیقی اسلام کے دشمن اموی سلاطین 40ہجری کے بعداقتدار پر اپنا جبری قبضہ مکمل و مضبوط کرنے کے بعد ایک غیر قرآنی مو روثی استحصالی بادشاہت کا سلسلہ قائم کرچکے تھے ۔ سابقہ حقیقی اسلامی ریاست کے ہیڈ کواٹر مدینتہ النبی اور بعدازاں حضرت عبداللہ ابن زبیر کے دارالحکومت شہر مکہ پر حملے اور قتل عام کے ذریعے حقیقی اسلام کی تمام نشانیاں اورآثار و باقیات ، او را س کی نام لیوا جملہ شخصیات کو ہمیشہ کے لئے صفحہ ہستی سے مٹاچکے تھے ۔ عرب کے چپے چپے پر پھیلے مقامی یہودی علماء کی خدمات حاصل کی جاچکی تھیں، او ران کی مدد سے مملکت کے طول و عرض میں فتنہ وضع حدیث کے ذریعے قرآنی تعلیمات کے مسخ کرنے کی مہم ز ور شور کے ساتھ جاری تھی ۔
یہ بدعت کس کے ہاتھوں شروع کروائی گئی؟
اسلامی تاریخ کی اولین تفسیر لکھنے کے جرم کا جس شخصیت نے ارتکاب کیا،اس کا نام نامی محمد بن السائب ، المعروف کلبی (المتوفی 146ھ) تھا۔ مذکورہ شخصیت اپنے دور کے مشہور مؤرخ ،ماہر انساب اور تفسیر کے مسلمہ امام تصور کئے جاتے ہیں ۔ حتیٰ کہ ان کی تفسیری کہانیوں سے کوئی بھی متاخر تفسیر خالی نہیں ۔ ان کی تفسیر ، تفسیر ابن عباس کے نام سے موسوم ہے اور آج بھی بازار میں دستیاب ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے یہ تمام تفسیر ابو صالح سے سنی ہے، اور ابو صالح نے حضرت عبداللہ بن عباس سے ۔ اسی لئے یہ دو ناموں سے مشہور ہوئی ۔ یعنی تفسیر ابن عباس ، اور تفسیر کلبی۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ جدید دور کے عظیم ترین محقق علامہ حبیب الرحمٰن صدیقی کا ندھلوی کے مطابق عالم اسلام کے یہ پہلے ’’ جلیل القدر مفسّر ‘‘ کس کردار کے مالک تھے ،اور اس قماش کے کردار کے حامل کو کون تخریب کار اور غارت گردین و ایمان اس کا رلائقہ کی ذمہ داری تفویض کرسکتا تھا۔
نام : بن السائب ۔ کنیت : ابوالنفر ۔ خاندان : بنو کلب۔ کوفہ کا باشندہ ہے۔ ماہر انساب، مفسّر او رمؤرخ ہے۔ امام شعبی وغیرہ سے روایات نقل کرتا ہے۔اس سے اس کا بیٹا ہشام او رابو معاویہ وغیرہ روایت کرتے ہیں ۔ اس کی روایت جامع ترمذی میں پائی جاتی ہے۔ امام سفیان ثوری فرماتے ہیں ،کلبی خو د کہا کرتا تھا کہ مجھ سے ابو صالح نے ایک بار بطور نصیحت یہ بات فرمائی تھی کہ اے کلبی ،،، تونے ابن عباس کی جتنی روایات مجھ سے سنی ہیں انہیں کسیسے بیان نہ کرنا۔ (پھر بھی اس بے حیاء نے سب کچھ بیان کردیا او رپوری ایک کتاب لکھ ڈالی )
ابو معاویہ کہتے ہیں ، میں نے کلبی کو یہ کہنے سنا ہے کہ جتنی جلد میں نے قرآن حفظ کیا ہے اتنی جلد کسی نے قرآن حفظ نہیں کیا۔ میں نے صرف چھ یا سات دن میں قرآن حفظ کر لیا تھا۔ اور جس طرح مجھے بھول واقع ہوئی ہے ایسی بھول بھی کسی کو واقع نہیں ہوئی ہوگی۔ وہ اس طرح کہ میں نے اپنی داڑھی مٹھی میں لی تاکہ داڑھی نیچے سے کاٹ کر برابر کرو، او راوپر سے کاٹ دی۔
امام یزیدین ہارون کابیان ہے کہ مجھ سے خود کلبی نے یہ بیان کیا کہ میں نے جس شے کو ایک بار یاد کرلیا،کبھی بھولانہیں۔ لیکن ایک بار میں نے حجام کو بلوایا اور اپنی داڑی برابر کرانے کیلئے مٹھی میں لی، او ربجائے نیچے سے کٹوانے کے اوپر سے کٹوالی (یعنی ایک بار خود کاٹی اور ایک بار حجام سے کٹوائی ۔کذب بیانی کی عادت قبیحہ کا اندازہ کیجئے )۔
یعلی بن عبید کہتے ہیں کہ امام سفیان ثوری نے لوگوں سے فرمایا کہ اے لوگو، اس کلبی کی روایتوں سے بچو۔ کسی نے ان سے عرض کیا ، آپ بھی اس کی روایات نقل کرتے ہیں ۔ انہوں نے فرمایا میں تو اس کے سچ اور جھوٹ کو پہچانتا ہوں ۔ یعنی یہ جانتا ہوں کہ اس کی کون سی روایت درست ہے او رکون سی غلط۔
امام بخاری فرماتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید القطان اور عبدالرحمان بن مہدی نے اس کی روایت ترک کی ہے ۔پھر امام بخاری نے امام سفیان ثوری کا یہ قول باسند نقل کیا کہ مجھ سے خود کلبی نے یہ بات کہی تھی کہ میں تجھ سے ابو صالح کے واسطے سے جو بھی حدیث بیان کروں تو سمجھ لے کہ وہ خالص جھوٹ ہے۔
یعلی کابیان ہے کہ اس کلبی سے قرآن پڑھنے جایا کرتا تھا ۔ ایک دن بولا کہ میں ایک دفعہ شدید بیمار ہوا او راس بیماری کے باعث سب کچھ بھول گیا ۔ میں آل محمد کی خدمت میں گیا۔ انہوں نے میرے منہ میں تھوکا، تو مجھے سب کچھ بھولا ہوا یاد آگیا۔ نا معلوم آل محمد (ص) میں سے کتنے افراد سے اس نے اپنے منہ میں تھکوایا ہوگا۔
امام یحییٰ بن معین کا قول ہے کہ کلبی ثقہ نہیں ہے۔ دار قطنی او رایک جماعت کہتے ہیں کہ متروک ہے۔ جوز جانی وغیرہ کہتے ہیں، یہ کذّاب ہے۔ امام ابن حبان فرماتے ہیں اس کامذہب بھی ظاہر ہے او راس کا جھوٹ بھی اتنا اظہر من الشمس ہے کہ محتاج تعارف نہیں ۔ یہ ابو صالح کے واسطے سے ابن عباس سے تفسیر نقل کرتا ہے، حالانکہ ابو صالح نے ابن عباس کو دیکھا تک نہیں۔ اور اس نے ابوصالح سے صرف ایک دو ہی باتیں سنی تھیں ۔اب جب بھی اسے جھوٹ بولنا ہوتا ہے تواس ابو صالح کو یہ زمین کی گہرائیوں اور تاریکیوں سے باہر نکال لاتا ہے۔ اس کا اور اس کی روایت کا کسی میں ذکر کرنابھی حلال نہیں ۔ کجا کہ اس کی روایت کو بطور دلیل پیش کیا جائے ۔ (میزان الاعتدال)
عزیز قارئین ، یہ تھی انتہائی مذموم ابتدا قرآنی تفاسیر لکھنے کے مجرمانہ عمل کی !!! اس مسلّمہ بدکردار انسان کے انتہائی سازشی خیالات و الفاظ پر مبنی اس تفسیر ی شکاہکار کی بازگشت آپ کو بعدازاں نمودار ہونے والی ہر تفسیر میں بدرجہ اتم موجود ملے گی۔ نیز امام طبری کی تیس جلدوں پر مبنی ’’ ام التّفاسیر‘‘ سے لے کر آج کے دن تک لکھی جانے والی تمام تفاسیر میں بھی ۔ ظاہر ہے کہ مطلق العنان اموی دور اور بعدازاں عباسی خلفاء کے ابتدائی دورمیں جہا ں معاشرے کو جبر و استبداد کے شکنجے میں جکڑ لیا گیا تھا،،،،تاریخ کا ایک ایسا مشتبہ ومنفی کردار قرآن کی اولین تفسیر لکھنے کا کام تب ہی کرسکتا تھا جب اسے باقاعدہ منصوبے کے تحت چنا گیا ہو۔۔۔ حکومتی سرپرستی حاصل ہو، اور باقاعدہ ایک متعین شدہ ایجنڈے پر کام کررہا ہو۔
کیونکہ وہ خاص دور اموی سلاطین کی منصوبہ بندی اور سرپرستی کے تحت مسلمانوں کے بھیس میں سر گرم عمل مقامی عرب یہودی علماء کی بالا دستی کا دور تھا، جن کو حقیقی اسلام کی بربادی کا مشن تفویض کیا گیا تھا، اس لیے یہ امربھی بعید از قیاس نہیں کہ کلبی ایک چھپا ہوا (Crypto) یہودی عالم ہو۔ اس کا یہودی تالمود کے انداز کو اپناتے ہوئے تفسیر ابن عباس لکھنے کا کارنامہ اور اس عمل کے پیچھے پوشیدہ کاریگری جسے اوپر سندات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، اس امکان کو پوری تقویت بخشتا ہے۔
بعد ازاں آنے والی تفاسیر کی امام قرار دی جانے والی ’’ ام التفاسیر‘‘ بھی ، جس کا مرتب کردہ مواد آج تک کی لکھی گئی تمام تفاسیر میں موجو د رہا ہے، ایک ایسی ہی مشتبہ کردار کی حامل شخصیت ،یعنی امام کہلانے والے محمد بن جریربن رستم طبری ( المتوفی 310ہجری) کے ہاتھوں لکھی گئی۔ اس شخصیت کے بارے میں تحقیق و تفتیش کے کام کا بیڑا جناب مرحوم و مغفور حضرت علامہ تمنّا عمادی نے اٹھایا او راس مہم کو بحسن و خوبی اپنی کتاب ’’ امام زہری او رامام طبری ۔ تصویر کا دوسرا رخ ‘‘ میں قلمبند کیا۔ قارئین یہ چشم کشا تحریر مذکورہ کتاب میں مطالعہ کرسکتے ہیں جو اس مشتبہ منفی کردار کے حامل کے بارے میں بہت سے انکشافات پر مشتمل ہے۔ (جاری)
ستمبر ،2017، بشکریہ : صوت الحق ، کراچی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism