New Age Islam
Sat Jul 19 2025, 07:45 PM

Urdu Section ( 18 Dec 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Aurangzeb Supported Hindu Caste System, Giving Right to Bear Arms Only To Rajputs اورنگزیب نے ہندو طبقاتی نظام کی حمایت کرتے ہوئے صرف راجپوتوں کو ہتھیار اٹھانے کا حق دیا

مولانا عبد الحمید  نعمانی

16دسمبر،2024

 ہندوتوا وادیو ں نے حقائق وشواہد پر مبنی تاریخ لکھنے پرکبھی سنجیدہ توجہ نہیں دی۔ ان کی تمام تر توجہ من پسند کہانیاں اور ڈرامے لکھنے اور مفروضات کو حقائق باور کراکر اپنا تفوق قائم کرنے اور اس کے ذریعے سماج کے وسائل حیات کا اپنے لیے بھرپور استعمال واستحصال رہا ہے۔ اس کے لئے اعلیٰ ذات کے عناصر نے تواریخ اور سچائیوں کا قتل کرکے حقائق پر پردہ ڈالتے ہوئے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ باور کرانے کی زبردست مہم چلائی۔ انہوں نے مفاد عامہ اور ملک سماج کے عوام اور اکثریت کے مفاد میں کوئی تخلیقی و تعمیری کام انجام دینے کے بجائے، دیگر کے کارناموں کو مٹانے اور تیار کردہ یادگاروں پرقبضہ کرانے کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کے جائز، ناجائز طریقوں سے کام لیا۔ اس کی ایک نمایاں مثال اڑیسہ پوری کا جگن ناتھ مندر ہے۔ یہ تاریخی طور سے ثابت ہے کہ مندر، بودھ وہار کی جگہ ہے۔ سامنے کی مثال بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر ہے۔ اس طرح کی سرگرمیوں کے شکار ملک کے قدیم باشندے دراوڑ، موہن جوداڑو، آدی واسی، محنت کش طبقات، دلت، جین مت اور بدھ مت بھی ہوئے ہیں۔

 بھارت میں اسلام اور مسلمانوں کی آمد کے بعد ان کو لگا کہ ہمارے لیے امید کا راستہ کھل گیا ہے۔ علماء اور صالح مسلم تجار کے کام و کردار سے متاثر ہوکر ایک بڑی تعداد مشرف بہ اسلام ہوگئی۔ اگر ان کو مسلم حکمرانوں کا بہتر تعاون ملتا اور وہ انصاف وبرابری پرعمل کرتے ہوئے اکثریتی سماج کے مظلوم ومقہور طبقات کے افراد پر توجہ دیتے اور انسانیت وبھائی چارے کے فروغ میں مطلوبہ کردار ادا کرتے تو آج بھارت کی تصویر کچھ اور ہوتی۔

زبردستی اسلام پھیلانے کے الزام کی حقیقت کا پتہ اسی بات سے چل جاتا ہے کہ مسلم حکمرانوں کے مراکز، پایہ تختوں اور ان کے قرب و جوار میں ہمیشہ سے غیر مسلم اکثریت میں اور مسلمان اقلیت میں رہے ہیں اور اس حالت میں آج تک کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ ترک، مغل، پٹھان حکمراں، تھوڑے بہت فرق کے ساتھ سماجی لحاظ سے اونچ نیچ اور قبائلی وعلاقائی تفاخر میں برہمن وادی اور پروہت طبقے سے کوئی زیادہ مختلف نہیں تھے۔ بس مساجد کے کردار نے ایک امتیاز قائم کررکھا تھا۔ اس سلسلے میں ضیاء الدین برنی کی جارحانہ سوچ کی جھلک اس کی کتاب فتاویٰ جہاں داری اور تاریخ فیروز شاہی میں ملتی ہے۔ مذکورہ مسلم حکمرانوں نے بھارت کے مظلوم ومقہور طبقات اور محنت کش عوام کو اوپر اٹھانے اور مین اسٹریم میں لانے پر مطلوبہ توجہ دینے کے بجائے ان کو برہمنوں، پروہتوں اور ہند و سماج کے طبقاتی نظام کے اوپر کے تین طبقات برہمن، کشتری (چھتری) اورویش کے تحت استحصال کے لیے چھوڑ دیا اور ان کو حکومت کے کاموں کی انجام دہی میں اپنے نظام میں شامل کرلیا۔ اس سلسلے میں اچھے حکمرانوں میں شامل اورنگزیب بھی مختلف نظر نہیں آتا ہے۔ اس نے بھی منومہاراج کے طبقاتی نظام تقسیم کے مطابق جاری چلن کو باقی رکھتے ہوئے فرمان جاری کردیا کہ سوائے راجپوت کے دیگر اقوام کے ہندو ہتھیار نہ لگائیں اورہاتھی، پالکی، اور عراقی، عربی گھوڑے پر سوار نہ ہوں۔ اس فرمان کو محمد ساقی مستعد خان نے ماثر عالمگیری میں ’راجپوتوں کو عظیم ترین مراعات‘ کے تحت درج کیا ہے۔ ترک، مغل، پٹھان مسلم حکمرانوں نے ہندو سماج کے مبینہ اونچے طبقے کا حد سے زیادہ لحاظ رکھنے کی سوچ کے تحت کئی سارے ضروری امور کو نظر انداز کر دیا، جس کے بعد کے دنوں میں بڑے دور رس اثرات ونتائج مرتب و برآمد ہوئے۔ حد سے زیادہ لحاظ داری سے حوصلہ وتقویت پاکر ایک حصہ حکومت کے خلاف مسلسل بغاوت وسازش میں لگ گیا ۔

فرقہ پرست عناصر کا یہ گروہ ہندو مسلم تفریق ونفرت کو بڑھاوا دے کر اپنے مقاصد و عزائم کی تکمیل میں آج بھی پوری طرح سرگرم عمل ہے۔ اس کے لیے اسلامی، مسلم شناخت، تاریخی مقامات، معاند و ماثر، مسجد، مزار، مدرسہ سب قطعی ناقابل برداشت ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ راون کا سر کاٹنے سے کچھ نہیں ہوگا، اس کی نابھی پر وار کرو۔ ہر تاریخی ومعروف عمارت، مسجد، خانقاہ، مزار کو ہندو عمارت، مندر قرار دے کر اس پر قبضہ کرنے کی راہ گامزن ہے۔ اس گروہ کی پھیلائی ہوئی بیماری میں تقریباً تمام شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے افراد مبتلا و متاثر ہیں۔ اس بیماری کا صحیح علاج کیے بغیر صورت حال میں کسی بہتر تبدیلی کی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔ جب پارلیمنٹ کے اسپیکر، عدالتوں کے جج تک جانبداری اورفرقہ پرستی میں مبتلا اورآر ایس ایس سے وابستگی کا کھلے عام زبانی وعملی اظہار کرتے ہوں تو اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ بات کس حد تک ناگفتہ بہ ہوچکی ہے۔ تحفظ عبادت گاہ قانون کی موجودگی میں بھی مختلف تاریخی معابدہ وماثر کو مندروں کوتوڑ کر بنانے کے نام پر عدالتی سروے کی اجازت وہدایت ایک ناقابل فہم عمل اور تحفظ عبادت گاہ قانون اور اس کے مقصد کے خلاف ہے۔ کچھ دلت دانشور کہہ رہے ہیں کہ ایسا ان کی طرف سے مندروں میں بدھ مٹھ، استوپ تلاش کرنے کی بات کے سبب سے ہوا ہے۔ چاہے بابری مسجد کا معاملہ ہو یا جامع مسجد بنارس (جسے غلط طور سے گیان واپی مسجد کہا جاتا ہے) دھار کی کمال مولا مسجد ومزار(جسے غلط طور سے بھوج چالہ مسجد کہا جاتا ہے)، بدایوں مسجد، لکھنؤ کی ٹیلہ شاہ مسجد ہوں یا جامع مسجد سنبھل اور اجمیر میں حضرت خواجہ نوازؒ کی درگاہ ہو، سب کے متعلق مفروضات اور من گھڑت کہانیوں کے سہارے اصل تاریخ اور اسلامی ومسلم شناخت وکردار کو ختم کرنے کی کوششیں زوروں پر ہیں۔ دہلی جیسی راجدھانی تک جس طرح مسلسل تاریخی مساجد اور عمارتوں کے کردار اور شناخت ختم کرکے ان کو ہندو شناخت اور تفریح  و تماشا گاہوں میں بدلنے کے مذموم اقدامات کیے جارہے ہیں وہ واقف حال لوگوں سے مخفی نہیں ہیں۔ ہری شنکرجین، وشنو شنکر جین، وشنو گپتا اور جسٹس شیکھر یادو وغیرہم جن حوالوں سے باتیں کرکے اسلام کے مذہبی ومعاشرتی مسائل اور ملک کی تاریخ کے مسائل زیر بحث لا رہے ہیں۔ ان پر پہلے مرحلے میں بحث و گفتگو کی ضرورت ہے۔ مذہبی احکام ، تاریخ کے معاملے اور ہندو روایات وبیانات اورمذہبی کتب میں درج کہانیوں ونظریوں کے تناظر میں واضح سوالات کرنے اور باتیں کرنے کی ضرورت ہے۔

اس سلسلے میں خبروں پر محض تنقید و تبصرے سے کوئی زیادہ بہتر نتائج برآمد نہیں ہوسکتے ہیں۔ یہ متعین پرکہنا ہوا کہ جین اورگپتا کے دعوے تاریخی حقائق وشواہد پر مبنی نہیں ہیں۔ شیکھریادو کے ہندو دھرم شاستر، وید اور ہندو روایات کے نام پراسلام اور مسلمانوں کے خلاف بیانات بھی مذہب  و روایات اور عملی حالات کے بہتر معروضی وحقیقت پسندانہ مطالعے پر مبنی نہیں ہیں۔ ان کو کم از کم منوسمرتی کا پانچواں باب اور ڈاکٹر امبیڈکر کی کتاب رڈلس کامطالعہ کرلینا چاہئے۔ گروگولکر نے بھی لکھا ہے کہ ہمارے یہاں گوشت خوری ممنوع نہیں ہے۔ جسٹس یادو کی باتوں سے لگتا ہے کہ انہیں قربانی اور گوشت خوری کے سلسلے میں ہندو اکثریتی سماج اور اس کی روایات کی صحیح جانکاری نہیں ہے۔ اسی طرح اجمیر کی درگاہ کے ہندو مندر عمارت ہونے کی بات، ہر بلاس شاردا کی کتاب میں درج دعوے کے حیثیت مفروضہ سے زیادہ نہیں ہے۔ بالکل ایسا، جیسا کہ زمین کے گول ہونے پر چاول کی لمبائی سے استدلال کیا جائے۔ خواجہ غریب نوازؒ کی قبر تقریباً ڈیڑھ سو سال تک کچی حالت میں تھی، اسے پختہ کرکے عمارت کی شکل بعد میں دی گئی۔ اس لیے اسے کسی مندر کو توڑ کر بنانے کے دعوے میں نہ توکوئی معقولیت ہے اور نہ اس پر مستند تاریخی شہادت ہے۔

دیگر اسلامی معابد وماثر مسلم عمارتوں کے متعلق بھی یہی کہا جاسکتا ہے۔ اس کے سلسلے میں ہندوتو وادیوں کی طرف سے تمام ترسرگرمیاں اور کوششیں، تاریخ اور سچائی کو فرقہ وارانہ تاریکی میں ڈبو دینے کی مہم کا حصہ ہیں، ان کو تاریخ اور اس کے حقائق وشواہد کو سامنے لاکر ناکام بنایا جا سکتا ہے۔

16 دسمبر،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

-----------------

English Article:  Aurangzeb Supported Hindu Caste System, Giving Right to Bear Arms Only To Rajputs

URL: https://newageislam.com/urdu-section/aurangzeb-hindu-caste-system-arms-rajputs/d/134060

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..